امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی جہاں میری بیٹی بھی پڑھ رہی ہے وہاں کے فلسفہ اور قانون ڈیپارٹمنٹ کے مایا ناز، گھانین امریکی پروفیسر ، کوامے اپیا نے اس عنوان سے ایک بہت خوبصورت کتاب لکھی ہے جو پچھلے مہینہ ہی مارکیٹ میں آئ؛
“The lies that bind “
صرف دو سو صفحات پر مبنی کتاب ہے ۔ میں دو دفعہ پڑھ چُکا ہوں مزہ ختم ہونے کو نہیں ۔ کوامے برطانیہ میں پیدا ہوا، باپ گھانا سے تھا اور والدہ برطانیہ سے ۔ بعد میں امریکہ آ گیا ، پہلے پرنسٹن یونیورسٹی میں فلسفہ کا پروفیسر تھا اب ۲۰۱۴ سے نیویارک یونیورسٹی میں ۔ کوامے اس کتاب میں تاریخ کے بہت زبردست حوالے دیتا ہے اور دلائل بھی انتہا کے ۔ اس کے نزدیک اگر ہم سب آدم اور حوا کی اولاد ہیں یا نوح کی کشتی کے بچے ہوئے لوگ ہیں تو پھر مزہب ، نسل ، رنگ ، زبان اور کلاس کی بنیاد پر ہمیں لڑوایا کیوں گیا ؟
جب اسکندر اعظم فلاسفر ڈائجنیز سے ملا تھا تو ڈائجنیز نے اُسے ملتے ہی کہا تھا کہ جس دن تم نے دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کیا اسی وقت اسی دن تم ہار گئے تھے ۔ کوامے نے اپنی کتاب میں سعادت حسن منٹو کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بھی تزکرہ کیا ہے جہاں ایک سکھ جو پارٹیشن کے وقت لاہور کے پاگل خانہ میں ہوتا ہے اس کو جب بارڈر پر چھوڑا جاتا ہے تو وہ دونوں سرحدوں کی خاردار تاروں کے درمیان اٹک جاتا ہے اور کوامے کیا خوبصورتی سے اسے بیان کرتا
Larger lunacy of the borders
بلکل ایسا ہی ہے ۔ نیشنل اسٹیٹس کا بننا ہی دراصل ایک بہت بڑی lunacy تھی ۔ اور کوامے ہیگل کو بھی اس میں رگیدتتا ہے یہ کہ کر کے اپنے weaker moments میں ہیگل نے یہ کہ کر غلطی کی ؛
“In the the existence of a people the substantial purpose is to be a state and to maintain itself as such”
کوامے کے نزدیک ۳۳۰ ملین خدا بھی ہندو مت کو جتوا نہیں سکے اور نہ ہی بُدھ مت کا امن دھرم دنیا کو امن دے سکا ۔ کوامے کے نزدیک نیشن اسٹیٹس کو invent کیا گیا تھا یہ evolve نہیں ہوئیں ۔ اس میں کوامے سنگاپور کی بہت خوبصورت مثال دیتا ہے جہاں ۱۹۶۴ کے نسلی فسادات میں چینیوں نے ۲۰ ہزار مسلمان عید میلادالنبی پر موت کے گھاٹ اتار دیے ۔ سنگاپور کے ، لی کوان یُو ، نے بھی ایک مصنوعی اتحاد بنایا معاشی بنیادوں پر اکٹھے کرنے کا اور سنگاپور کو معاشی طاقت بنایا نہ کہ انسانی ۔ ترکی میں آرمینیا کے لوگوں کی نسل کُشی ، جرمنی میں یہودیوں کی ، چین میں جاپان کے ہاتھوں چینیوں کی ، کیمبوڈیا میں پول پوٹ کے ہاتھوں ۔ انسان ، انسانوں کے ہاتھوں کبھی مزہب ، کبھی رنگ ، کبھی نسل اور کبھی طبقاتی جنگ میں قتل ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں ، جس طرح آجکل برما میں ۔
کوامے کہتا ہے کہ اب تو سائینس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ ؛
“The vast bulk of our genetic material is shared with all normal human beings, what ever their race”
تو پھر یہ ماجرا کیا ہے ؟ کیسی نفرت ؟ کوامے نجیب محفوظ کے مشہور زمانہ ناول “میرا مار ” کی بھی مثال دیتا ہے جو ۱۹۶۷ میں لکھا ۔ یاد رہے نجیب محفوظ کو ۱۹۸۸ کا ادب کا نوبل انعام بھی ملا تھا۔ اس ناول میں مصر کی ایک طوائف نئے حکمرانوں کے آنے پر اپنے کرایہ دار سے کہتی ہے کہ اب اس کا کیا بنے گا ؟ کرایہ دار کہتا ہے ، نئے حکمران بھی تو انسان ہی ہیں ۔ میں اکثر یہ دلیل دیتا ہوں کہ اگر ہر جگہ انسانوں کی دو ٹانگیں ، دو کان ، دو آنکھیں اور ایک دماغ اور ایک دل ہے تو پھر فرق کہاں ہے ؟ پھر اختلافات کیسے ، جدائیاں کیوں ؟ اس کا ایک ہی جواب ہے “زاتی مفادات “ اور کوامے ایک اور فلاسفر کے الفاظ میں اس کا حل کچھ یوں بیان کرتا ہے ۔
“I am human, I think nothing human alien to me “..
میں ہمیشہ اپنے بلاگز میں جب حکمرانوں پر شدید تنقید کرتا ہوں یہی کہتا ہوں کہ کاش ہمیں انسان سمجھا جائے ؟ ہمیں تو غلاموں اور ملازموں سے بھی بدتر سمجھا جاتا رہا ہے اور سمجھا جا رہا ہے ۔ پاکستان کی اشرافیہ اپنے آپ کو خدا سمجھتی ہے ۔ سی این این کا مشہور اینکر وُولف بلٹزر پرسوں میرے ساتھ نیوجرسی کی ٹرین سے مینہیٹن کے پین اسٹیشن پر اترا ۔ بہت سادہ لباس ، کوئ اسے مُڑ مُڑ کر دیکھ نہیں رہا تھا ۔ ٹھیک ایک گھنٹہ بعد میں مینہیٹن کے جس بار میں بیٹھا تھا وہاں ہی بار کی بڑی اسکرین پر اسے سی این این کے ایک لائیو پروگرام میں دیکھا ۔
کیکئفورنیا سے ایک سینیٹر کمالا حارث کی کتاب بھی پچھلے ہفتہ مارکیٹ میں آئ ہے ۔ کیا زبردست خاتون ہے ۔ اس کتاب کی جیکٹ کے الفاظ میں پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے quote کرنا چاہوں گا اسے میرا پیغام سمجھیں آپ کے لیے؛
“My daily challenge to myself is to be part of the solution,to be a joyful warrior in the battle for the soul of the country. My challenge to you is to join that effort. Let’s not throw up our hands, when it’s time to roll up our sleeves.
Because years from now, this moment will have passed. And our children and our grandchildren will ask us where we were when the stakes were too high. They will ask us what it was like. I don’t want us to just tell them how we felt. I want us to tell them what we did”
کوامے کے باپ کو بھی ایسا ہی شوق چڑھا ، گھانا کو بدلنے کا ، اپنا حق ادا کرنے ماں دھرتی چلا گیا ۔ گرفتار ہوا ، تشدد برداشت کیا لیکن اپنے حصہ کی شمع جلا گیا ۔
یہی شمع انسانیت کو بچا سکتی ہے اور ہمیں درندگی سے واپس اشرف المخلوقات بنا سکتی ہے ۔ ہم کوشش ہی نہیں کر رہے ۔ امریکی مڈل کلاس کو شکست دینا ناممکن ہے ، کسی بھی ملک کی اتنی وائبرینٹ اور مثالی مڈل کلاس میں نے نہیں دیکھی ۔ انسان انسان سے کردار کی بنا پر پیار کرتا ہے ، امریکہ کا ریڈ نیک گورے کا میرے لیے پیار اسی کی کڑی ہے ۔ باقی سب استحصالیوں کے جھوٹ ہیں جن کے ساتھ ہمیں باندھا گیا اور ہم ابھی بڑے شوق سے اپنی مرضی سے جوق در جوق بندھ رہے ہیں ۔ اس کے خلاف آواز بلند کرنا اصل جہاد ہے ۔ اللہ نگہبان ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...