یہ نظم 190سال قبل 1827میں الیگزنڈر پوشکن نے روس کی پہلی سیاسی تنظیم ’’دسمبرسٹ‘‘ (Decembrists)کے ان جانباز انقلابی ساتھیوں کے نام کہی تھی جو مطلق العنان حکومت اور کسانوں کی غلامی کے انسداد کے لیے زارِ روس ، اس کی جابر سپاہ اور شیطانی ریاستی مشین کے کل پرزوں سے ٹکرائے تھے اور بدلے میں پھانسی پھندے ، سائیبریا کی جلاوطنی ، زندانوں کے شکنجے اور تاریک تہہ خانے پائے تھے ۔
1825میں زار شاہی اس تحریک پر خوفناک طریقے سے حملہ آور ہوئی اور اگلے تیس سال تک انقلابی رہنماؤں ، سیاسی مساعی پسندوں، دانشوروں اور شعرا، ادبا کے خلاف سائبیریا کی جلاوطنیوں ،کال کوٹھریوں اور پھانسی گھاٹ کی سزاؤں کا بازار گرم رہا۔
1926میں اس تحریک کے پانچ سرکردہ رہنماؤ ں ریلے یف ،پیستل، موراوپوف،بیستو ژیف اور اپوستل کو پھانسی دی گئی اور سوسے زائد کو عمر بھر کے لیے سائبیریا جلاوطن کیا گیا۔
ترقی پسند ادب اور انقلابی خیالات پر روک لگانے کے لیے کتابوں، رسائل اور اخبارات پر کڑی سنسر شپ عائد کی گئی۔اسی دسمبری تحریک سے الہام پانے والا’’کامریڈ‘‘ پوشکن ایک بہادر شاعر وادیب تھا جو نہ صرف زار شاہی روس میں جبر کی جہنمی تلوار تلے نہ صرف یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا تھا بلکہ لمحے کو قید کرتے وقت وہ کسی دور دراز خطے کے مستقبل بعید میں جھانکنے کی زبردست صلاحیت بھی رکھتا تھا۔
اے میرے پسندیدہ اور جواں مرگ شاعر!
دو قرن قبل دسمبری سربازوں سے مخاطب ہو کر تو نے ہمارے سینوں میں کیونکر جھانک لیا تھا؟
اے انقلابی روح!
دسمبری جانبازوں کی یاد کو تو نے صدیوں بعد کن کن کے پیاروں کی یاد کے ہم دوش کر دیا.
سو بزبانِ پوشکن
جلاوطن دوستوں کے نام
سائبیریا کے سنگلاخ دور دشت میں
تمھارے دل قوی رہیں ، عزم سر بلند ہو !
رائیگاں نہ جائیں گی تمھاری کاوشیں !
نظر کی لو اٹھی رہے ، یہ ولولہ دوچند ہو !
برے سمے کا ساتھ دینے والی ایک آس ہے
غموں کی باوفا بہن ، سدا غموں کے پاس ہے
ہنسی خوشی گزاردے گی دن برے،رکھےگی تم کوتازہ دم
وہ صبح جس کی آرزو ہے ، لے گی ایک دن جنم
ہرے بھرے ہیں الفتوں کے ، یادِ یار کے چمن
مہک اڑے گی سیخچوں کے پار جا کے چوم لے گی پیرہن
مری نوائے شوق جس طرح اڑی ، ادھر گئی
تمھاری قید کے مہیب غار میں اتر گئی
یہ بھاری بھاری بیڑیاں گریں گی کٹ کے ایک دن
قفس کی تیلیاں اچٹ کے ایک دن
تمھیں خوشی سے راہ دیں گی ، جب قدم بڑھاؤ گے
تو ہمدموں سے ، بھائیوں سے تیغ اپنی پاؤ گے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“