جھنگ جھنگوی دا اے
یہ بات آپ نے سنی ہو گی.. اگر آپ جھنگ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات کافی حد تک درست نظر آتی ہے… جھنگ میں ہمیشہ سے آج تک ہمیشہ مذہبی ووٹنگ ہوئی…دیوبندیوں کی اکثریت اور چند دیگر فرقوں کی تھوڑی سی تعداد نے ہمیشہ جھنگوی گروپ کو ووٹ دیا..خواہ وہ کسی قسم کا ترقیاتی کام نہ کروائے.. اور شیعہ اکثریت اور بریلوی اکثریت نے ہمیشہ شیخ وقاص گروپ کو ووٹ دیا…
جھنگ کی سیاسی تاریخ نہایت خطرناک رہی ہے…یہ شہر آگ و بارود میں جلتا رہا ہے… اپنی سیاست چمکانے کیلیے یہاں پر مولانا حق نواز جھنگوی ، سیدہ عابدہ حسین ، شیخ محمد اقبال ، اور شیخ وقاص اکرم نے ہمیشہ لوگوں کے مذہب کو سہارا بنایا…
1988 میں ہونے والے انتخابات میں محترمہ سیدہ عابدہ حسین نے آزاد امید وار کے طور پر حصہ لیا…ان کے مقابلے میں میاں ریاض جنجوعہ اور حق نواز جھنگوی تھے..اس وقت لشکر جھنگوی / سپاہ صحابہ کا وجود نہیں تھا..اور اگر تھا بھی تو منظم نہیں تھی.. حق نواز جھنگوی نے جمیعت علمائے اسلام کی طرف سے الیکشن لڑا اور
سیدہ بی بی عابدہ حسین سے نو ہزار ووٹوں سے ہار گئے…پھر 1990 کے انتخابات میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے نواب امان اللہ خان سیال اور اسلامی جمہوری اتحاد کے مولانا ایثار القاسمی کے درمیان مقابلہ ہوا..مولانا کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا…ان دنوں حق نواز جھنگوی شیعیت کا گستاخانہ لٹریچر دکھا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹ چکے تھے..اور جھنگ ان کے نرغے میں تھا.. مولانا نے نواب امان اللہ خان کو تقریبا اکتیس ہزار ووٹوں سے شکست دی.. نواب خان صرف تیتس ہزار ووٹ ہی لے سکے..اور مولانا باسٹھ ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے..اگلے سال ہی مولانا کو قتل کر دیا گیا…اور 1993 کے انتخابات میں مولانا اعظم طارق نے ہی ان کی جگہ الیکشن لڑا..اور متحدہ دینی محاز کی طرف سے ٹکٹ لیا..ان کا مقابلہ آزاد امیدوار شیخ محمد اقبال سے اور نواب امان اللہ خان سے تھا…
مولانا اعظم طارق نے تقریبا بیس ہزار ووٹوں سے شیخ محمد اقبال کو شکست دی..اور ممبر اسمبلی بنے..پھر 1997 میں نواب امان اللہ خان نے ن لیگ کی طرف سے انتخاب لڑا..اور مولانا اعظم طارق کو تقریبا چودہ ہزار ووٹوں سے شکست دی..مولانا ان دنوں کئی کیس بھگت رہے تھے..اور فرقہ واریت کے الزام میں روپوش تھے…
پھر 2002 میں ڈاکٹر طاہر القادری ، شیخ وقاص اکرم ، اور مولانا اعظم طارق کے درمیان مقابلہ ہوا..مولانا ان دنوں جیل میں سزا کاٹ رہے تھے..انہوں نے جیل میں بیٹھ کر ہی الیکشن لڑا..اور شیخ وقاص اکرم کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دی..طاہر القادری کو بھی اچھے خاصے ووٹ ملے…اس سے اگلے سال ہی مولانا اعظم طارق کو اسلام آباد میں گولیاں مار دی گئیں..اور بائی الیکشن منعقد ہوئے.جس میں مولانا کے بھائی مولانا عالم طارق نے حصہ لیا..جھنگ کی عوام نے احتجاجا ووٹ کاسٹ نہ کیا..محض چالیس پینتالیس ہزار افراد نے ووٹ کاسٹ کیا..جس میں مولانا عالم طارق ، شیخ وقاص اکرم کے ہاتھوں تقریباتین ہزار ووٹوں سے ہار گئے..2008 کے انتخابات میں شیخ وقاص اکرم نے مولانا محمد احمد لدھیانوی کو پانچ ہزار ووٹوں سے شکست دی..جس پر بعد میں مولانا نے دھاندلی کا الزام وغیرہ لگا کر پانچ سال تک ترقیاتی کام روکے رکھا…پھر آخر کار مولانا کی درخواست پر شیخ وقاص اکرم کو نااہل کر دیا گیا..اور الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا..2013 میں شیخ وقاص اکرم کے والد شیخ محمد اکرم نے الیکشن لڑا..اور متحدہ دینی محاذ کے مولانا احمد لدھیانوی کو تین ہزار ووٹوں سے شکست دی..اس پر بھی مولانا نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے شیخ وقاص اکرم اور ایم پی اے راشدہ یعقوب شیخ کے خلاف درخواست دائر کی جس کے نتیجے میں راشدہ یعقوب کو نا اہل کر دیا گیا..اور شیخ محمد اکرم تاحال ایم این اے رہے..راشدہ یعقوب کی جگہ مولانا مسرور نواز نے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور ن لیگ کو تقریبا پندرہ سولہ ہزار ووٹوں سے شکست دی…
راشدہ یعقوب شیخ نے لوٹا کریسی کی لاج رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا ہے… اور محترمہ سیدہ بی بی عابدہ حسین کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ ن لیگ کی طرف سے الیکشن لڑیں گی..یا وہ آزاد امیدوار کے طور پر بھی لڑ سکتی ہیں..غلام بی بی بھروانہ بھی تحریک انصاف کے صف لوٹا میں شامل ہو گئی ہیں..اور انتخابات لڑرہی ہیں…تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شیخ وقاص اکرم نے ن لیگ کا ٹکٹ لینے سے انکار کیا ہے..اور مولانا مسرور نواز جھنگوی اور مولانا معاویہ اعظم ( بیٹا اعظم طارق ) کے درمیان انتخابات لڑنے کی چپلقش جاری ہے..دیکھیے کون انتخابات لڑتا ہے…ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا..البتہ میری سیاسی ہمدردیاں سیدہ عابدہ حسین کے ساتھ ہیں..ان کا سیاسی و سفارتی کیرئیر بہت تابناک ہے..
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔