جھکی ہوئی ٹہنی سے ٹپکتے قطرے
بریگیڈیئر نیاز احمد سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی‘ ان کا دائرہ الگ تھا۔اس دائرے میں داخل ہوئے نہ کبھی کوشش ہی کی۔ہاں‘جب بھی سنا‘ ان کا نام طاقت ور لوگوں کے حوالے سے سنا۔شریف برادران! جنرل پرویز مشرف!بشری کمزوری ہے اور عین انسانی فطرت کے مطابق کہ جو افراد طاقت ور اصحاب سے وابستہ ہیں ‘ ان سے مرعوب ہوا جائے۔بریگیڈیئر صاحب ایمبیسی روڈ پر رہتے تھے اور ایک ایسے گھر میں رہتے تھے جس کا‘ ان کے اکثر ہم مرتبہ سرکاری ملازم بھی بس خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ ان کے پڑوس میں لتھوانیا کے اعزازی سفیر مسعود خان رہتے ہیں۔ دوست ہیں اور کرم فرما۔ ان کی بیگم‘بھابھی ڈاکٹر اسمارا جب بھی ہمارے ہاں آتیں‘ والدِ مرحوم کو‘ کہ ضعف کا ان پر غلبہ رہنے لگا تھا‘اصرار کر کے کھانا کھلاتیں۔ ایک بار مسعود خان کے ہاں بیٹھے تھے کہ انہوں برسبیل تذکرہ بتایا کہ صدرِ مملکت ان کے پڑوس میں بریگیڈیئر صاحب کے گھر آتے ہیں۔بریگیڈیئر صاحب کے داماد عمار‘ جو ٹی وی کے جانے پہچانے کمپیئر ہیں‘ محبت سے پیش آتے ہیں۔ایک کالم بہت زیادہ پسند آیا تو کہیں سے ٹیلی فون نمبر حاصل کر کے بیرون ملک فون کیا اور داد دی۔بس یہ ہے سارا حدود اربعہ بریگیڈیئر نیاز احمد مرحوم سے ’’تعلق ‘‘ کا!
اس کے باوصف‘کل جب ان کی رحلت کی خبر پڑھی تو ایک دھچکا لگا۔تو کیا بریگیڈیئر صاحب بھی چل بسے؟اتنا بڑا شخص!وقت کا بادشاہ جس کے گھر آتا تھا تو پہریدار انسانی جسموں سے فصیل بنا لیتے تھے۔پتا بھی نہیں ہلتا تھا! پھر پنجاب کے طاقت ور ترین خاندان سے مراسم۔ اور مراسم بھی ایسے کہ فیصلے تبدیل کرا سکتے تھے۔ تو جب اتنا بڑا شخص فنا کے گھاٹ اتر گیا تو کیا ہما اور کیا شما‘ جان ایلیا نے کہا تھا ؎
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
مرنا کتنی بڑی سچائی ہے۔غالباً دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ خوفناک سچائی!عشرتوں کے ٹھاٹھ‘عیش کے اسباب‘حشمتوں کے دسترخوان‘ یا فاقے‘ چیتھڑے اور جھونپڑا۔ امارت ہو کہ غربت‘ کچھ بھی نہیں بچتا۔ فقیر نے رات تنور پر گزاری۔ بغل میں محل تھا۔ آرام دہ کمرے میں بادشاہ نے رات کو سمور کا کمبل اوڑھا ۔صبح کا اجالا پھیلا تو فقیر نے گدڑی جھاڑی اور یہ کہہ کر ایک طرف چل دیا ع
شب تنور گزشت و شب سمور گزشت
اور نظیر اکبر آبادی نے تو کمال کی نصیحت کی ؎
یا نعمتیں کھاتا رہا دولت کے دستر خوان پر
میوے مٹھائی‘ بامزہ‘ حلوائے تر‘ شیرو شکر
یا باندھ جھولی بھیک کی‘ٹکڑوں کے اوپر دھر نظر
ہو کر گدا پھرنے لگا ٹکڑے کی خاطر دربدر
گر یوں ہوا تو کیا ہوا اور ووں ہوا تو کیا ہوا
موت وہ حقیقت ہے جسے ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔لیکن اصل مصیبت اور ہے اور وہ یہ کہ ہم مرنے والے کو اس ترازو پر تولتے ہیں جو ہم نے خود بنایا ہے۔ہم اسے اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں جو پیدا کرنے والے اور مارنے والے نے نہیں وضع کی۔ہماری روایتیں اور ہماری جہالتیں کسی کو نیک قرار دیتی ہیں اور کسی کو بد۔ اور یہی اصل افتاد ہے جو ہم پر آن پڑی ہے۔ وہ کام جو انسان کے مرنے کے بعد کسی اور نے کرنا ہے وہ ہم خود کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔و ہ حساب کتاب جو جزا کے دن کیا جانا ہے‘ دنیا میں شروع کر دیا جاتا ہے۔یہ غلط ہے اور قابل مذمت۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اپنی فکر کرے۔خدا کے لیے اپنی فکر کرے۔
ہم ظاہر پر رائے قائم کرتے ہیں۔چند ہفتے ہوئے کراچی سے معروف شاعر شوکت عابد کمرشل اشتہاروں کی شوٹنگ یا اسی قبیل کے کسی سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔شدید گرمی تھی اور رمضان۔ایک معروف و مشہور فلم ایکٹریس کے بارے میں بتایا کہ ملتان سے کار میں آئی۔روزہ رکھا ہوا تھا۔اسلام آباد پہنچ کر سارا دن کام بھی کیا۔ اسّی فیصد نہیں تو ساٹھ فیصد کے لیے یہ غیر متوقع ہوگا‘ اس لیے کہ ہمارے اذہان میں نیکو کاروں اور گنہ گاروں کے حلیے فکس ہو چکے ہیں۔ہم اس Fixationسے باہر نہیں آ سکتے۔ایک بزرگ کے بارے میں روایت ہے کہ ساری زندگی حدیث پڑھاتے رہے اور حدیث لکھتے رہے ۔کوچ کیا تو ایک شاگرد کو خواب میں ملنے آئے۔اس نے پوچھا حضرت !آپ کے معاملات تو آسانی سے طے ہو گئے ہوں گے۔ساری زندگی قال اللہ اور قال الرسولؐ کہتے اور لکھتے گزاری۔فرمایا نہیں!ایسا بالکل نہیں ہوا۔صورتحال مخدوش تھی۔کچھ منظور ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ تو ایک مکھی آئی اور جاں بخشی کرا گئی۔وہ یوں کہ کتابت کرتے وقت ورق الٹنے لگا تھا تو دیکھا کہ روشنائی کے ایک گہرے دھبے پر ایک مکھی بیٹھی پیاس بجھا رہی تھی۔سوچا‘روشنائی پی لے تو ورق الٹوں گا۔سیاہی چوس بھی اسی لیے استعمال نہ کیا۔وہ مکھی آ کر سفارش نہ کرتی تو نہ جانے کیا انجام ہوتا!
نورانی چہرے‘لمبی عبائیں‘ کُلاہ اور اس پر سفید چادر‘ ہاتھ میں تسبیح‘ عقب میں جان چھڑکتے عقیدت مند‘ سب بجا۔ عین ممکن ہے کہ سب حقیقی اور جینوئن ہو۔قابل قبول ہو۔لیکن ضمانت کیا ہے؟ گارنٹی کہاں ہے؟ کون دلاں دیاں جانے ہُو۔سول سروس کی ایک خاتون تھی۔بظاہر فیشن ایبل ۔تراشیدہ مُو‘ کم ہی لوگ جانتے تھے کہ صوم و صلوٰۃ کی پابندی تو تھی ہی‘اکلِ حلال کی تخصیص اتنی تھی کہ ماں نے ماتحت کو گھر کے کسی چھوٹے موٹے کام کے لیے فون کیا تو منع کر دیا کہ امی جان نہیں‘ دفتر کی افرادی قوت گھر کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔بظاہر مذہبی حضرات جس حقارت سے دوسروں کو بابو ‘ منشی‘مسٹر اور میم کہتے ہیں‘ حیرت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اخلاق حمیدہ کا تعلق ہے‘ نہ اخلاق ذمیمہ کا۔کیا خبر شکر اور صبر‘توکل اور خشوع ‘صدق اور محبت کس کے سینے میں موجیں مار رہے ہیں اور کذب ‘غیبت‘ چغل خوری ‘ مدح سرائی‘بخل‘ تکبر‘حب جاہ ‘ حرص‘حسد‘ ریا اور غضب کس نورانی چہرے کی اوٹ میں پھن لہرائے بیٹھے ہیں!
ایک ثقہ بزرگ نے بتایا کہ لڑکپن میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی ۔وہ بار بار زبان اوپر والے ہونٹ پر پھیرتا تھا جیسے کسی مٹھاس کا مزہ لے رہا ہو۔ کئی رات دن مشاہدہ کیا… اس حرکت میں کمی نہ دیکھی۔استفسار پر اس نے آپ بیتی سنائی۔پرانے قبرستان سے گزر رہا تھا کہ گھاس‘ دوب‘جھاڑیاں‘ کانٹے دار خود رو پودے ‘جھاڑ جھنکاڑ‘ ہر طرف پھیلے تھے۔ دیکھا تو ایک دھنسی ہوئی قبر‘بہت پرانی‘اوپر سے کھلی تھی۔نزدیک گیا تو منظر ناقابل یقین تھا۔قبر کے کنارے درخت تھا ۔ایک ٹہنی قبر پر جھکی تھی۔نیچے میت پڑی تھی۔سر اور منہ نظر آ رہے تھے۔جھکی ہوئی ٹہنی سے ایک قطرہ گرتا تھا اور میت کے منہ میں ٹپکتا تھا۔تجسس تھا اور ہمت بھی کہ اس شخص نے ایک قطرہ انگلی پر لیا اور چاٹ لیا۔ ایسی مٹھاس اس نے چکھی تھی نہ سنی تھی۔ہفتے گزرے‘ پھر مہینے‘ پھر سال‘جب بھی زبان ہونٹ پر پھیرتا‘ شیرینی سے منہ بھر جاتا۔تجسس نے اکسایا۔ چھان بین کی۔قبر ایک خاتون کی تھی۔معلوم کرنے پر مترشیح ہوا کہ کچھ خاص عبادت گزار تھی نہ کسی اور نیکی کے لیے معروف۔ جستجو کرنے والا پیچھے نہ ہٹا۔کریدتا رہا‘ پوچھتا رہا اور ایک سے دوسرے‘ دوسرے سے تیسرے ‘تیسرے سے چوتھے مرد یا عورت سے ٹوہ لیتا رہا۔ آخرِ کار معلوم ہوا کہ خاتون نے ساری زندگی ایک ایسے شوہر کے ساتھ گزاری جس میں ایک نقص تھا۔لیکن یوں گزاری جیسے کچھ تھا ہی نہیں‘ صبر بھی کیا اور اس کی عزت پر بھی حرف نہ آنے دیا۔
اپنے قائم کئے ہوئے معیار زائل کر دو‘ اپنی بنائی ہوئی کسوٹیاں توڑ دو۔جنہیں نیک گردانتے ہو‘انہیں نیک ہی گردانو۔لیکن جنہیں گنہگار سمجھتے ہو‘اگر وہ ولی نکلے تو اپنا ٹھکانہ کہاں بنائو گے۔اس طرف دیکھو…زمین کے نیچے بہت نیچے ‘ ایک جہان آباد ہے۔کہیں کوئی لحد بقعہ نور بنی ہے اور کہیں گھپ اندھیرا ہے۔ظاہر کو دیکھ کر رائے قائم نہ کرو اور دوسروں کی نہیں ’اپنی فکر کرو۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“