جِگ سا (Jigsaw) ایک کھیل ہے۔ایک تصویر کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ان ٹکڑوں کو ڈبے میں بند کر کے خوبصورت پیکنگ کی جاتی ہے اور کھلونوں کی دکان میں پہنچا دیا جاتا ہے۔بچے (اور بعض اوقات)بڑے بھی خریدتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔جوڑنے میں وقت لگتا ہے۔ایک ٹکڑے کو آپ پائوں سمجھتے ہیں اور پائوں والی جگہ پر رکھتے ہیں۔وہاں وہ فٹ نہیں آتا۔تصویر کی سینس بھی نہیں بن رہی ہوتی۔پھر آپ اسے پیٹ پر رکھتے ہیں۔وہاں بھی بات نہیں بنتی۔ہوتے ہوتے‘ کرتے کرتے‘ رکھتے رکھتے اور ہٹاتے ہٹاتے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ سر کا ٹکڑا ہے اسی طرح آپ باقی ٹکڑوں کو بھی ان کی اصل جگہ پر رکھتے جاتے ہیں۔اور آخر کار تصویر مکمل ہو جاتی ہے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی بنیادی طور پر جگ سا کا کھیل ہے۔مذاکرات کرنے والوں نے تصویر کاٹ کر رکھی ہوئی ہے۔اس کی پیکنگ کر کے مارکیٹنگ کر دی گئی ہے۔عوام اس جِگ سا کے ٹکڑوں سے کھیل رہے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں ہو رہا کہ اصل تصویر کس کی ہے اور آخر کار کون سی شکل بنے گی۔اس شکل کا اصل علم صرف تصویر بنا کر اسے ٹکڑوں میں کاٹنے والوں کو ہے۔یہ اصل شکل‘ جو مطلوب و مقصود ہے‘ فوراً نہیں ظاہر کی جاتی۔ٹکڑے آہستہ آہستہ اپنی اپنی جگہ پر فٹ ہو رہے ہیں۔مثلاً ایک ٹکڑا دیکھیے:
’’حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات سے ایک طرف قبائلی علاقوں میں مقیم غیر ملکی جنگ جوئوں نے اپنے لیے محفوظ راستہ ملنے کی امید ظاہر کی ہے تو دوسری جانب کئی بیرونی عسکریت پسندوں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘
جِگ سا کا ایک اور ٹکڑا دیکھیے:
’’اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے ایک سینئر رکن نے بتایاکہ ہمارے میزبانوں نے مذاکرات شروع کرنے سے قبل ہمیں اعتماد میں نہیں لیا تھا۔اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ حکومت انہیں ایسی تنگ جگہ میں لے جائے گی جہاں ان کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔‘‘
جِگ سا کا تیسرا ٹکڑا دیکھیے:
’’ایک سعودی شہری شیخ…نے کہا کہ جہاد کسی ایک سرزمین تک محدود نہیں۔اس وقت شام اعلیٰ ترین جہادی محاذوں میں سے ایک ہے۔‘‘
اب سب سے بڑا ٹکڑا دیکھیے‘جس سے مکمل تصویر کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔
’’سرکاری کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان فاٹا میں نائن الیون سے پہلے والی امن و امان کی صورت حال بحال کر دیتے ہیں تو نہ صرف ان کے قید ی چھوڑ دیے جائیں گے بلکہ متاثرہ قبائلی خاندانوں کو زر تلافی بھی دیں گے اور پیس زون بھی قائم کیا جائے گا۔‘‘
مذاکرات شروع ہوئے تھے تو جو مطالبہ سب سے نمایاں ہو کر سامنے آیا وہ شریعت کے نفاذ کا تھا۔آئین کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا مسئلہ بھی سرفہرست تھا۔کبھی کہا گیا کہ آئین اسلامی ہے؛ تاہم نفاذ نہیں ہو رہا۔کبھی اسے سرے سے کفریہ قرار دیا گیا۔ہم سب جانتے ہیں کہ جب ہم کار ڈیلر یا پراپرٹی ڈیلر کے پاس جاتے ہیں تو جو شے خریدنا یا بیچنا چاہتے ہیں‘اس کا ذکر ہی نہیں کرتے۔ہم نے اگر شادمان یا ایف ٹین میں مکان خریدنا ہے تو بحریہ یا پشاور روڈ سے بات شروع کریں گے۔اگر ڈیلر کو معلوم ہو گیا کہ یہ شادمان کے علاقے میں مکان خریدنے کے لیے تیار اور بے تاب ہیں تو وہ قیمت بڑھا چڑھا کر بتائے گا اور یہ بھی کہے گا کہ اس علاقے میں مکان دستیاب ہی نہیں؛ تاہم آپ کے لیے کوشش کروں گا۔ہاں یہ یاد رکھیے کہ قیمتیں وہاں زیادہ ہیں۔مذاکرات کا بھی یہی انداز تھا۔اگر شروع ہی میں ’’پیس زون‘‘ کی بات کی جاتی تو ڈیلر اور بروکر چوکنے ہو جاتے۔چنانچہ شریعت آئین‘کفر اور اسلام کی باتیں کی گئیں۔اب اصل سودا جو بیچنا مقصود ہے اور خریدنا مطلوب ہے‘ کھل کر سامنے رکھ دیا گیا ہے۔تصویر کے بڑے بڑے اہم ٹکڑے جن سے ‘پیٹ اور ٹانگیں بنتی ہیں‘ اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیے گئے ہیں اور فٹ آ رہے ہیں‘ جو تصویر بن رہی ہے اس کے نقوش یہ ہیں۔
اول: غیر ملکی جنگ جوئوں کو ’’محفوظ راستہ‘‘درکار ہے جس کا انتظام کرنا ہو گا۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ غیر ملکی جنگ جو مسلح ہیں اور کھیتی باڑی‘دکانداری یا ملازمت نہیں کر رہے ۔یہ جہاں رہتے ہیں وہاں عملی طور پر ان کی فرماں روائی ہوتی ہے۔ مقامی باشندوں کو یہ مفتوح سمجھتے ہیں۔ان کا کہیں اور جانے کا کوئی امکان نہیں۔اپنے اصلی ملکوں میں انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا اور کوئی دوسرا ملک پاکستان کی طرح’’مہمان نواز‘‘یا ’’وسیع القلب‘‘ ہو نہیں سکتا جو ایسے ’’مہمانوں‘‘ کو اپنے گھر میں رکھے جن کے زاد سفر میں راکٹ‘ میزائل‘ کلاشنکوفیں بندوقیں‘ ریوالور ‘خنجر اور خودکش جیکٹیں ہوں۔ ’’محفوظ راستے‘‘کا ایک ہی مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور جہاں جہاں ان کی فرماں روائی قائم ہے‘ جاری رہے۔
دوم: مذاکرات کا ایسا انجام مطلوب نہیں جس کے نتیجہ میں طالبان کے ’’اختیارات‘‘ محدود ہو کر رہ جائیں۔وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں مثلاً خیبر‘مہمند وغیرہ میں طالبان عملی طور پر حکمران ہیں۔اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے امیر نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ یہ اختیار محدود نہیں ہونے چاہئیں‘ آخر ایک غیر ملکی کی پاکستانی طالبان کے اختیارات میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟اس کا جواب سمجھنے کے لیے ارسطو کے علم اور افلاطون کے دماغ کی چنداں ضرورت نہیں‘ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے!
سوم: مذاکرات کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ نائن الیون سے پہلے والی ’’امن و امان‘‘ کی صورت حال بحال ہو جائے۔اگر ایسا ہو جائے تو قیدی چھوڑ دیے جائیں گے اور پیس زون بھی قائم کر دیا جائے گا!!نائن الیون سے پہلے والی ’’امن و امان‘‘ کی صورتحال کیا تھی؟ جنرل ضیاء الحق نے جب امریکی ڈالروں اور امریکی اسلحہ سے کی جانے والی بین الاقوامی سیاست کے تحت لڑی جانے والی جنگ کو ’’اسلامائز‘‘ کر کے جہاد کا نام دیا تو دنیا بھر سے جہادی اس جنگ میں آ کر شریک ہوئے اور بعد میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مستقل بس گئے۔یہیں ان لوگوں نے شادیاں کر لیں۔لیکن یہ محکوم ہو کر نہیں زندگی گزار سکتے تھے۔ چنانچہ ان علاقوں میں عملاً انہی کا اختیار تھا۔اس اختیار ہی کو ’’امن و امان‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ان غیر ملکی جنگ جوئوں کے شانہ بشانہ اس اختیار میں مقامی جنگ جو (طالبان) بھی شریک تھے۔اگر یہی صورت حال بحال ہو جائے تو اس دور کا مکمل احیا ہو جائے گا۔پیس زون سے مراد یہ ہے کہ وہاں پاکستانی عساکر ہوں گے نہ پاکستانی حکومت کی رٹ ہو گی۔یوں ایک حصہ مملکت ‘بظاہر مملکت کا حصہ ہو گا لیکن عملاً خود مختار یا نیم خود مختارریاست ‘ریاست کے اندر‘ہو گی!
یہ ہے مذاکرات کی کامیابی کے بعد کی صورت حال جس کا ایک نقشہ‘جِگ سا کے مختلف ٹکڑے پیش کر رہے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔