برف اور آگ۔ یہ انجام ان دو سائنسدانوں کے کام کا تھا جنہوں نے جینیات کی پہلی بڑی دریافتیں کی تھیں۔ ان دونوں میں کئی چیزوں کی مماثلت تھی۔ دونوں کی موت کسی کے لئے خبر نہیں تھی، کوئی آنکھ ان کے لئے آنسو بہانے والی نہیں تھی اور ان کو جلد بھلا دیا گیا تھا۔ ایک کی زندگی کا کام آگ کی نذر ہو گیا اور دوسرے کا برف کی۔
گریگور مینڈل کا کام 1884 کے موسمِ سرما میں ان کے ساتھی راہبوں نے نذرِ آتش کر دیا۔ تمام نوٹ بکس، تجربات کے نتائج، ریکارڈ ۔۔۔ کسی کو بھی اس سب میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ مینڈل کی موت کے بعد اس کو آگ کے ذریعے تلف کر دیا گیا تھا۔ مینڈل نے جین دریافت کی تھی۔
اسی سال اسی موسم میں جوہانس فریڈرک مائیشر کے کام کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا۔ سالمن کے خلیوں کو سٹڈی کرنے کے لئے ان کے پاس ریفریجریٹر نہیں تھا۔ ان کا طریقہ سخت سردی میں کھلی کھڑکیوں کے ساتھ کام کرنے کا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اہم دریافت کی تھی، لیکن ان کا کام بھی نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے ڈی این اے دریافت کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینڈل اور مائیشر نے جس وقت میں یہ کام کیا تھا، اس وقت وراثت کے بارے میں لوگوں کی سوچ قصے کہانیوں پر مبنی تھی۔ ہر ایک کو یہ تو پتا تھا کہ بچے کا تعلق والدین سے ہوتا ہے۔ بالوں یا آنکھوں کا رنگ، گنجا پن، ٹھوڑی کی بناوٹ یا بہت سی دوسری خاصیتیں والدین سے آتی ہیں لیکن کیسے؟ یہ کہانیوں کا علاقہ تھا۔ پیدائش سے پہلے ماں نے کیا کھایا، کسے دیکھا، کیا واقعات ہوئے۔ ان روایتوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ پیدائش کے وقت ایک آنکھ، بیرونی دل، بالوں سے بھرا جسم، اعضاء میں خرابی ۔۔۔ پیدائشی نقائص کو گناہ یا کئے کے سزا یا وارننگ سمجھا جاتا تھا۔ ایک مثال سکاٹ لینڈ کے بیلف کی تھی جس نے دو خواتین کو مذہب مخالف کلمات ادا کرنے کے الزام میں پہلے کوڑوں سے مارا تھا اور پھر باندھ کر سمندربرد کر دیا تھا اور پھر ہنس کر سب کو بتایا کرتے کہ اس دن کیکڑوں کی ضیافت ہوئی ہو گی۔ جب اس کے گھر پیدا ہونے والے بیٹوں کے ہاتھ نارمل نہیں ہوئے تھے تو پھر چہ میگوئیاں یہ تھیں کہ کیکڑوں جیسے ہاتھ ان کے لئے عذاب ہے کیونکہ خواتین بے گناہ تھیں۔
ہومن کولس کا عجب خیال بھی بڑا عرصہ مقبول رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیشر کے دنوں میں بائیولوجسٹ ان قصے کہانیوں سے آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ مائیشر کی فیمل کا تعلق میڈیسن سے تھا۔ قوتِ سماعت کھو دینے کی وجہ سے یہ ڈاکٹر تو نہیں بن سکتے تھے اس لئے تحقیق کی طرف چلے گئے۔ ہوپ سیلر لیب میں مائیشر کو ایک پرانے کچن میں جگہ ملی۔ ہوپ سیلر کا کام خون کے سرخ خلیوں پر تھا۔ انہوں نے مائیشر کو خون کے سفید خلیوں پر تحقیق کا کام دیا۔ ان خلیوں میں ایک چھوٹا سا اندرونی کیپسول تھا جسے نیوکلئیس کہا جاتا تھا۔ اس وقت سائنسدان اس کو نظرانداز کرتے تھے اور ان کی توجہ سائٹوپلازم پر تھی جو خلیے کا بڑا حصہ تھا۔ اس نیوکلئیس کا کوئی معلوم فنکشن نہیں تھا۔ لیکن مائیشر نے باقی سب چھوڑ کر اس کا تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
قریب کے ہسپتال سے پیپ کی پٹیوں سے انہوں نے اس کام کو شروع کیا لیکن یہ نیوکلئیس ذرا فرق ہی تھا۔ نہ یہ نمکین پانی میں حل ہوتا تھا، نہ سرکے میں اور نہ ہی ہلکے تیزاب میں۔ مائیشر نے اس کا کیمیائی تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائیٹروجن تو نکلے لیکن تین فیصد فاسفورس بھی۔ فاسفورس پروٹین میں نہیں ہوتی۔ یہ کچھ مختلف شے تھی۔ اس کا نام نیوکلین دیا جس کو بعد میں سائنسدانوں نے ڈی آکسی رائیبو نیوکلئیک ایسڈ یا ڈی این اے کہا۔
مائیشر اس پر کام کرتے رہے اور اپنے نتائج ہوپ سیلر کو دکھائے۔ ہوپ سیلر کا خیال تھا کہ مائیشر نے غلطی کی ہے اور اپنے تجربات دہرانے کا کہا۔ ایک ایک پٹی، ایک ایک قدم کے بعد اگلے دو سال میں بھی نتائج وہی رہے۔ 1871 میں شائع کردہ پیپر میں ہوپ نے سیلر نے ان کی تعریف کی اور ان کو ڈی این اے کی دریافت کا کریڈٹ مل گیا،
ایک اور جرمن سائنسدان نے یہ دریافت کیا کہ یہ خود کئی قسم کے چھوٹے مالیکیول سے مل کر بنا ہے جس میں فاسفیٹ اور شوگر ہیں اور نیوکلئیک بیسز ہیں۔ ایڈینین، سائیٹوسین، گوانین اور تھائیمین۔ (اب ہن یہ جانتے ہیں کہ یہ وہ چار حروفِ تہجی ہیں جو اس کو لکھتے ہیں اور چکردار سیڑھی کا سٹرکچر بناتے ہیں لیکن اس دریافت تک پہنچتے ہوئے مزید 80 برس لگے)۔
مزید ہونے والی دریافتوں میں خلیاتی تقسیم کے وقت کروموزوم کی تقسیم تھی جس سے کچھ اندازہ ہوا کہ کروموزوم کی کچھ اہمیت ضرور ہے ورنہ خلیے یہ سب کرنے کا تکلف نہ کرتے۔
مائیشر اپنے تجربات کو خون سے مچھلی کے سپرم تک لے آئے تھے اور نتیجہ نکالا تھا کہ نیوکلئیس ڈی این اے کو سٹور کرنے کا ڈبہ ہے اور ساتھ دعوی یہ کیا تھا کہ وراثت میں ملنی والی خاصیتوں کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ مائیشر بڑی حد تک ٹھیک تھے لیکن ان کے خیالات کو پذیرائی نہیں ملی۔ برسوں تک سردیوں میں اس کی تلاش کے بعد آخر کار انہوں نے ڈی این اے پر کام کرنا چھوڑ دیا۔ ڈی ان اے اور وراثت کے تعلق کے خلاف آراء مضبوط ہوتی جا رہی تھیں۔ ڈی این اے کے اے، سی، جی اور ٹی پروٹین کے مقابلے میں بہت سادہ تھے۔ زندگی کی کنجی ان کے پاس بھلا کیسے ہو سکتی تھی؟ سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ڈی این اے کام خلیے کے لئے فاسفورس سٹور کرنا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
کئی سالوں کی بریک کے بعد مائیشر واپس لیبارٹری میں آ گئے۔ وہ اس تعلق کو ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن خلیے کو محفوظ رکھنے کے لئے سرد موسم میں کھڑکیاں کھول کر کام کرنے والے مائیشر کی جان نمونیا نے لے لی۔ ان کے چچا، جو خود سائنسدان تھے، نے ان کا کام اکٹھا کیا اور کتاب کی صورت میں شائع کروایا۔ انہوں نے لکھا، “مائیشر کا کام وقت کے ساتھ اہم ہوتا جائے گا”۔ شاید یہ بس مرنے والے کی یاد میں کہے گئے پرامید الفاظ ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینڈیل ایک کسان کے بیٹے تھے جنہوں نے چرچ کے وظیفے پر انہوں نے ویانا یونیورسٹی میں سائنس پڑھی۔ پادری نے انہیں حیاتیات کی طرف آنے کا مشورہ دیا تا کہ بہتر بھیڑوں، اچھے پھلوں کے درختوں پر کام کر سکیں۔ مینڈل کئی چیزوں پر کام کرتے رہے۔ سورج کے دھبے، طوفان، شہد کی مکھیوں میں دلچسپی رہی اور آسٹریا کی میٹیرولوجیکل سوسائٹی قائم کی۔
جب مائیشر تحقیق کے میدان میں آئے، اس وقت ان سے چار سو میل دور مینڈیل نے سینٹ تھامس میں مٹر کے پودوں پر دلچسپ تجربے شروع کئے۔ مٹر پر تجربوں کو کنٹرول کرنا آسان تھا کیونکہ ان کو اپنی مرضی سے پولینیٹ کیا جا سکتا تھا۔ لمبے پودے اور چھوٹے پودے، سبز مٹر اور زرد مٹر، شکنوں والے مٹر اور سموتھ مٹر۔ ایک ایک خاصیت چن کر انہوں نے تجربے کئے۔ تین اور ایک کے تناسب سے نکلنے والے نتائج نے جینز اور ان کے ڈومیننٹ اور ریسسو ہونے کا بتا دیا۔ سات الگ خصائص چن کر کئے جانے والے تجربات، حیاتیات میں زندگی کا راز ڈھونڈنے کے لئے تجربوں کا انوکھا ڈیزائن تھا۔
اگرچہ مینڈیل نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا لیکن انہوں نے وراثت میں جانے والے ڈسکریٹ فیکٹر جسے ہم جینز کہتے ہیں، ان کو شناخت کر لیا تھا۔ میںڈیل کے مٹر بائیولوجی کی دنیا میں نیوٹن کا سیب تھے۔ جینیات شماریات کی مدد سے ریاضی میں داخل ہو گئی تھی۔ انہوں نے یہ طریقہ اپنے موسم کی شماریات کے شوق سے تلاش کیا تھا۔
مینڈیل کے کام کو ان کی زندگی میں اہمیت نہیں ملی۔ انہوں نے مٹروں کی وراثت پر اپنا پیپر 1865 میں ایک کانفرنس میں پڑھا۔ اس پر نہ کسی نے سوال کیا اور نہ کسی نے بحث۔ اس کی ریاضی کی کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی۔ اگلے سال انہوں نے اپنا پیپر شائع کروایا۔ ردِ عمل ۔۔۔ خاموشی۔
مینڈیل اگلے کئی برس اس پر کام کرتے رہے۔ 1868 میں اپنی خانقاہ کے پادری الیکٹ ہو گئے۔ سیاست میں وقت لگانے لگے۔ چرچ پر لگائے گئے ٹیکس سے لڑائی ان کی ترجیح بن گئی لیکن سائنس بھی کرتے رہے۔ ان کی موت 1884 میں ہوئی۔ جس کے بعد ان کا سارا کام تلف کر دیا گیا۔
ان کے کام کی اشاعت کے 35 سال بعد تک ان کا کام صرف گیارہ جگہ پر سائٹ کیا گیا تھا، اور یہ کرنے والے بھی صرف زرعی سائنسدان تھے، جو اچھے مٹر اگانے کے طریقے دیکھ رہے تھے۔ لیکن اس دوران ہونے والی دریافتیں مینڈیل کے خیالات کو سپورٹ کر رہی تھیں۔ تین بائیولوجسٹ جن کے الگ الگ کئے گئے تجربات کے نتائج 1900 میں مینڈیل کے کام کے مطابق نکلے تھے، ان کی وجہ سے مینڈیل کا کام پہلی مرتبہ لائم لائٹ میں آیا۔
مینڈیل نے اپنے ایک ساتھی سے ایک مرتبہ کہا تھا، “ایک دن میرا وقت بھی آئے گا”۔ اور ایسا ہی ہوا۔ 1900 کے بعد ان کا کیا گیا کام بائیولوجی میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ تصویر اس لیبارٹری کی ہے جہاں پر مائیشر نے پہلی مرتبہ ڈی این اے دریافت کیا تھا۔