میں 1974ء میں پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوا، اُس سال بلکہ کئی سال بعد تک ”جھوٹے روپ کے درشن“ نامی ایک کتاب یوں سمجھیں ہر شعبے میں غیر علانیہ اور غیر سرکاری طور پر لازمی رہی۔ شاید ہی کوئی طالب علم ہو جس نے یہ نہ پڑھی ہو۔ پندرہ سال بعد 1989ء میں بھی نیو کیمپس کے ایک ہوسٹل میں داخل ہونے والے جاوید چودھری اور ان کے ساتھیوں کو سینئر طلبا نے اس لیے مرغا بناکر پٹائی کی کہ انہوں نے ”جھوٹے روپ کے درشن“ نہیں پڑھی ہوئی تھی۔
یوں تو یہ شعبہ فلسفہ میں اول آنے والے مشہور طالب علم رہنما راجہ انور کے اپنی محبوبہ کنول کے نام خطوط (اور چند جوابی خطوط) پر مشتمل ہے، لیکن اس دور کی یونیورسٹی اور ہاسٹلز کے کلچر کا ایک منظر نامہ بھی ہے۔ لگتا ہے مکتوب نگار نے اشاعت سے پہلے کہیں کہیں کچھ اضافہ بھی کیا تاکہ کتاب سب کیلئے قابل فہم ہوجائے۔ چونکہ زمانہ ہم سے بس ایک دو سال پہلے کا ہے، اس لیے بہت سے نام شناسا ہیں، کئی سے ملاقات بھی رہی اور بعض سے تو اب بھی رابطہ ہے۔ پرویز رشید، طارق سلطان، قاضی جاوید، ضیا اقبال شاہد، روبیہ مہدی جیسوں نے بعد میں مختلف وجوہ سے شہرت حاصل کی۔
پچھلے سال اس کتاب کا گولڈن جوبلی ایڈیشن شائع ہوا تھا، یعنی پچاس ایڈیشن چھپ چکے۔ اب نہایت اعلیٰ کاغذ پر بڑے سائز میں ایک ڈیلکس ایڈیشن آیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی برادرم ناصر خان ناصر نے ایسا انکشاف کیا ہے، جس کی مجھے کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ یہ کہ یہ کتاب پہلے پہل معمولی کاغذ پر سائیکلو سٹائل شکل میں ”چھپی“ تھی اور اس کی تقریب رونمائی گورڈن کالج راولپنڈی میں ہوئی، تو وہ محترمہ جن سے عشق کا ذکر کتاب میں ہے، اپنی فیملی سے چھپ کر وہاں آ گئی تھیں اور کتاب کی سچائی اور اپنی مجبوریوں کے بارے میں چھوٹی سی تقریر بھی کی تھی، جسے سن کر سارا مجمع رو پڑا تھا۔
جہاں یہ اطلاع حیران کن ہے، وہیں یہ بات بھی کہ خاتون کے اصرار پر ہی کتاب میں سبھی نام اصلی رکھے گئے، کوئی تبدیل نہیں کیا گیا۔
یہ جو نیا جہیز ایڈیشن آیا ہے، اس کے سرورق پر بھی پچھلے اکثر ایڈیشنوں کی طرح یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی تصویر ہے، حالانکہ ساری کہانی نیو کیمپس کی ہے۔ یہ دونوں الگ الگ جزیرے سمجھیں جن کا مختلف کلچر ہوتا تھا۔ کاش اگلے کسی ایڈیشن پر ایسی تصویر لگائی جائے جس میں شعبہ جات، ہوسٹلز اور درمیان میں بہنے والی نہر سب نظر آئیں۔
ہر خط پر مخاطب کرنے کیلئے استعمال کیے گئے الفاظ محترمہ، دیوی جی، جان جی، کنول، دیوی رانی وغیرہ موٹے حروف میں ہیں، جیسے یہ عنوان ہوں۔ خط میں تو کوئی سرخی نہیں ہوتی۔ یہ غلطی پتہ نہیں کب سے، کس ایڈیشن سے چلی آرہی ہے۔
راجہ انور گورڈن کالج سٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری اور صدر رہے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف طلباء کا پہلا جلوس انہی کی قیادت میں نکلا۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا میں ایک سال قید بہاولپور جیل میں کاٹی۔ اُن کی پہلی کتاب ”بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک“ اسی دور کی داستان ہے۔ ان کا ایم اے فلسفہ کا مقالہ ”مارکسی اخلاقیات“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ وہ 1973-77ء تک وزیراعظم بھٹو کے مشیر برائے طلبہ رہے۔ 1978 ء میں اُن کی کتاب ”ہمالہ کے اُس پار“ شائع ہوئی۔ 1979ء میں جلا وطن ہوئے۔ 1980-83ء وہ کابل جیل میں قید رہے، بلکہ میڈیا میں اُن کے مارے جانے کی خبر بھی نشر ہو گئی۔ اسی قید کے دوران انہوں نے ”Tragedy of Afghanistan“ نامی کتاب لکھی، جو برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کے 6 ممالک سے شائع ہوئی۔ 1996ء میں ان کی کتاب ”Terrorist Prince“ شائع ہوئی۔ ان کی کتاب ”قبر کی آغوش“ کابل کی پُلِ چرخی جیل میں بیتے دنوں کی کہانی ہے۔ وہ 1996ء سے 2007ء تک ’بازگشت‘ کے عنوان سے کالم لکھتے رہے۔ نواز شریف سے بھی قربت پیدا ہوئی اور پنجاب ایجوکیشن ٹاسک فورس کے چیئرمین رہے۔
یہ کالم روزنامہ جدوجہد کے اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...