جدید میڈیا سے استفادہ حاصل کرنے والے ہمارے معاشرہ میں عموماً دو طرح کے لوگ ہیں ایک تو ہاٸ کلاس اور دوسرا لوٸر مڈل کلاس، دونوں ہی انتہا پسند رویہ کے حامل ہیں، فیس بک ہو یا ٹوٸٹر عموماً خواتین کے نام سے فیک اکاونٹ بنتے ہیں اور غلط استعمال ہوتا ہے ،جیسے سو سال پہلے مردخواتین کے نام سے اخبارات اور رساٸل میں مضامین لکھتے اور خواتین اپنی شناخت چھپانے کے لیۓ مردانہ ناموں سے مضامین لکھا کرتیں یا قلمی نام استعمال ہوتا ، آج بھی ہمارا معاشرہ شاٸد اسی مقام پر کھڑا ہے ،میڈیا کے جدید ایپس استعمال کرنے والی خواتین کو گھر باہر سے فارغ تصور کیا جاتا ہےآزاد خیال مانا جاتا ہے، زیادہ تر لوگ اپنی فیملیز کو یہ ایپس استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور جو خواتین جدید ایپس استعمال کرتی ہیں وہ بھی اپنے خاندانی پس منظر کی عزت کی وجہ سے بہت سے دکھتے موضوعات پر بات نہیں کرتیں ،جو بات کرتی ہیں وہ کہیں بھی مڈل کلاس کی نماٸندگی نہیں کرتیںکیونکہ مڈل کلاس کی خواتین کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر ہے ، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جن کے والدین صبح سویرے کام کاج کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور رات ڈھلے تھکے ماندے واپس آتے ہیں نہ وہ جدید میڈیا کی جدت کو سمجھتے ہیں نہ ہی جانتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں کیا کیا ہوتا رہااور ان کی اولاد جدید میڈیا پر کتنی شہرت پاچکی ہے ، ان دو انتہاٶں کو جب تک ختم نہیں کیا جاۓ گا ہمارے معاشرے کے اصل معاملات ڈھکے چھپے ہی رہیں گے کیونکہ ایک نارمل گھر میں کیا چل رہا ہے نہ ہاٸ کلاس کی عورت کو پتہ ہے اور نہ دیہاڑی لگانے والے عورت جانتی ہے ،یہاں ہمارے مردانہ ذہین کوآگے آنا پڑے گا اور اس دھند کو صاف کرنا ہو گا اور اپنی فیملی کی خواتین کو آزادی سے جدید میڈیا کا استعمال خود سکھانا ہو گا ،ایسا کرنے سے خواتین میں خود اعتمادی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مساٸل پر بات کرکے حل کرنے کا طریقہ آۓ گا اور گھروں میں گھٹن کی فضا ختم ہو جاۓ گی اگر آج کے دور میں مردانہ ذہین نے وسعت سے کام نہ لیا تو ایک وقت ایسا آۓ گا کہ خواتین خود آگے آٸیں گی اور اس طرح گھر بھی ٹوٹیں گے اور آپس کی رواداری وعزت پر بھی پانی پھر جاۓ گا۔