80کی دہائی تک جنات کی زبان کچھ اور تھی، وہ انسانوں کو دیکھ کر ’آدم بو آدم بو‘ کیا کرتے تھے۔ 90 کی دہائی تک وہ ’ہوہوہاہا‘ کرتے رہے۔ آج کل شائد گونگے ہوگئے ہیں، بولتے کچھ نہیں بس کسی سائے کی طرح جھلک دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔گئے وقتوں میں عورتیں چھت پر کھلے بال جاتی تھیں تو جن عاشق ہوجاتے تھے، آج کل چھتوں پر ڈانس کرتی ہیں سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں لیکن جنات ایک نظر بھی ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔پہلے رات کے وقت لوگ گھروں میں دبک جاتے تھے کیونکہ جنات انہیں راستے میں چمٹ جایا کرتے تھے، آج کل رات کو نکلیں تو پیچھے سے ون ٹو فائیو کی آواز سن کر دل دہل جاتا ہے۔چالیس پچاس سال پہلے تک اگر کوئی باامر مجبوری درخت کو ’سیراب‘ کرتا تھا تو جنات اُسے بھی چمٹ جایا کرتے تھے اور اس بدتمیزی کے بدلے اسے عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا کردیتے تھے۔ آج کل شائدجنات اس لیے کسی کو کچھ نہیں کہتے کہ کس کس سے بدلہ لیں۔آپ کو یاد ہوگا ویران گذر گاہوں پر الٹے پاؤں اور لمبے دانتوں والی چڑیل گھوما کرتی تھی۔ وہ بھی شائد مرکھپ گئی ہے کیونکہ آجکل ویرانوں میں زیادہ رونق ہوگئی ہے۔پہلے وقتوں میں جنات کے سینگ ہوا کرتے تھے، اب نہیں ہوتے بلکہ ان کی جگہ ’سینگ اے سونگ‘ والے جن آگئے ہیں۔پرانے جن تہذیب یافتہ اور پردہ دار تھے۔ ان کی صرف حرکتیں دکھائی دیتی تھیں خود وہ نظروں سے اوجھل رہنا ہی پسند کرتے تھے۔یہ اکثر کسی کے گھر اینٹیں وغیرہ یا دیواروں پر خون کے چھینٹے وغیرہ پھینک کر دل بہلا لیا کرتے تھے۔آج کل یہ جس گھر میں بھی جاتے ہیں وہاں کے درودیوار پہلے ہی خون میں لت پت ہوتے ہیں۔کتنے اچھے جنات تھے پرانے۔ صرف اکیلے بندے کو ڈراتے تھے۔ ایک سے زیادہ بندوں کی صورت میں یہ خود ڈر جایا کرتے تھے۔یہ جس لڑکی پر بھی عاشق ہوتے تھے اس کی شادی اس کی پسند کے لڑکے سے کرواکے چھوڑتے تھے۔جنات قبرستان میں بھی رہتے تھے تاہم شہر پھیلنے کی وجہ سے ان کی اکثریت کوچ کرچکی ہے البتہ کبھی کبھار کوئی انسان شکل والا جن کسی لڑکی کی قبر کھود تے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ سچ پوچھیں توکبھی کبھی لگتاہے جیسے جنات بھی اپنا شاندار ماضی بھولتے جارہے ہیں۔پہلے یہ کسی جلالی بابے کے دم سے ہی نکل جایا کرتے تھے، اب یہ انسان کو نکال دیتے ہیں اور خود اندر ہی رہتے ہیں۔کہاں گئے وہ جنات جو اناج کی بوریاں کھاجایا کرتے تھے؟ اب تو ذخیرہ اندوزوں کے گودام کے گودام بھرے رہتے ہیں اور کوئی چوری نہیں ہوتی۔شائد سی سی ٹی وی کیمروں کی وجہ سے جنات بھی محتاط ہوگئے ہیں۔ہوا میں اڑنے والے جناب بھی ناپید ہوگئے ہیں۔پہلے جنات پلک جھپکتے میں دنیا بھر کی خبریں لادیاکرتے تھے اب شائد کسی جن سے یہ سہولت مانگی جائے تو وہ گھور کر کہے گا”ماما گوگل کر‘۔
عشروں پہلے کے جنات لگ بھگ جانوروں جیسی شکل کے ہوا کرتے تھے، ان کی دم بھی ہوتی تھی اورجسم پر لمبے لمبے بال بھی۔ اس کے باوجود وہ چونکہ شرم و حیاء والے جنات تھے لہذا ان کی جتنی بھی تصاویر رسالوں میں شائع ہوتی تھیں ان میں انہوں نے باقاعدہ سترپوشی کی ہوتی تھی۔پرانے جنات ہر مذہب کے ہوتے تھے لہذا جلالی بابا کے پوچھنے پر اپنا مذہب وغیرہ فوراً بتا دیا کرتے تھے۔ اب بارڈر کراس کرنا کوئی آسان کام نہیں رہا لہذا جنات بھی ہر جگہ لوکل ہوگئے ہیں۔وہ وقت یاد کیجئے جب کسی جگہ جنات کا شبہ ہوتا تھا تو شاہ جنات کا حوالہ دینے پر کوئی وقوعہ پیش نہیں آتا تھا۔کتنے اچھے تھے وہ جنات جنہیں کوئی دکھ ہوتا تھا تو رات کے وقت بلی کے جسم میں گھس کر دھاڑیں مار مار کر رو لیا کرتے تھے۔ بلی کے رونے کی آوازتو آج بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس میں جن کی بجائے جدائی کا دکھ زیادہ محسوس ہوتاہے۔یہ کبھی کبھی گدھے کے جسم میں بھی گھس جاتے تھے تاہم کچھ ظاہری علامات کی وجہ سے سیانوں کو پتا چل جاتا تھا کہ اس گدھے میں جن آچکا ہے۔ان جنات کے بچے بھی ہوتے تھے جو ماں باپ کے منع کرنے کے باوجود انسانوں کو تنگ کرتے تھے۔ ظاہری بات ہے اب تک یہ بچے جوان ہوچکے ہوں گے اور سمجھ چکے ہوں گے کہ انسانوں کو تنگ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ کام انسان اُن سے بہتر کرسکتے ہیں۔پرانے جنات عموماً چراغوں اور پرانی بوتلو ں میں اپنی سزا کے دن گذارا کرتے تھے اور جوکوئی بھی انہیں رہائی دلاتا تھا اس کی دو تین خواہشیں ضرور پوری کیا کرتے تھے۔ اب یہ شائد اس لیے بھی نظر نہیں آتے کیونکہ انسان کی کوئی ایک خواہش تو رہی نہیں۔پہلے وقتوں میں گھر کے چاروں کونوں میں کلمات پڑھ کر پھونکنے سے جنات نہیں آتے تھے۔ اب گھس آتے ہیں، دروازے توڑ کر، دیواریں پھلانگ کر۔ یہ جدید والے جنات کسی کی نہیں سنتے۔بس سب کچھ سمیٹتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی طرح سیکنڈوں میں غائب ہوجاتے ہیں۔کبھی کبھی لگتا ہے دنیا پرانے جنات سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ افسوس اب وہ جنات ہی نہیں رہے۔ وہ جنات جو کبھی بزرگ کی شکل میں آتے تھے اور کبھی راہگیر کی شکل میں مدد کردیا کرتے تھے۔شاید جنات کو بھی پتا چل گیا ہے کہ انسانی شکل اختیار کرنا خطرناک ہوچکا ہے۔آپ میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ ماضی کے جنات دو تین سو فٹ لمبے ہوتے تھے، ان کی ایک خاص پہچان ہوتی تھی کہ جب یہ انسانی شکل اختیار کرتے تھے تو پلکیں نہیں جھپکتے تھے۔ میں نے کل کچھ لڑکوں کو دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ جنات تھے کیونکہ وہ گرلز کالج کے باہر موجود تھے جونہی چھٹی ہوئی ان کی آنکھیں گیٹ کی طرف اٹھیں۔میں کافی دیر تک ان کی آنکھوں کی طرف دیکھتا رہا……اِن میں سے کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی پلکیں نہیں جھپکیں ……!!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...