جھنگ اور چاروں بار کےعلاقے کا لہجہ لہندا
عادل چچکانہ سیال جھنگ سیال
لسانی لحاظ سے جھنگ کی مقامی زبان اپنی ایک پہچان رکھتی ہے۔ اسے لہندا کہا گیا ہے جو سندھ سے پنجاب تل بولی جاتی
ہے اسی لہندا کو آج کل سرائیکی بھی کہا جاتا ہے اسی لہندا میں ہی سب سے زیادہ صوفیاء کا کلام لکھا گیا ہے بابا فرید سمیت سب نے اسی لہجہ کو استعمال کیا ہے حتی کی شاہ حسین لہوری کی زبان بھی یہی ہے اندرون ملتان سے جھنگ تک اور اوکاڑہ دیپالپورخانیوال سرگودھا میانوالی بلکہ ڈیرہ ٹانک تک مقامی لوگوں کی یہی زبان ہے اس مخصوص لہجے کے لیے جانگلی، جھنگوچی یا جھنگوی کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ ۱۹۰۰ء کی دہائی کی آباد کاری اور ۱۹۴۷ کی ہجرت کے بعد امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ سے آنے والے الاٹی زمینداروں کے اس لہجے کے ساتھ برتاؤ نے پس ماندہ مقامی لوگوں میں جو لسانی احساس کمتری پیدا کیا، وہ شہر کے اندر کم لیکن کسی دوسرے شہر جاتے ہی یہاں کے باسیوں کی بول چال میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ لوک گیتوں، لوک رقص، زبان اور دیگر ثقافتی اجزاء میں سرائیکی عنصر غالب ہی سندھی اور سرائیکی کی مخصوص سات آوازیں سب سے زیادہ اسی لہجے میں استعمال ہوتی ہیں یہاں کی ذاتیں لکھنے اور بولنے کے لیے آپ کو ان مخصوص آوازوں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی ہے اسی لہجے کے بولنے والوں نے ماضی میں سندھ میں بڑی تعداد میں ہجرت کی ہے شاید اسی وجہ سے آج ان کی مخصوص آوازیں سندھ میں استعمال ہوتی ہیں
دوسرے شہروں کے لوگوں سے اتنے بڑے میل جول کی وجہ سے دیگر شہروں کے لوگوں کے ہاں جھنگ اور چاروں بار کے باسیوں کے حوالے سے خاص تعصبات اور تاثر پائے جاتے ہیں۔ جھنگ اور بار کی ثقافت سے وابستہ افراد کے لیے ایک دل دکھانے والی اصطلاح “جانگلی” کچھ مخصوص تاریخی ستم ظریفیوں کی وجہ سے باعث ننگ سمجھی جانے لگی ہے۔ مشرقی پنجاب کے نسبتا ذیادہ متمدن شہروں سے بڑے پیمانے پر یہاں آبادکاری اور رقبوں کی الاٹمنٹ کے بعد فطرت کی خالص آغوش میں رہنے والے ذراعت پیشہ مقامی لوگوں کے لیے آبادکاروں نے یہ لفظ بدوی اجڈ اور ایک غلیظ ڄانورکے معنوں میں برتنا شروع کر دیا۔ یہ نام مراکز میں انہی معنوں میں برتا
اب ۸۰ء اور ۹۰ء کی دہائی کے بعد سے مسلسل شہر جھنگ اور بار کے علاقے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھی ہوئی، اعلی ملازمتوں سے بہرہ
مند مگر مقامی شناخت پر شرمندہ شرمندہ سی ایک نوجوان نسل پیدا کر رہا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔