جھوٹ سچ کی سیاسی کسوٹی
مشتاق یوسفی کی مزاح کے انداز میں کہی گیؑ بات کہ جھوٹ کی تین اقسام ہیں ۔۔جھوٹ۔۔ سفید جھوت اور۔۔۔اعداد و شمار"
یہ بات ہے 19 سال پہلے ہونے والی مردم شماری کی ۔ میرا چھوٹا بھایؑ اخلاق احمد "جنگ" کے میگزین ایڈیشن کا ایڈیٹر اور میرا بیتا افتاب اقبال اس کا ماتحت تھا۔ چھٹی کا دن تھا اور ہم ناشتے کی میز پر تھے کہ اخلاق نمودار ہوا اور میرے بیٹے کو لے گیا کہ برخوردار ۔ مردم شماری کے نتایؑج مرتب ہورہے ہیں۔ ان کو اشاعت سے روکنا ہے ورنہ سیاسی فساد ہو جاےؑ گا۔۔ کچھ یاد رہ جانے والی تفصیلات کے مطابق کرنا "خدا" کا ایسا ہوا کہ کہیں ابادی کم ہویؑ تو کہیں دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہی۔۔ اعداد و شمار یہی ظاہرکرتے تھے۔۔ حالانکہ لشکر اسلام کی عددی قوت بڑھانے میں امت شب و روز یکساں منہمک تھی اور ایک سے زیادہ پیداواری مشینیں رکھنے میں رکاوٹ کویؑ نہ تھی۔ دو دیہی قصبات نے ثابت کیا کہ " ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی"۔۔ ( معلعم نہیں یہ ساقی سے کہنا کیوں ضروری تھا) ۔۔" پیر جو گوٹھ" اور "نو شہرو فیروز" کی آبادی میں 345 فیصد زیادہ اضافہ تھا اور صرف 11 سال میں۔۔ شہری نتایج حد درجہ مایوس کن تھےاور شہری خفا تھے کہ جلوہ کثرت اولاد دکھانے میں ہم کسی سے کم نہیں توہم پھریہ نامردی کی تہمت ہی ہویؑ نا۔۔۔۔
عقدہ بالاخر کھلا کہ بات زور شباب کی نہیں سیاسی قوت اور معاشی ضرورت کی ہے۔ اسمبلی کی حلقہ بندی ہوتی ہے آبادی کی بنیاد پر اورکوٹہ سسٹم پر وسایلؑ کی تقسیم کی۔۔یوں جس کا دل چاہے اپنے پنڈ یا گوٹھ۔ کو لندن پیرس سے عظٰیم تر سمجھے یا کہے مگر آییؑن کہتا ہے سندھ میں شہر بس تین ہیں۔ کراچی۔۔ حیدر آباد اور سکھر۔۔ یہ لاڑکانہ نواب شاہ وغیرہ سب گاوں۔۔ وسایل یا نوکری میں سندھ کا حصہ آبادی کی بنیاد پر بنتا ہے 19 فیصد۔۔ اس میں13 فیصد دیہی اور 6 فئ صد شہری۔۔ مزید تقسیم سے تیں شہروں کو ملا 2 فیصد ہر ایک کا خواہ کراچی ہو یا حیدر آباد یا سکھر۔۔ اب آییؑن کو کون بدلے اور کوٹہ سسٹم کیسے ختم ہو۔۔ یہ مرغی اور انڈےوالا معاملہ تھا کہ کون پہلے پیدا ہوا تھا ۔ جناب شیخ اور فقیہ شہر کے دلایل لا حاصل
جب آبادی زیادہ مانی جاےؑ گی تو وسایل زیادہ ملیں گے اور ایک دو "عوامی" نمایندے بھی بڑھ جاییؑں گے۔۔ مثال لیتے ہیں کراچی کی۔۔ اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوےؑ جو نسلی اور اصلی یا جعلی سیاسی راہنما تھے وہ ایک راگ گاتے رہے جس کے سر وقت اور مفادات کے ساتھ بدلتے رہے۔ ہم جیسے توبہت تھے پیارے ناظرین و سامعین میں۔ سب کی سنتا میں بھی رہا اور دیکھتا بھی رہا۔ ایک صبح اپنے گلشن معمار سے نکلا تو عجب نظارہ دیکھا۔ ایک وسیع و عریض میدان میں جہاں رات تک کچھ نہ تھا۔ صبحدم ننھے ننھے دو رنگ کے قطار در قطار جھنڈے یوں اگ آےؑ تھے جیسے صحن چمن میں شجر کاری کے کمال سے نوخیز کونپلوں نے سر نکالا ہو۔نصف پشتو کے اور بقیہ نصف ارد وکے علمبردار تھے جنہوں نےبڑی ایمانداری سے سرکاری زمیں پر "سرکار" کی معاونت سے ڈاکا ڈالا تھا۔مال غنیمت کی تقسیم کا فارمولا پہلے ہی طے تھا۔چور اس معاملے میں بڑے با اصول مشہور ہیں
سرکار کیطرف سے ابتدا بھی یوں ہویؑ کی ایک ڈی ٰایس صاحب نے وہاں راتوں ایف بی آر کی زمین پر ایک فرقے کی عبادت گاہ تعمیر کرادی ۔۔ خیر سےوہ منشات فروشوں کی سر پرستی میں بھی نیک نام تھے اور ان کے خلاف مہم چلانے میں بھی ۔۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گیؑ کی عملی تفسیر۔ ان کے زیر سایہ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے۔ یہ فارمولا تو کویؑ ایک صدی پہلے لاہورمیں آزما لیا گیا تھا۔ کوتوالی پولیس اسٹیشن کے ساتھ وہ مسجد آج بھی سر اٹھاےؑ موجود ہے۔۔ پلاٹس کی تقسیم اور ملکیت کے جھنڈے ایک ماہ بعد اگاےؑ گےؑ جب یقین کامل ہوا کہ اب کسی کافر میں عبادت گاہ کو ناجایؑز تعمیر کہنے کی ہمت نہیں ۔۔ اور ہمت واقعی نہ تھی ورنہ سارے کراچی کے امینیٹی پلاٹس پر "چایؑنا کٹنگ" کی انوکھی اصطلاح کیسے زباں زد خاص و عام ہوتی
اسی دور میںٍ اسٹریٹ کرایم کا لفظ صحافت کی زبان میں عام ہوا۔ آبادی کا مسیؑلہ بھی اس دور میں اسٹریٹ کرایمؑ جیسا ہی تھا کہ اردو بولنے والے تو خیر اپنی اکثریت کو غیر متنازعہ جانتے ہی تھے اور اس کا ثبوت دینا بی غیر ضروری سمجھتے تھے۔ شہر کے کچھ حصوں میں اکثریت والے پختون رفتہ رفتہ ہر بیان میں اپنی آبادی کا تناسب تناسب بڑھاتے گےؑ کیانکہ ان کی فکر معاش میں نقل مکانی کا عمل جاری تھا۔ سندھی بولنے والے کیوں پیچھے رہتے جو خود کو صوبے کا مالک کہتے تھے۔ ایک اور طبقہ سراییؑکی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کا بڑھا۔ شہر میں گجرای بولنے والے میمن اور اسمٰعیلی بھی کم نہ تھے۔ یہ آبادی کا ایسا حلیم تھا جس میں بنگالی بلوچی۔برمی مصالحے کی طرح شامل تھے۔۔ تاہم "اجتماعی مفاد" پیش نظر رکھنے کیلۓ آبادی میں اضافے کا راگ مشترک سمجھا گیا۔ 19 سال بھت ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ آبادی میں اضافے کی رفتار کو زبانی ایکسلریٹر دیا گیا آبادی۔ ڈیڑھ۔۔ پونے دو۔۔ دو۔۔ سوا دو۔ ڈھایؑ تک کی گیؑ۔۔کراچی کو دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں ترقی دینے کا عمل جاری رہا۔ کون پوچھے کہ بھایؑ تم نے کب گنا؟ اور جواب دینے والا کیوں جواب دے۔
اقتدار کی سہ فریقی جنگ میں عوام کہاں شامل جو روزمرہ کے مسایل کے عزاب میں سکھ چین کا نام بھی بھول گےؑ ہیں۔ معاش کا مسلہؑ تو حل کر لیتے ہیں مگر بجلی۔ پانی۔۔ ٹرانسپورٹ۔ لینڈ اوربھتہ مافیا سے کون نمٹے۔۔ اب جو جنگ جاری ہے اس میں تین قوتیں ہیں پہلی 25 سال سے شہر کے حاکم جو 70 سال قبل کے اجداد سے منسوب " مہاجر" ہیں۔ دوسری صوبے کی حاکم پیپلز پارٹی۔۔ اور تیسری امن اور سلامتی کی علمبردار۔۔ان میں اتفوق راےؑ اب تک صرف ایک بات پر نظر آتا ہے۔۔ شہر میں انتظامی کام کیسے نہ ہونے دیا جاےؑ
اب آبادی کی فیملی پلاننگ میں پیش پیش شہری آبادی میں اضافے کے متفقہ پلان کو فلاپ ہوتا کیسے برداشت کریں۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔۔ مردم شماری کے کچھ ساینٹفک طریقے تو استعمال ہوں گے جو 19 سال قبل موباییل فون کی طرح ڈیجیٹل ڈاٹا انٹری کی صورت میں استعمال ہوےؑ۔۔ جیسے اب کی بار ووٹ کاونٹنگ مشین استعمال ہوگی جو پہلے بھارت تک میں تھی لیکن ہم نے اسے بوجوہ دور رکھا
اب عین الیکشن کے بخار میں یہ اصل آبادی کا درد زہ بھی شروع ہوگیا۔۔ واویلا تو ہوگا لیکن اس سے افاقے کی امید۔۔۔ ایں خیال است و ؐھال است و جنوں
میری یہ پوسٹ سیاسی بنانے کے شوقین صرف زبان کو بے لگام نہ ہونے دیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔