قیام پاکستان کا تصور محمدعلی جناح اور مسلم لیگ نے کانگریس سے محض سودے بازی کے لئے پیش کیا تھا یا جناح تقسیم ہند اور ایک ’اسلامی‘ پاکستان کے قیام کے لیے حقیقی معنوں میں سنجیدہ تھے؟ یہ سوال پاکستان کے قیام کے محرکات اور وجوہات کے تناظر میں بہت اہم ہے۔عائشہ جلال نے1985 میں کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے ڈاکٹریٹ کے تھیسس: جناح واحد ترجمان،مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جناح پاکستان بالکل نہیں چاہتے تھے وہ تو محض ہندوستان کی جغرافیائی حدود کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ آئینی مراعات اور حقوق کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ کانگریس، گاندھی اور نہرو کی ہٹ دھرمی تھی جس کی بنا پر جناح پاکستان کے مطالبے پر ڈٹ گئے اور پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا۔ عائشہ جلال کا یہ تھیسس دراصل جناح کی فرقہ واریت پر استوار سیاست کی معذرت خواہی پر مبنی تھا۔ یہ تھیسس ان دانشوروں کو بہت پسند آیا جو جناح کی مسلم علیحدگی پسندی کی سیاست کا سیکولر جواز تلاش کرنے کے خواہاں تھے۔
2009 میں بھارت کے وزیر خارجہ اور بی۔ جے۔پی رہنما کی کتاب: جناح،بھارت کی آزادی اور تقسیم شایع ہوئی۔ جسونت سنگھ نے اپنی اس کتاب میں تقسیم کا ذمہ دار کانگریس اور اس کی قیادت کو قراردیا اور لکھا کہ اگر کانگریس ڈٹ جاتی تو جناح کے لئے پاکستان کا حصول ممکن نہیں تھا۔ جسونت سنگھ کی اس کتاب کو پاکستان میں پذیرائی ملی اور مختلف شہروں میں جسونت سنگھ کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی گئیں اور مقررین نے جسونت سنگھ کے تھیسس کو سراہا اور اس کی تحسین کی تھی۔ جسونت سنگھ کی کتاب کے حوالے سے یہ حقیقت نظرانداز کی گئی کہ اس کو لکھنے والا کوئی مورخ نہیں بلکہ سیاست دان تھا اور سیاست دان بھی وہ جس کا تعلق انتہا پسند ہندو سیاسی جماعت بی۔جے۔پی سے تھا۔ جسونت سنگھ کا مقصد جناح کی گلورفکیشن سے زیادہ کانگریس کو تقسیم کا ذمہ دار قرار دے کر مطعون کرنا تھا۔
عائشہ جلال ہوں یا جسونت سنگھ دونوں غیر محسوس سے طریقے سے جناح سے وہ کریڈٹ چھین رہے تھے جوپاکستانی ریاست اور نظریہ دان انھیں دیتے چلے آرہے تھے۔ پاکستان کا ریاستی بیانیہ اس بنیاد پر استوار ہے کہ قیام پاکستان جناح کا روز اول سے مقصد تھا اور وہ کبھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے تھے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد جو قبل ازیں اپنی دو کتابوں۔۔۔ پنجاب کا بٹوارہ اور پاکستان: ایک گیریژن سٹیٹ کی بدولت بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں،نے جناح کی سیاست، کامیابیاں، ناکامیاں اور تاریخ میں ان کے رول کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد عائشہ جلال کے اس تھیسس سے متفق نہیں ہیں کہ جناح پاکستان کا تصور سودے بازی چپ کے طور پر استعمال کررہے تھے اور حقیقت میں وہ پاکستان بنانے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ ڈاکٹراشتیاق احمد کا موقف ہے کہ برطانیہ کو اندیشہ تھا کہ آزاد بھارت خطے میں برطانوی مفادات کے تحفظ میں اس کی مدد نہیں کرے گا جب کہ جناح اس کام کے لئے یکسو اور تیار تھے۔ یہی وہ مقصد تھا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے برطانیہ سیاست دان اور انتظامی عہدیدار جناح کی سیاست سے ہمدردی رکھتے اور ممکن حد تک اس کو پرموٹ کرتے تھے۔
جناح پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ڈاکٹر اشتیاق احمد اس دعویٰ سے بھی اتفاق نہیں کرتے ان کے نزدیک جناح کی 11اگست 1947 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو بنیاد پر یہ کہنا کہ وہ سیکولر پاکستان چاہتے تھے درست نہیں ہے۔ انھوں نے اس تقریر سے پہلے اور اس کے بعد متعدد مواقعوں پر پاکستان کو اسلام کی لیبارٹری بنانے کی بات کی تھی۔
جناح اقلیتوں کے حوالے سے ’یرغمال تھیوری‘ پر یقین رکھتے تھے۔پاکستان میں موجود ہندو اور سکھ اقلیت کو بھارت میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ڈاکٹر اشتیاق احمد کا موقف ہے کہ 1920 کے بعد جناح نے سیکولر ازم اور ہندوستانی نیشنلزم سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔وہ ہندووں اور مسلمانوں کو دو متحارب اور مخالف قومیں خیال کرتے تھے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ جناح کی مسلم علیحدگی کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ جب مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دیا جائے گا تو اقلیتوں سے امتیازی سلوک کا روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے