بڑے میاں نے پگڈنڈی کے درمیان رک کر آنکھوں پر ہاتھ کا چھجا بنا کر دوربین کی طرح باغ کے کونے کی طرف متلاشی نظروں سے دیکھا اور مطمئن ہو کر گردن ہلائی ۔ اب وہ اسی جانب جارہے تھے ۔یہ بڑے صاحب سفید شلوار قمیض پر گرم شال کی بکل مارے اور پیروں میں ٹینس کے نرم جوتے پہنے باغیچے کی روِش پر کچھ وظیفے بدبداتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ سفید برف جیسی داڑھی جو نئی نئی اگی ہے ان کے چہرے کو روشن کئے ہوئے ہے۔
باغ کے ایک کونے میں جہاں سورج کی کرنیں اب آہستہ آہستہ اپنا قبضہ جما رہی ہیں چند اور بزرگ بنچ اور کرسیوں پر منتظر بیٹھے ہیں ۔ کوئی دونوں ہاتھوں سے چھڑی تھامے بیٹھا ہے تو کسی کے ہاتھ میں آج کا اخبار ہے۔ کسی نے سواتی ٹوپی پہنی ہوئی ے تو کوئی کروشئیے کی گول ٹوپی اوڑھے ہوئے ہے۔ ایک معتبر صورت بزرگ نے جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ ایک دو نے موٹے سوئیٹر پہنے ہوئے ہیں تو کوئی موٹی سی بنڈی پہنے ہوئے ہے۔ جناح کیپ والے صاحب نے شلوار قمیض پر کوٹ پہنا ہوا ہے۔ یہ سب آگے پیچھے کھسک کر سورج کی روشنی کے سامنے ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ بڑے میاں کو دیکھ کر باغ کے کونے میں بنے چائے خانے سے لڑکے نے لاکر گرما گرم چائے کی پیالی ہاتھ میں تھما دی۔
یہ بزرگ یہاں روز جمع ہوتے ہیں۔ انہیں کہیں جانے کی جلدی نہیں۔ یہ چائے کی سڑکیاں لیتے ہوئے اخبار کی خبروں پر تبصرے کریں گے۔ پھر محلے کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کریں گے اور محلے کی بہتری کے لئے اپنے عزائم کا اعلان کرینگے۔ اب کوئی صاحب پہلو بدل کر اٹھ کھڑے ہونگے اور کمر سیدھی کرتے ہوئے شانوں کو دائیں بائیں ورزش کے انداز میں جنبش دینگے۔
“ آپ کی کمر کا درد گیا نہیں” کوئی ہمدردی سے کہے گا
“ بھئی آپ نے وہ نسخہ نہیں آزمایا “ دوسرے صاحب شکایتی انداز میں سوال کرینگے۔
“ کون سا؟ نہار منہ کلونجی والا ؟” کمر درد والے جواب دینگے” بھئی بہو سے کہا تو ہے۔ دیکھیں کب بناتی ہیں “ ان کی آواز میں کچھ بے چارگی سی ہے۔
اب کمر درد سے بات، شوگر، بلڈ پریشر، گردوں کے درد اور گیس کی شکایت کے نسخوں پر چلی جائے گی۔ پھر کسی کو یاد آئے گا کہ دوائیں کس قدر مہنگی ہوگئی ہیں۔ یہاں سے بات سیاست کی طرف مڑ جائے گی۔ اتنے میں ایک بزرگ کو یاد آئے گا کہ اس کی وجہ دین سے دوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد ماں باپ کا خیال نہیں رکھتی۔ بچے دن بدن بگڑتے جارہے ہیں ۔ بے حیائی بہت بڑھ گئی ہے اور اس کی وجہ یہود و نصارٰی کی سازشیں ہیں۔ پھر ایک صاحب بتائیں گے کہ یہود ونصاریٰ تو اہل کتاب ہیں ، اصل دشمن ہنود ہیں جنہوں نے ہماری ثقافتی سرحدوں پر حملہ کیا ہوا ہے۔ ٹی وی پر کتنے گندے گندے ناچ گانے دکھائے جاتے ہیں۔ پھر کسی کو راج کپور ، نرگس کی فلموں کے گیت یاد آئیں گے کہ کتنے خوبصورت ہوتے تھے۔ لیکن دلیپ کمار اور مدھو بالا کی بات ہی کچھ اور تھی۔
اب کوئی بزرگ گھڑی دیکھ کر اٹھ کھڑے ہونگے لیکن دوسرے بزرگوں کا اصرار ہوگا کہ کچھ دیر ٹھہریں۔ ان میں سے کسی کا جی نہیں چاہتا کہ یہ محفل ختم ہو۔ ان میں سے کسی کا جی گھر جانے کو نہیں چاہتا۔ یہ وہ وقت ہے کہ گھر میں کسی کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن گھر جانے کے بعد ان کی نقل وحرکت کسی اور کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ ان کا ختیار صرف یہیں تک ہے۔
یہ بزرگ وہ ہیں جو اپنی زندگی کی ایک باری مکمل کرچکے۔ یہ چالیس، پینتالیس، پچاس کام کرنے کے بعد اب “ ریٹائر” زندگی گذار رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کے لیے اب زندگی شروع ہوئی ہے تو کوئی آسمان پر نظریں جمائے ہے کہ کب بلاوا آئے۔ ان کی زندگی کا دن تمام ہوا اب جھٹپٹے کا وقت ہے۔ کوئی مطمئن اور پرسکون ہے تو کوئی بے چین اور افسردہ۔ ان میں سے کسی کی زندگی قابل رشک ہے تو کوئی قابل رحم حالت میں ہے۔ اور یہ منحصر ہے کہ کس نے دوران ملازمت کس قدر پس انداز کیا، یا بعد از ملازمت ان کی ساری گریجویٹی اور مراعات محفوظ رہیں اور اچھی پنشن کی صورت میں جاری ہیں۔ ان میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں جنہیں نہ صرف پنشن ملتی ہے بلکہ بعد از ریٹائرمنٹ بھی کسی نہ کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں ملازمت مل جاتی ہے۔ لیکن وہ بھی ہیں جن کی ساری پنشن، گریجویٹی اور بعد از ملازمت ملنے والے فوائد بیٹیوں، بہنوں کی شادیوں، اولاد کی تعلیم، ماں باپ کے علاج یا گھر بنانے میں خرچ ہوچکے ہیں اور اب وہ انہی کے رحم وکرم پر ہیں جن کے لیے انہوں نے زندگی تج دی۔
ظاہر ہے یہ حالات ہر کسی کے یکساں نہیں ہوتے۔ زندگی کی اونچ نیچ، سرد گرم، اتار چڑھاؤ یہاں بھی اپنا رنگ جمائے ہوتی ہے۔ کوئی اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب اسے ریٹائرمنٹ ملے اور وہ سکون سے بیٹھ کر پوتے پوتوں اور نواسے نواسیوں کو کھلائے تو کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ چند سال ملازمت کے اور مل جائیں تاکہ کچھ اور فرائض سے سبکدوش ہوسکیں۔
وہ خوش نصیب ہیں جو عزت سے اپنی مرضی سے ریٹائر ہوتے ہیں۔ اپنے پرسکون گھر کے لان میں باغبانی کرنے، پوتوں نواسوں کو گود کھلانے، عبادت، ورزش اور صبح کی سیر، مطالعہ، فلمیں، دوستوں کے ساتھ محفل آرائی اور دنیا گھومنے پھرنے میں اپنا وقت بتاتے ہیں۔ اولاد بھی ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ انہیں ہرطرح کا آرام پہنچایا جاتا ہے۔ ان کا احترام ہوتا ہے اور ہر معاملے میں ان کی رائے مقدم سمجھی جاتی ہے۔ ایسی زندگی بھلا کون نہ چاہے گا۔
لیکن وہ بھی ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد عضو معطل کی طرح گھر کے کونے کھدرے میں پڑے ہوتے ہیں۔ گھر والے انہیں اس نظر سے دیکھتے ہیں جیسے ردی مال کو دیکھا جاتا ہے جس کی وقعت ختم ہوچکی ہوتی ہے اور جس سے نجات حاصل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ ان کی فرصت ہر ایک کی نظر میں کھٹکتی ہے۔ بیوی کو ایسے شوہر کی شکل میں کل وقتی ملازم مل جاتا ہے اور غریب اپنی جھکی ہوئی کمر پکڑے سارا دن سودا سلف لاتا رہتا ہے یا گھر کے کام کاج میں لگا رہتا ہے۔ بہت سے بدنصیب اگر بیمار پڑجائیں تو برآمدے یا دالان میں ایک کھاٹ ڈال کر وہاں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں پڑے وہ سارا دن کھانستے ، کراہتے رہتے ہیں یا آنے جانے والوں کو دزدیدہ نظروں سے تکتے رہتے ہیں کہ کوئی گھڑی دو گھڑی ان کے پاس بھی بیٹھ جائے۔
اور ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیا کے سر پر سوار ہوجاتے ہیں۔ بہت سوں کو ریٹائر ہوتے ہی یہ انکشاف ہوتا ہے کہ نئی نسل کس قدر بے راہ رو ہوچکی ہے۔ لوگ اللہ رسول سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مسجدیں ویران اور تفریح گاہیں آباد ہورہی ہیں ۔ ہر آنے جانے والا ان کے پندونصائح سے فیضیاب ہوتا ہے۔ اگر سیاسی ذہن ہے تو انہیں ہر طرف یا تو اندھیرنظر آتا ہے یا پھر حکومت وقت کے کارناموں کا کسی کو علم ہوتا ہے تو ان حضرات کو ہوتا ہے۔ یہ سارا دن چوپال یا دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے آنے جانے والوں کو “ اندر کی بات” بتاتے ہیں جو وہ ٹی وی پر سن کر آئے تھے۔ اب ان ریٹائر بوڑھوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا جھنجھنا بھی آگیا ہے۔ فیس بک پر اگر کوئی آپ کو بتائے کہ ایک پیسے کے سکے میں سوراخ ہوا کرتا تھا اور یہ کہ “ اے چاند چھپ نہ جانا” کانن دیوی نے گایا ہے تو جان جائیے کہ یہ معلومات کوئی ریٹائر بڑے میاں فراہم کررہے ہیں۔
ریٹائر زندگی ایک کورے ، سادے کاغذ کی طرح ہے۔ اس کاغذ کو آپ ایک خوش کن تحریر میں بدل سکتے ہیں۔ اس پر نئے رنگ بکھیر سکتے ہیں ، زندگی کی نئی صورت گری کرسکتے ہیں۔ آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو ملازمت کی مصروفیت میں نہیں کرسکے تھے۔ دنیا اور لوگوں پر ، زندگی اور آخرت پر غور و فکر ، قرآن فہمی، تدبر، قرآن کو تجوید سے پڑھنا، حفظ کرنا، تفسیر کا مطالعہ، یہ وہ مشاغل ہیں جو اب اطمینان سے انجام دئے جاسکتے ہیں۔
وقت گذاری کے لیے عبادت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ کچھ وقت ہوا خوری، سیر اور ورزش کے لیے مخصوص کردیں۔ مطالعہ کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔ اگر فلموں کا شوق ہے تو اب آپ اپنی پسندیدہ فلمیں بھی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں اور اس کے لئے سنیما جانے کی ضرورت نہیں۔ یوٹیوب اور دوسرے زرائع سے ہر قسم کی فلمیں، ڈرامے اور دوسرے پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔ باغبانی، مصوری، فوٹوگرافی، برڈواچنگ، ماہی گیری جیسے مشاغل اپنا سکتے ہیں۔ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہوں۔ صحت اور عمر ساتھ دے تو ٹینس، اسکواش ، بیڈمنٹن جیسے کھیل یا گھروالوں اور دوستوں کے ساتھ تاش، شطرنج، کیرم ، لوڈو اور اسکریبل قسم کے کھیل کھیل سکتے ہیں۔ بچوں کو قرآن پڑھا سکتے ہیں یا بچوں کو ٹیوشن دے سکتے ہیں۔ بیگم کے ساتھ یا پوتوں اور نواسوں کے ساتھ باہر سیر کو جاسکتے ہیں۔ اگر لکھنے کی صلاحیت ہے تو اب تو بہت سے زرائع ہیں جہاں آپ اپںی تحریر لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اچھا بولنا آتا ہے تو “ٹوسٹ ماسٹر” قسم کی انجمنوں میں تقریر سے سامعین کو محظوظ کرسکتے ہیں۔ کسی اچھے گروپ میں شامل ہوسکتے ہیں یا اگر استطاعت ہو تو کسی کلب کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو کوئی رضاکارانہ کام ہی کرسکتے ہیں۔ ہر شہر میں بے شمار فلاحی ادارے ہوتے ہیں انہیں اپنی خدمات پیش کردیں۔ محلے اور علاقے کے مسائل میں دلچسپی لیں ، انہیں حل کرنے کی کوششوں میں ہاتھ بٹائیں۔ کر بھلا ہو بھلا۔
ریٹائرڈ زندگی مٹی کے گارے کی طرح آپ کے ہاتھ میں ہے اسے آپ جو چاہے شکل دے دیں۔ زندگی بہت مشکل ہے لیکن اسے آسان اور خوبصورت بنانا اتنا مشکل بھی نہیں۔ کوشش تو کرکے دیکھیں۔ زندگی کا ایک خوبصورت دور آپ کا انتظار کررہا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...