انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس ہے
دسمبر کے مانند بھیگے کہربار اِس دل پر یادوں کی برف گرتی ہے
پاس کے ایک کلیسا میں دور کہیں ساز بجتے ہیں
اور گزرے دنوں کی جلتی بجھتی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظر ہیں
۔۔۔
جھنگ مگھیانے کا درویش، میونخ کی شالاط
ساہیوال ابھی منٹگمری ہے، اور فرید ٹاوٗن ابھی سٹیلائٹ ٹاوٗن۔ تو صاحبو، اسی سٹیلائٹ ٹاوٗن کا ایک کوارٹر ہے جس کے صحن میں دو آم کے درخت اور درجن بھر گلاب کے پودوں سے پرے ایک مقفل کِواڑ ہے جسکی درزوں سے جھانکتی چھچھلتی اپنے نہ ہونے کی ہونی کے اندیشوں میں لپٹی ایک نظر ہے کہ چلتی چلی جاتی ہے اور گلی کی نکڑ پر جا ٹھہرتی ہے
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں، کون جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
ان کی کلیات کو ایک زمانی ترتیب میں اکٹھا کرنے والے کہتے ہیں کہ مجید امجد نے یہ نظم سنہ چھیاسٹھ میں لکھی تھی۔ ہڑپہ کے کھنڈروں سے نمو پانے والی ایک داستانِ محبت کو کم و بیش آٹھ برس بیت چکے تھے۔ ایک تنہائی کے اندھیرے میں ملفوف سٹیلائٹ ٹاوٗن کے کوارٹر میں ’خرقہ پوش و پابہ گِل‘ ’ کوی سدھارتھ‘ پر بیتے آٹھ سال ہوں یا نیچے گلی میں ’جہاں زاد ‘کے در کے آگے ’سوختہ سر حسن کوزہ گر‘ پر گزرے نو، ایسے ہی بیتتے ہیں جیسے کسی شہرِ مدفون پہ وقت گزرے۔
مگر آٹھ برس قبل اسی کوارٹر کے اطراف کی گلیوں میں ہزار خود آرا چہروں کے بیچ ایک مشتاق نگاہ میونخ کے گھروندوں سے ہمارے شاعر کو کھوجتی کچھ دلآویز سطور کا گھونگھٹ اوڑھے آنکھ بچا کے اسی مقفل کِواڑ کی درزوں سے اندر پھسل آئی تھی۔
27 دسمبر 1958 کے دن Maria-Ward-Straße (ماریہ وارڈ سٹریٹ) میونخ مغربی جرمنی سے لکھا گیا ایک پوسٹ کارڈ ہے۔
عبار ت کےآخر میں بھیجنےوالی کےدستخط ہیں
Yours, Charlotte. S.
یہ مکتوب207 سٹیلائٹ ٹاوٗن منٹگمری مغربی پاکستان میں ہمارےمجید امجد اور شالاط کے’ڈیئر مجید‘ کےلیے یہ نوید لاتا ہے کہ چارماہ پر محیط ملکوں ملکوں کی دشت نوردی کے بعد 22دسمبر کو شالاط جب میونخ پہنچی تو کرسمس کا تہوار تھا۔
بین السطور ایک سیاح کے گھر کو لوٹنے کا آلکس لیے اس تحریر میں دور دیسوں میں گھومنے کے ہیجان کا ذکر ہے اور کچھ خوش خو لوگوں سے ملاقات کی یادیں بھی۔ کچھ مکتوب الیہ کی خیریت دریافت کرتی سطروں کے جلو میں ہمارے شاعر کے لیے نئے سال کی تہنیت بھی ہے اور مسٹر جوگی کو بھیجا گیا سلام بھی۔
صاحبو فاصلوں کی کمند سے آزاد، تمام سیاق و سباق سے پرے اس مکتوب کے نفسِ مضمون کی جان اس ایک سطر میں بند ہے
I would be happy to hear from you some time
لکھنے والی کو یقیناً علم ہوگا کہ اسے پڑھ کر ہمارا آفاقی شاعر تخیل کے پردے پر کیا کیا نہ طلسم تراشے گا۔
کوئے میریں کے اک گھروندے سے بھیجے گئے ایک پوسٹ کارڈ کا اردو شاعری پر گرانقدر احسان ہے کہ اس سے مجید امجد کے قلم سے وہ آفاقی نظم جنمی جسے ہم آپ میونخ کے نام سے جانتے ہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کرسمس ہے!
شہر میونخ میں آج کرسمس ہے!
کسے خبر تھی کہ گوگل میپ کی سہولتوں سے عاری جغرافیے میں ہمارا شاعر میونخ میں Isar River (رودبارِ عسار) کو ڈھونڈ نکالے گا اور اس کی قربت میں Frauenkirche (فان کاچے) کو بھی۔ اور پھر اپنے قیاس کے زور پر ایک برفاب میونخ میں کرسمس کی منظر نگاری کے کیا کیا نہ طلسم تراشے گا۔
ویڈیو لنک
رود بارِ عسار کے پُل پر ۔ ۔ ۔
۔۔۔ جس جگہ برف کے سلوں کی سڑک
فان کاچے کی سمت مڑتی ہے ۔۔۔
قافلے قہقہوں کے اترے ہیں !
جنگِ عظیم کی ہزیمتوں کا عرق چہرے پر او ر جراحتوں کی خراش دل پر لیے یہ مفتوح قوم کے لوگ ہیں پر آج کرسمس ہے تو میونخ ایک قریہٗ شراب ہے جس کے لوگ ایک عزمِ نشاط جو کے ساتھ
اُمڈ آئے ہیں مست راہوں پر
بانہیں بانہوں میں، ہونٹ ہونٹوں پر
اور پھروہ جو ایک مدت بعدگھرلوٹ کرآنےوالوں اور ان کا استقبال کرتے دلوں پر باہم گزرتی ہے۔ کوئےمیریں کاایک گھروندہ ہے، ایک دکھیاری ماں ہے، اور
پھول اک طاقچے پہ ہنستے ہیں
گرم انگیٹھی کےعکسِ لرزاں سے
آگ اک آئنے میں جلتی ہے!
ایک دستک ہے! کون آیا ہے؟
صاحبو مجید امجد لفظوں کی ایک ان گنت زنبیل سنبھالے منظر نگاری کا جادوگر ہے، اور خیال کی اس دوڑ میں اس کی ہمر ہی میں اپنی پلکوں پر ملک ملک کی گرد لیے ایک ’دُختِ ارضِ الماں‘ ایک ’مفتوح قوم کی بیٹی‘ ہے
جو روئے عالم کی خاک چھان کر لوٹی ہے تو ’ایک نازک بیاض پر‘ ہمارے مجید امجد کا نام بھی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں، ’مجید امجد کی داستانِ محبت کو مرتب کرنے کے لیے جرمن سیاح لڑکی شالاط کے خطوط اور تصویروں والا وہ لفافہ درکار ہے جو جناب جاوید احمد قریشی نے عبدالرشید کے حوالے کیا مگر جب دست بدست چلتا ڈاکٹر خواجہ زکریا کے پاس پہنچا تو خالی ہوچکا تھا‘۔ صاحبو یہاں ہمیں ڈاکٹر عامر سہیل کا ممنون ہونا چاہیے کہ کسی حیلے سے خواجہ محمد ذکریا کی زنبیل میں سے کہیں گم شد ایک بھولا بِسراکرسمس پر میونخ سے بھیجا شالاط کا وہ پوسٹ کارڈ نکال لائے ہیں جسکا عکس (خاکسار کے کیے کچھ آرائشی عمل کے ساتھ) ہمارے پڑھنے والے اس دھاگے کی پہلی ٹوئیٹ میں اوپر دیکھ آئے ہیں۔ عامر سہیل نے اسے مجید امجد پر اپنے مقالے ’نقش گرِ ناتمام‘ کے ایک ضمیمے میں شامل کیا ہے۔
سجاد میر لکھتے ہیں کہ جھنگ نے دو ولی پیدا کیے ہیں، ایک سلطان باہو اور دوسرے مجید امجد۔
مجید امجد کو جھنگ مگھیانے کا درویش لکھوں تو کانوں میں بے اختیار نصرت کی بین کرتی ہنستی گاتی آواز میں وہ گرہ گونجتی ہے جو استاد نے اپنی لازوال قوالی کی ابتدا میں لگائی ہے، وہی جس میں ایک بے قرار آس کے گمان میں جوگی نال جانے کا ذکر ہے
نہ میں عیش آرام چا کیتا، نہ میں ریشم پٹ ہنڈایا
نہ میں جھنگ مگھیانے وچ کوئی پیر فقیر رجھایا
نہ میں ہیر ظہیر تتی نے کوئی بھیڑا رمز گھمایا
غلام فریدا ایہو عیب چا کیتا جیہڑا نیونہہ رانجھے سنگ لایا
جھنگ مگھیانے کے درویش مجید امجد نے بھی تو نیونہہ میونخ کی شالاط کے سنگ لایا تھا۔
مہر افشاں فاروقی بھی قلم اٹھاتی ہیں تو چناب کے پانیوں کی بظاہر شانت بے کرانی میں بے دھڑک ایک تلاطم خیز کنکر پھینک کنارے پر بیٹھ تماشہ دیکھتی ہیں۔
’اردو دانوں اور مجید امجد کے قدردانوں کی دنیا اسے شالاط کے نام سے جانتی ہے۔ جرمن نژاد ہونے کی رعایت سے ہم اسے شارلٹ کا نام عطا کریں یا کچھ اور ہم نہیں جانتے، کیونکہ مجید امجد نے بھی ہڑپہ کے کھنڈر خانے میں بیاضِ دل پر اترنے والے اس معرکہٗ محبت کو مخفی رکھا‘۔ مہر فاروقی کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ انقلابی تھا کہ اس نے مجید امجد کے فن کو محبت کا عرفان اور ایک نئی جہت عطا کی۔
چونکہ ہمارا شاعر یہاں خود خاموش ہے تو اب یہاں روایتیں اپنی صحت کے تنوع کے ساتھ مختلف ہیں۔ ہڑپہ کے کھنڈروں کی یاترا پر آئی شالاط یا تو ان کھنڈروں میں ہی ایک کھنڈر صفت تنہا شاعر سے مِلی یا پھر ساہیوال میں جبکہ ہماری سیاح مسٹر (صادق حسین) جوگی کے سٹیڈیم ہوٹل میں ٹھہر ی تھی۔
مجید امجد اس ہوٹل کے کیفے کی شاموں کے روزانہ کے گراہک تھے۔ اب یہ دوستانہ ہڑپہ کی کھنڈر دوپہروں کی دین تھا یا پھر کیفے سٹیڈیم ہوٹل کی اوور اے کپ آف ٹی شاموں کا ہم نہیں جانتے۔ اس باہم میل جول کا دورانیہ ہفتوں پر محیط تھا یا دنوں پر ہم نہیں جانتے۔ ہاں مگر یہ ضرور جانتے ہیں کہ شالاط جب اس دیس سے روانہ ہوئی تو ایران کی سرحد کے راستے سے پلٹتی اپنی دوست کو ہمارا شاعر کوئٹہ ریلوے سٹیشن تک چھوڑنے آیا۔ اب یہاں ڈاکٹر محمد امین کا بیان ہے کہ ہمارا کم گو شاعر شالاط کو تحفتاً دینے کو چوڑیاں ساتھ لے گیا تھا مگر وقتِ رخصت دینےکی ہمت نہ ہوئی اورویسے ہی واپس لے آیا منٹگمری کے سٹیلائٹ ٹاوٗن کے تنہا کوارٹر کو لوٹتے شاعر نے پھر ایک نظم لکھی ’کوئٹے تک‘۔ ایک دمساز کو رخصت کردینے کے بعد زندگی میں ابھر آئے خلا کی عکاسی کرتی اس دوغزلہ نظم کا ہر شعر رونگٹے کھڑےکردینےوالاہے
صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم
اک لمحہ آکے ہنس گئے، میں ڈھونڈتا پھرا
تم پھر نہ آسکو گے، بتانا تو تھا مجھے
تم دور جاکے بس گئے، میں ڈھونڈتا پھر
۔۔۔۔۔
برس گیا بہ خراباتِ آرزو، ترا غم
قدح قدح تری یادیں، سُبو سُبو ترا غم
طلوعِ مہر، شگفتِ سحر، سیاہیِ شب
تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم
ہماری پہلے پہل کی واقفیت جس مجید امجد سے ہوئی وہ شالاط سے ملاقات سے پہلے والا شاعر تھا اور ایک محبت نما دوستانے کے قلب پر وارد ہونے سے پہلے والا مجید امجد بھی الفاظ کا کم جادوگر نہیں تھا۔
تو صاحبو، انٹاریو کے برفاب رکھوں والے شہر کے اک گھروندے میں جبکہ آج کرسمس ہے، گزرے دنوں کی جلتی بجھتی یادوں کی انگیٹھی میں جھلملاتے دو منظروں میں سے پہلا منظر ٹوبے کیمپ کا ہے۔
مجید امجد سے جُڑی ہماری زندگی کی پہلے پہل کی یاد ان کی بے مثال نظم آٹو گراف ہے اور ایک موصول شدہ مکتوب میں اسے پڑھ لینے سے پہلے تھرڈ پاکستان بٹالین کے سوئمنگ بول کے ڈائیونگ بورڈ پر کھڑا کچھ کچھ جھجھکتا اور کھٹکتا فرسٹ ٹرم کا کیڈٹ ہے۔
وقاص ہمارے گلشنِ حدید کے یارانِ غار میں سے ہے۔ وہی ہمارے نام اپنے مکاتیب کا ’یار زندہ صحبت باقی‘ کی دستخطی عبارت سے اختتام کرنے والا وقاص صدیقی۔ آپ ہی کا قول ہے کہ اگر وہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ملازمت میں ہوتے تو ہمارے (راقم الحروف کے) خطوط شاملِ نصاب کردیتے۔ طلباء کو بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ’عامیانہ‘ بات کو کہنے میں کیسا سلیقہ برتنا چاہیے۔ خیر یہ تو جملہٗ معترضہ تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ وقاص ہی نے پہلے پہل ایک خط کے ضمیمے میں مجید امجد کی نظم آٹو گراف لکھ کر مکتوبِ مذکور کو عبیدہ کمپنی تھرڈ پاکستان بٹالین ٹوبےکیمپ کے پتے پر روانہ کردیا تھا۔ جراسک پارک میں جب اس روز دن کی ڈاک تقسیم ہوئی تو پچانوے لانگ کورس کے کیڈٹس جانگیے عرف سوئمنگ کاسٹیوم پہنے سوئمنگ پول کے کنارے PTSO (پی ٹی اینڈ فزیکل ٹریننگ آفیسر) کیپٹن عابد کی چھری تلے قربان ہونے کو کھڑے تھے۔
تیراکی کے ابتدائی ٹیسٹ میں جب محمود و ایاز کی چھانٹی ہوگئی تو ہم جیسے سٹون نان سوئمر جو پانی میں گرتے ہی چھپاک سے پتھر کی مانند ڈوب جاتے تھے ڈائیونگ بورڈ کے پھانسی گھاٹ کے نیچے اکھٹے کیے گئے۔ اربابِ اختیار کو اب یہ تسلی کرنی تھی کہ ان ناہجاروں میں سے کون ہے جوپانی سے ڈرتا ہے۔
صاحب سترہ فٹ اونچے ڈایئونگ بورڈ پر کھڑے ہوکر پتہ چلا کہ ہم تو دونوں سے ڈرتے ہیں، اونچائی سے بھی اور پانی سے بھی۔ اتنی اوپر سے نیچے دیکھ کر تو ایک وسیع و عریض سوئمنگ پول ماچس کی ڈبیا کی طرح لگا اور ہم مزید گھبرا گئے کہ چھلانگ لگانے میں ہلکی سی بے احتیاطی کی تو سوئمنگ پول کے باہر سیمنٹ کے فرش پر جا گریں گے۔ ہمیں تو لگ رہا تھا کہ اب دمِ واپسیں ہے۔ ڈائیونگ بورڈ پر چڑھنے سے پہلے ایک مانوس دوستانے میں لپٹا وقاص کا خط جسے نیچے گھاس پر چھوڑ آئے تھے اسے پڑھے بغیر ہی پران دے دینے پر ہمیں افسوس تھا۔ آنکھیں بند اور دل بڑا کرکے ہم نے جو چھلانگ لگائی ہے تو پانی تک پہنچنے سے پہلے پِتہ پانی ہوگیا تھا۔ دوچار ڈبکیاں کھا کر لائف گارڈ کی پانی میں بڑھائی سٹک پکڑ تالاب سے باہر نکلے تو حواس اور اوسان دونوں خطا تھے۔خیر اسے چھوڑیے کہ اکیڈیمی کا تیراکی سکھانے کاسارا نصاب یہی ہے۔ غیر تیراک بدبختوں کو پانی میں ڈبکیاں لگوا لگوا کر ڈر اور پانی میں ڈوب جانے کی عادت دونوں نکال دیتے ہیں۔ اس دن ڈائیونگ بورڈ سے چھلانگ کے بعد ہم نہ صرف یہ کہ زندہ بچ گئے بلکہ اسی شام ایک اہتمام سے وقاص صدیقی کے خط اور اس کے ساتھ لِف بقلمِ یارِ طرحدار مجید امجد کی آٹوگراف پڑھ کر پیسے پورے ہوگئے۔
یہ مجید امجد سے ہمار ا پہلا پہلا تعارف تھا۔
اوول کے ہیرو فضل محمود کی پرستار لڑکیوں کو آٹو گراف دیتی اخبار میں چھپی ایک تصویر۔ محض ایک تصویر، اور مجید امجد کے تخیل کے نگار خانے سے دیکھیے کہ کیسے زندہ جاوید منظر صفحہٗ قرطاس پر طلوع ہوتے ہیں۔
کھلاڑیوں کےآٹو گراف کی منتظر ، ڈھلکتے آنچلوں سےبے خبرحسین لڑکیاں، نظروں میں نارساپرستشوں کی داستاں سموئےایک اشتیاق میں ہمارےباوٗلرکے راستےمیں کھڑی ہیں، ’بیاضِ آرزو بکف‘ ۔ اور صاحب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اسقدر جاندار ترکیبیں، اسقدر برمحل استعارے مجید امجد کے علاوہ کہاں ملتے ہیں!
عظیم شخصیت کی تمکنت، حنائی انگلیوں میں کانپتا ورق، زرنگار پلووٗں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض۔ اور مجید امجد کے علاوہ کون ہے جو دستخط کو ’حروفِ کج تراش کی لکیر سی‘ اور ’کِلکِ گوہریں‘ کہہ سکے
وہ باوٗلر، ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھِر گیا
وہ صفحہٗ بیاض پر
بصد غرور کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری!
اور پھر انہی کھلکھلاہٹوں اور مسکراہٹوں کے درمیان یاس کی وہ لکیرابھرتی ہے جو ہمارے مجید امجد کا خاصہ ہے
میں اجبنی، میں بے نشاں
میں پابہ گِل
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل! یہ لوحِ دل!
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے
میونخ کی شالاط سے ملنےسےپہلےایک بےنشانی کی اداسی میں لپٹامجیدامجد ، اس وارداتِ محبت کے سالوں بعدبھی تو بےنامی کی اسی گردکواوڑھے بیٹھاہے
تڑخ کے گرد کی تہہ سےاگر کہیں کچھ پھول
کھلےبھی، کوئی تو دیکھےگا ۔ کون دیکھے گا
صاحبو دوسرا منظر کوہاٹ کی زمینوں کے اُس پار کرم کی دلآویز وادی کا ہے۔ ایسے ہی ایک ٹھٹھرتے کہر بار دسمبر میں خدِمخ کی سرمئی دیوی کی پرچھائیں تلے ٹل کی ایک سنسان سڑک پر دل کو ٹہلاتا، بہلاتا اور پھُسلاتا مانی سات سمندر پار کی دوری پر اپنی شالاط کے شہر مونٹریال کو یاد کرتا تھا کہ اس رات وہاں کرسمس تھی۔ ہمارے مجید امجد تو چند سیر چشم صحبتوں کی یاد زادِراہ میں باندھے اپنی شالاط کو الوداع کہنے کوئٹہ کےبارڈر تک چھوڑنے آئے تھے۔ خدِمخ کی اس رات سے کچھ سالوں کی دوری پر پردیس سدھارتی شالاط کو خداحافظ کہنےمانی کراچی کےبین الاقوامی ہوائی اڈے تک بھی نہ جاسکاتھا کہ عین اس سمے اگوکی کے ریلوے سٹیشن کے پار یونٹ کے بیچلر آفیسرز کوارٹر کے ایک کمرے میں اپنا جستی ٹرنک کھولے کھڑا تھا۔
ترے خیال کے پہلو سے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سوُ بہ سُو ترا غم
کراچی سے ایک مفتوح قوم کی بیٹی پارہٗ ناں کا حیلہ کرتی مونٹریال سدھاری تو اگوکی، ظفروال اور شکر گڑھ کی زمینوں میں کچھ سیپ کی چوڑیاں، کچھ ٹھیکریاں ،ایک اژدر کی کینچلی چنتا مانی ٹل آگیا۔ اسی ٹل میں دسمبر کی اس کہربار رات، پری چہرہ خدِمخ کےہیولےکی چھاوٗں میں مانی شالاط کو یاد کرتاتھا کہ مونٹریال کے قریہٗ شراب میں جہاں لانگوئیل کے گھروندے ہیں اور ڈی لا بار کی سڑک مڑتی ہے اور چونکہ کرسمس ہے تو وہیں کہیں لوگ
امڈ آئے ہیں مست راہوں پر
بانہیں بانہوں میں ہونٹ ہونٹوں پر
موجودہ صدی کے اس پہلونٹی کے سال گوگل میپ کی عیاشی ابھی بھی کم و بیش نصف دہائی کی دوری پھر تھی۔ چھاوٗنی کی لائبریری میں دستیاب اٹلس پر میڈیم آرٹلری رجمنٹ کا گنر سکس فگر گرڈ ریفرنس کے کلیے میں ٹریسنگ پیپر پر کچھ تفصیلات ایک لطیف پیرائے میں اتارتا تھا
سینٹ لارنس کی آبی گزرگاہ سے پرے
جہاں ڈی لا بار کی بل کھاتی سڑک
لانگوئل کے گھروندوں کی سمت مڑتی ہے
انٹاریو کے برفاب رکھوں کے شہر میں آج کرسمس کے دن جب میں ٹل چھاوٗنی سے بھیجے ایک مکتوب اور ماریہ وارڈ میونخ سے آمدہ ایک پوسٹ کارڈ کو ایک ہی فریم میں رکھ کر دیکھتا ہوں تو مجید امجد کی میونخ کی طرح اس دِل پر بھی چارسوُ، برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں
فاصلوں کی کمند سے آزاد
میرا دل ہے کہ شہر میونخ ہے
چار سُو، جس طرف کوئی دیکھے
برف گرتی ہے، ساز بجتے ہیں!
پسِ تحریر
۔۔۔۔
امسال فیصل آباد سے بائی روڈ کراچی کا راستہ پکڑا تو میں ابو کو بہانے سے باتوں میں لگا جھنگ کی طرف مائی ہیر کا مزار دکھانے لے گیا۔ اصل مقصد ساہیوال میں عمر بتانے والے جھنگ مگھیانے کے درویش شاعر کی تربت پر حاضری تھی۔
جھنگ صدرکی قربت میں پیرلوہلےشاہ کےدرباروالےقبرستان میں ہمارےمجید امجد آرام کرتےہیں۔ اہالیانِ جھنگ نےاپنے سپوت کےمان اورستکارمیں تربت پرایک سادہ چھتری تعمیرکردی ہے۔ مجید امجد کےکتبےکی زینت انہی کاخوبصورت شعرہے
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجدؔ
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
مجید امجد پر لکھی ہر تحریر نامکمل ہے جب تک کہ ساہیوال کے فرید ٹاوٗن کی ایک سنسان گلی کی نکڑ پر ایک مقفل کواڑ والے کوارٹر کے درشن نہ کرلیے جائیں ، ظفر علی کرکٹ سٹیڈیم سے متصل اسٹیڈیم ہوٹل میں بیٹھ کر چائے نہ پی جائے اور گئے دنوں کے کیفے ڈی روز کو نہ کھوج نکالا جائے۔
ہم دوبارہ پاکستان گئے تو اس کہانی کو اس کا اختتامیہ دینے ساہیوال بھی جائیں گے۔ انشاءاللہ۔