(Last Updated On: )
جھنگ صدر کا پرانا نام جھنگ مگھیانہ ہے اور اس شہر کی بنیاد 1604 میں میگھا سیال نے رکھی تھی۔یہ علاقہ سیالوں کے دارالعمارات (موجودہ جھنگ سٹی) سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا تاہم اب بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب دونوں علاقے آپس میں مدغم ہو چکے ہیں۔
پنڈی محلہمیگھا سیال نے جہاں جھنگ مگھیانہ کی بنیاد رکھی تھی اسے آج کل پنڈی محلہ کہا جاتا ہے۔اس بارے میں دو روایات مشہور ہیں ایک یہ کہ آغاز میں یہ مقام ایک چھوٹے گاؤں کی شکل میں تھا جس کی نسبت سے اسے پنڈی محلہ کہا جانے لگا۔دوسری روایت یہ ہے کہ دریا کے قریب ہونے کے ناطے اسے مقامی زبان میں بنڈہ کہا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پنڈی ہو گیا۔
محلہ سلطان والااس محلے کو جھنگ کے مرکزی علاقے کی حیثیت حاصل ہے جس کی آباد کاری کو مغل شہنشاہ سلطان نورالدین جہانگیر سے جوڑا جاتا ہے۔اس وقت یہ علاقہ انتہائی سرسبزو شاداب تھا اور اس سے ملحقہ ایک بہت بڑا باغ بھی بنایا گیا تھا جہاں پر اب محلہ باغ والا واقع ہے۔تاریخی روایات کے مطابق جب سلطان نورالدین یہاں آیا تو بہار کا موسم تھا اور رمضان المبارک کے آخری ایام تھے۔سلطان نے یہاں ایک کھلے میدان میں نماز عید ادا کی اور وہاں ایک مسجد تعمیر کروانے کا حکم دیا۔نماز کے بعد سلطان آبکاری روڈ ( موجودہ دھجی روڈ) سے ہوتا ہوا کٹڑہ بیر والا کے مقام پر پہنچا جہاں گھوڑوں کی دوڑ اور کشتی کے مختلف مقابلے کروائے گئے۔
محلہ پرانی عید گاہیہ وہی جگہ ہے جہاں سلطان نورالدین کے حکم پر عید گاہ تعمیر کی گئی تھی۔اس محلے کو قیام پاکستان تک محلہ عید گاہ کہا جاتا تھا تاہم جب محلہ چندانوالہ کے قریب نئی عید گاہ بنائی گئی تو اسے محلہ پرانی عید گاہ کہا جانے لگا۔
محلہ حق نواز شہیداس محلے کا پرانا نام محلہ پیپلیانوالہ تھا جس کی بڑی وجہ یہاں موجود پیپل کے درختوں کی بہتات تھی۔تاہم نوے کی دہائی میں جب اس محلے میں رہائش پذیر مولانا حق نواز کو گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تو ان کے عقیدت مندوں نے علاقے کا نام تبدیل کر دیا۔اب کچھ لوگ اسے نئے نام سے پکارتے ہیں اور کچھ اب بھی اس کے پرانے نام سے ہی جُڑے ہوئے ہیں۔
محلہ بابو والامحلہ سلطان والا کے جنوب میں واقع اس محلے کو بعض مقامی لوگ محلہ یابو والا کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام پاکستان سے قبل یہاں ایک ہندو سادھو بابو رام رہائش پذیر تھا اور اس کی نسبت سے اسے یابو والا محلہ کہا جاتا تھا۔ایک اور روایت کے مطابق یہ نام ایک مسلمان بزرگ سے منسوب ہے جن کے درست نام کا کسی کو علم نہیں اور مقامی لوگ انہیں بابو صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے۔اس بارے میں کسی قسم کے تاریخی شواہد دستیاب نہیں ہیں تاہم بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اس محلے میں موجود جامع مسجد فتح بلاول میں مدفن بزرگ پیر فتح بلاول شاہ ہی اصل میں بابو صاحب تھے۔
محلہ ہرمل پورجھنگ کے حفاظتی بند کے ساتھ واقع اس محلے کو یہ نام اس وجہ سے ملا کہ دریا کہ قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں ہرمل نام کی جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی تھی۔تاہم بعض مقامی لوگ اسے ایک ہندو حکیم ہرمل داس سے منسوب قرار دیتے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں رہائش پذیر تھا اور لوگ دور دور سے علاج کی غرض سے اس کے پاس آتے تھے۔
محلہ جوگیانوالہ محلہ جوگیانوالہ بھی جھنگ کے قدیم علاقوں میں شامل ہے۔زمانہ قدیم میں یہاں دور دور تک کھیت اور غیر آباد میدان ہوتے تھے جہاں جوگیوں کا قبیلہ آباد تھا۔یہ لوگ زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہتے اور گھوم پھر کر اپنا رزق تلاش کرتے تھے۔اب یہ علاقہ کافی گنجان آباد ہو چکا ہے اور کھیتوں کے علاوہ جوگیوں کا بھی نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔
محلہ برجی والاگوجرہ روڈ پر واقع یہ محلہ سکھوں کے دور کی یاد دلاتا ہے۔جھنگ پر حملے کے بعد سکھوں نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا جس کے سامنے والے علاقے میں حفاظتی اقدامات کے طور پر چوبرجیاں تعمیر کی گئی تھیں۔جس جگہ پہلے یہ قلعہ ہوتا تھا وہاں اب گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بن چکا ہے تاہم لوگ اس علاقے کو اب بھی قلعے کے سامنے بنائی گئی چوبرجیوں کی نسبت سے محلہ برجی والا ہی کہتے ہیں۔