مغربی کیمرون کا آتش فشانی علاقہ آسیب زدہ تصور کیا جاتا تھا۔ مقامی قبائل میں نایوس جھیل سے نکلنے والے عفریت کے قصے مشہور تھے جو رات کو ڈرایا کرتا تھا۔ یہاں کی زرخیز زمین میں آسانی سے اگنے والے آلو اور دالوں کی وجہ سے کئی کاشتکاروں کی توجہ اس علاقے کی طرف ہو گئی تھی۔ جس طرح آبادی بڑھی، ویسے ہی جرائم بھی۔ گینگ وار اور فائرنگ عام ہو گئی۔
21 اگست 1986 کی اس رات بھی پہلے یوں لگا جیسے آنے والی آوازیں کسی گینگ کی فائرنگ کی ہیں۔ پھر کچھ اور آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ جیسے کوئی غرارے کر رہا ہو۔ زمین پیروں کے نیچے کچھ کانپتی سی محسوس ہوئی لیکن لوگ معمول کی طرح سونے کیلئے چلے گئے۔ اس روز زمین کے نیچے واقعی ایک عفریت تھا جو نکلنے والا تھا جو رات نو بجے جھیل کے نیچے سے نکلا۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا عفریت تھا۔ جھیل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑے بلبلے نکلنا شروع ہوئے۔ یہ اپنے ساتھ تہہ کی لوہے سے بھری مٹی اوپر لا رہے تھے جس سے جھیل کا رنگ سرخ ہو رہا تھا۔ ان بلبلوں نے سطح پر آ کر پھٹنا شروع کیا۔ پھر بیس کروڑ کلوگرام سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بیس سیکنڈ میں نکلی۔ ڈھائی سو فٹ بلند گیس اور پانی کا فوارہ چنگھاڑتا ہوا بلند ہوا۔
خون کے رنگ کا یہ اونچا فوارہ ایک عجب مظہر تھا۔ کارن ڈائی آکسائیڈ ہوا سے پچاس فیصد بھاری ہوتی ہے تو یہ پھیلنے کے بجائے پھر نیچے چلی گئی۔ ایک ڈیڑھ سو فٹ بلند سفید بادل سا بن چکا تھا۔ اس بادل نے جھیل کی ڈھلوان سے وادی میں اترنا شروع کیا۔ لڑھکتے ہوئے تیز رفتار ہوتا گیا۔ وادی کے کم درجہ حرارت میں آبی بخارات اس پر جم رہے تھے اور یہ بے رنگ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک رات کے شکاری کی طرح۔
ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چند ہی منٹوں میں اس نے کئی گاوٗں نگل لئے۔ شا، سوبم، فانگ، ماشی۔ جھونپڑیوں میں سوتے لوگ پھر کبھی اٹھ نہ پائے۔ رات کا کھانا کھاتے کسان اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ موت اس قدر جلد آئی کہ گرتے ہوئے لوگوں کو ہاتھ اٹھانے کا موقع بھی نہ ملا اور گر کر ان کی ہڈیاں فریکچر ہو گئیں۔ ان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے لے لی اور دم گھٹ گیا۔ تین یہاں گرے، چار اگلے گھر، چھ سڑک پر۔
اگلی صبح نایوس جھیل کا پانی تین فٹ نیچے گر چکا تھا۔ اس کی نیلی سطح اب کسی شیر کی سطح جیسی لگ رہی تھی۔ نارنجی اور کالی دھاریوں والی۔ معجزانہ طور پر کچھ لوگ دور والے گاوٗں میں زندہ بچ گئے تھے لیکن سردرد، متلی اور خراب پیٹ کے ساتھ۔ ان پر گزری قیامت میں 1746 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اگلے کچھ روز میں اس کی تعداد بڑھتی گئی۔ جب اپنے پیاروں کو اس طرح کھونے والوں نے خودکشیاں کر لی۔ چھ ہزار مویشی مر گئے۔ ان کے ساتھ تمام چوہے، پرندے اور کیڑے بھی۔ ان مردہ لاشوں پر آنے والی مکھیاں بھی نہیں تھیں۔
کچھ مقامی لوگوں نے کہا کہ جھیل کے عفریت زندہ ہو گئے ہیں۔ کچھ اور نے کہا کہ یہ دشمنوں کی طرف سے کیمیائی حملہ تھا یا پھر نیوٹرون بم کا ٹیسٹ تھا۔
نایوس جھیل، جس کو اس سے پہلے کم ہی لوگ جانتے تھے، دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ سائنسدان دنیا بھر سے یہاں آنا شروع ہو گئے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ جلد ہی پتا لگ گیا کہ یہ ایک متحرک آتش فشاں کے اوپر تھی۔ چار سو سال پہلے ایک آتش فشانی عمل سے یہ جھیل بنی تھی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس آتش فشانی عمل کا حصہ ہوتی ہے اور یہ اس کے نیچے جمع ہو رہی تھی۔
جیولوجسٹس کا اس پر اختلاف رہا کہ اس روز کس چیز نے یہ عمل شروع کیا تھا۔ یہ گیس آہستہ آہستہ صدیوں سے جمع ہوتی رہی تھی۔ اس کے اوپر پانی اس پر پریشر ڈال کر اس کو باہر نکلنے سے روک رہا تھا لیکن کسی بارش یا لینڈسلائیڈ نے اس کو چھیڑا تھا یا آتش فشانی عمل نے یا پھر آہستہ جمع ہونے والی گیس ایک وقت میں اتنا پریشر بنا چکی تھی کہ یہ پھٹ پڑی۔ مزید سٹڈی سے علم ہو اکہ اس عمل سے یہاں کا درجہ حرارت تیرہ درجے فارن ہائیٹ بڑھ گیا تھا اور جھیل کو یہ بخار کئی ہفتے چڑھا رہا۔ زلزلے کی کوئی ایکٹیویٹی نہیں تھی اور یہ سب بڑھتے پریشر کی وجہ سے ہوا تھا۔
یہاں پر ایسا اگلا واقعہ کیسے روکا جائے؟ اس پر کوئی اتفاق نہیں۔ کئی تجاویز آئیں۔ ایک یہ بھی تھی کہ اس جھیل میں بم گرا دئے جائیں۔ آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ اس میں ایک سات سو فٹ کا پائپ اس کی تہہ تک لے جایا جائے جو اس سے گیس نکالتا رہے۔ یہاں پر پانی کا ایک اونچا فوارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن ابھی ہمیں نہیں پتا کہ اس سے کتنا فائدہ ہو گا۔ یہ جھیل کے عفریت کو قابو میں رکھ پائے گا کہ نہیں۔ یہاں پر آنے والوں کے لئے ہدایت ہے کہ پانی میں زیادہ اچھل کود نہ کی جائے۔
اس ہونے والی تباہی کے آثار یہاں پر اب بھی باقی ہیں اور اس کی کہانیاں بھی۔ مقامی لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ رات کو بھوت نکل کر سرگوشیاں کرتے ہیں۔ (مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ کہتے کیا ہیں) ۔
لیکن یہ ایک اور اہم چیز کی ایک جھلک ہے جس کا تعلق ہم سب سے ہے۔ یہ خوفناک رات زمین کے اپنی ماضی کی ایک جھلک تھی۔ زمین ایک وقت میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں زہریلی گیسوں کے بڑے بلبلے ہر وقت پھٹتے رہتے تھے اور یہ عفریت اس کے لینڈ سکیپ کا مستقل حصہ تھے۔ نایوس جھیل کا یہ واقعہ ہماری خوش قسمتی کی ایک یاد دہانی بھی تھی کہ زمین اس دور سے نکل چکی۔
اس زہریلی فضا والی زمین سے آج تک کے سفر کے کئی حصے ہیں جن میں سے سب سے اہم کہانی زمین کی فضا کے ایک آہستہ آسہتہ بنتے عنصر کی ہے۔ اس کو مہربان بنانے میں سب سے اہم اس آتش فشان زمین سے آہستہ آہستہ نکلنے والی نائیٹروجن تھی۔
پھٹتی جھیلوں پر