جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔اوریہ کار خیر چند کرمفرماوں نےکر دکھایا۔۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا مسلم لیگ نے ٓآزادی کی جنگ لڑی۔۔انہوں نےسخت برہمی کا اظہار کیا کہ میں نے پاکستان بنانے کی تحریک میں مسلم لیگ اور قایؑد اعظم کے کردار کو یکسر صفر کر دیا۔۔۔یا مظہرالعجایؑب۔۔کویؑ فاترالعقل بھی دو قومی نظریہ کی تشکیل اور اسی بنیاد پر مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کے حسول میں مسلم لیگ کی جدو جہد سے انکار نہٰیں کر سکتا۔۔ یہ کارنامہ اس نے قانون کے دایرے میں رہتے ہوےؑ مزاکرات کی ٹیبل پر سر انجام دیا۔جناح کی با اصول قیادت میں کانگریس اور برٹش حاکموں سے دلیل کی بنیاد پر مسلمانوں کیلےؑ الگ وطن کی ضرورت کو تسلیم کرایا۔ مسلمانوں کی کسی اور جماعت کی اس میں ایک فی صد بھی حمایت شامل نہیں تھی مثلا جماعت اسلامی یا جمعیت علماےؑ ہند۔۔یہ تاریخ ساز معرکہ سو فیصد قایداعظم کی قیادت میں صرف اور صرف مسلم لیگ کی فتح تھی۔اسی نے انیس سو چھیالیس میں عبوری حکومت میں شمولیت کیلےؑ انتخاب لڑا تھا اور لیاقت علی خاں نے متحدہ ہندوستان کے وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو وہ بجٹ پیش کیا جو غریبوں کا بجٹ کہلایا۔۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکرنہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ایک اورحلقہ دانشوراں نے یہ پہلو تلاش کیا کہ میں تشکیل پاکستان کو متنازع بنا رہا ہوں۔۔یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت اور ریاست کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔اگر میں یا ٓپریس حکومت کو برا کہیں تو واویلا کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے دشمن ہیں۔۔ ایک لطیفہ حسب حال ہے۔۔کسی انٹرویو میں ذہنی کیفیت کا اندازہ کرنے کیلےؑ ماہر نفسیت نےایک امیدوار کے سامنے کاغذ پرسیدھی لکیر بنا کےپوچھا ۔۔ یہ کیا ہے؟ امیدوار نے کہا کہ سیکس۔۔اس کو ایک تکون دکھاکے سوال دہرایا گیا تو جواب وہی کہ سیکس۔۔ایک مربع۔۔کراس یہاں تک کہ صرف نقطہ پر بھی اس کا رد عمل نہیں بدلا تو ماہر نفسیات نے تنگ اکے کہا کہ نوجوان تمارے دماغ میں اتنی سیکس کیوں ہے۔۔ امیدوار دم بخود رہ گیا۔۔اس نے کہا کہ سر۔۔یہ سب سیکس تو اپکے دماغ میں تھی۔میں نے تو یہ فحش علامات نہیں بناییؑں
تو ملک دشمن کا تصور دیکھنے والے کی نظر میں ہے اوروہ کراچی کو کچراچی کہنے والے کو بھی ملک دشمن قرار دے سکتے ہیں اور معاشی بد انتظامی پر خراب رانے دینے والے کو بھی۔۔فتوے جاری کرنا وہ کام ہے کہ جو کچھ نہیں کر سکتا وہ بھی یہ کام کر لیتا ہے ۔ مجھے اس ملک کا باسی ہونے پر فخر ہے ۔اس ملک نے مجھے عزت کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کو قدرت نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔۔ہم اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک پیدا کر رہے ہیں۔ اگر ایک طبقہ بھوکا ہے تو یہ تقسیم کاروں کا گناہ ہے۔۔اگر ملکی چینی ذخیرہ اندوز گوداموں میں بند کرکے قلت پیدا کرتے ہیں اور پھر ایک سو دس روپے کلو بیچ کر اربوں کما تے ہیں تو پاکستان کیسے برا ہوا۔۔ اگر ہم نےاسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطاق کل قومی آمدنی کا ایک تہایؑ ایک سو چوبیس ارب ڈالر اور ہزاروں ہم وطن اور تیس برس امریکہ کی جنگ میں جھونک دےؑ تو اسےغلطی کہنا جرم؟ یہاں کویلے گیس اور قیمتی معدنیات کے بے حساب ذخایؑر ہیں۔۔اتنا پھل پیدا ہوتا ہے اور اتنا اعلی کہ یورپ امریکہ رشک کریں۔۔ ہمارے ڈاکٹر باہراعلیٰ ترین شمار ہوتے ہیں ۔ صادقین جیسے خطاط سے ارفع کریم جیسی جینیس ایؑ ٹی ماہر۔ورلڈ اسکوایش کا صدر جہانگیر خان اور آیؑ سی سی کا صدر ظہیرعباس پاکستانی ہیں۔میں جانتا ہون کہ قحط اور خانہ جنگی ۔جہالت اور وبایؑ امراض سے کیڑے مکوڑوں کی طرح کن ممالک کے عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں ،میں سوییٹزر لینڈ سے زیادہ حسن قدرت رکھنے والے کاغان سوات اور گلیات کا دسیوں بار نظارہ کر چکا ہوں۔میں یا میرے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں اور ان کے بچوں میں سے کسی نے بھی پاکستان نہیں چھوڑا۔۔۔ لیکن۔ ۔۔۔۔۔
۔۔میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔اور نہ کہوں گا۔۔ وہی سچ لکھتا رہوں گا جومکمل سچ ہے۔۔سچ کےسوا کچھ نہیں ہے
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1168181203263896