تُم نے کبھی گمان کیا
نہاں بدن کی اُس ننھی جان کا
جو دھوپ کی تمازت کی انگلی تھامے
جلتے پاؤں اور جھلسے جسم کے ساتھ
خشک لب لیے، جھیل سی گہری آنکھیں لیے
صحرا کے سینے پہ رختِ سفر باندھے ہے
جسے یہ بھی ادراک نہیں
کہ اس جنم جلے کو
صحرا کی گود میں
زیست کی کوئی آسائش میسر نہیں آنی
اُسے یہ بھی خبر نہیں کہ یہ سختیاں
اُس سے زندگی کو قدم در قدم دور لیے جا رہی ہیں
اُسے تو یہ بھی خبر نہیں
کہ جس چمکتی ریت کو
وہ جھیل کا شفاف چمکتا پانی گردان رہا ہے
اُس جگہ پہلے ہی صحرا نشیں
تشنہ لب بیٹھے ہیں
اُسے اس اجاڑ نگر کی لٹی خوشیوں کا پتا نہیں
اسے تو یہ بھی باور نہیں
کہ اس کھنڈر ستم گر میں
بہاروں کی رفاقتوں
کب سے وداع کہہ گئیں
اور خزاں نے قدم رنجہ فرما لیا
اُس بے خبر کو عجب قحط کی کوئی بھنک
اور نہ فنا کے سماں کا ادراک
اُسے نہیں خبر اُن بگولوں کی
جو گرم ہوا
تھپیڑوں کی صورت اُس کے چہرے پہ برسائے گی
اُسے مسرت کے چھن جانے پر
سوگوار چہروں کی بابت
کچھ باور نہیں
اُسے لمحات کی کڑی سزاؤں کا کیا معلوم
اسے نہیں گمان کہ وہ
خواہشات کی مقتل گاہ میں محوِ سفر ہے
اُسے تو خلش کی ودیت کردہ محرومیوں کا بھی علم نہیں
اُسے نہیں معلوم کہ اُس کے پانی طلب کرنے پر ۔
صورتحال کچے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہو گی
اسے دل کی خشک سالی کا کیا معلوم
جو خوشیوں کی برکھا نہ برسنے پر وارد ہوئی
اُسے اُس بے نام حسرت کا اندازہ نہیں
جسے اظہار کی جسارت نہ ملی
اُسے چھاؤں کے پیٹھ کرنے پر
دل میں رہتی کسک کا نہیں معلوم
وہ ریت پہ تحریر کردہ
اشکوں کی سیاہی سے
لکھی حسرتیں
پڑھنے سے قاصر ہے
اسے اس دکھ کا معلوم نہیں
جو انا پرست انا کی بھینٹ چڑھا کے ودیت کرتے ہیں
اسے کیا خبر اُس شامِ ہجراں کی
جو وصل کی دوپہر ڈھل جانے پر مسلط ہوتی ہے
اُسے آنچل کے چِھن جانے کا دُکھ بھی نہیں معلوم
بس تُو گمان تو کر
جھیل سی آنکھوں والی
اُس ننھی سی جان کا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...