“میں طوفان کا پہلا جھونکا ہوں، دشمنوں کے لئے عذاب، دوستوں کا دوست۔ میں اس کے لئے دہشت ہوں جو میرے مقابلے پر آ جائے۔ دن کو میرا راج، رات کی تاریکی میرا پردہ۔ تم مجھے صرف اس وقت دیکھو گے جب میں تمہارے شانے پر ہوں گا اور تم میرے نشانے پر۔ تہماری آخری یاد میری گرج ہو گی کیونکہ میں “گرج” ہوں۔”
(یہ پیرس میں 2015 کے فضائی شو میں پاکستان کی طرف سے فضائیہ کے ملٹی پرپز لڑاکا طیارے جے ایف 17 تھنڈر کے شو کے پروموشنل میٹیریل سے لیا گیا ہے)۔
دہائیوں تک جاری رہنے والی سرد جنگ اختتام تک پہنچ چکی تھی۔ دنیا کا سیاسی نقشہ بدل گیا تھا۔ دوست اور دشمن، اثاثے اور زحمت وغیرہ کی لکیریں بدل گئی تھیں۔ برِصغیر کا دہائیوں پرانا سیاسی تنازعہ جوں کا توں برقرار تھا جس کی فالٹ لائن پر زلزلے آتے رہنے تھے۔ اس تنازعے کے ایک حریف کو بدلنے والی دنیا اور ترجیحات کی حقیقت کا سامنا پابندیوں کی صورت میں تھا۔ جب منظر نامہ تیزی سے بدلتا ہے تو نکلنے والے نتائج غیرمتوقع ہوتے ہیں۔ ان سے نکلنے والے طرح طرح کے اچھے برے نتائج میں سے ایک جے ایف 17 تھنڈر طیارہ تھا۔
ملٹری ہارڈوئیر لینے میں مشکلات کی پیشِ نظر پہلے پراجیکٹ سیبر دوئم شروع ہوا لیکن پریسلر ترمیم کے سبب لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے اسے بھی ترک کرنا پڑا۔ اس کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر پچاس کروڑ ڈالر کی لاگت سے نیا لڑاکا طیارہ ڈیزائن کرنے کا پروگرام شروع کیا۔ ابتدا میں پلان تھا کہ اس کی باڈی چین سے جبکہ دوسرے پارٹس مغربی فضائی کمپینوں سے حاصل کئے جائیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ پلان بدلتا گیا۔ دس برس تک عالمی سیاست کے خم و پیچ سے گزرتے ہوئے پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہوا۔ سیاست میں روس کے علاوہ جنوبی افریقہ، اٹلی، برطانیہ اور امریکہ سے معاملات سے گزرتے ہوتے ہوئے بالآخر 2003 میں اس نے پہلی ٹیسٹ اڑان بھری۔ اس سے اگلے برسوں میں نقائص ٹھیک ہوئے۔ چھ پروٹوٹائپس سے گزر کر 2008 میں اس کی پروڈکشن کا آغاز ہوا اور 2011 میں پاکستان ائرفورس کا حصہ بنا۔ 18 دسمبر 2013 کو اس کے دوسرے بلاک کی پروڈکشن کامرہ میں شروع ہوئی۔ جبکہ تیسرا بلاک اس وقت پروڈکشن تک نہیں پہنچا۔
اس کا سب سے بڑا گاہک پاکستان فضائیہ ہے جس کے فلیٹ میں سو سے زیادہ جے ایف 17 طیارے ہیں۔ پاکستان ایرفورس نے اس کا کامیابی سے استعمال شمال مغربی علاقوں میں جاری شورش میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو گائیڈڈ میزائل اور فضائی بمباری کے ذریعے نشانہ بنا کر کیا۔ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کا یہ ایک اہم موڑ تھا۔
اس طیارے کی فروخت میانمار (برما) اور نائجیریا کی فضائیہ کو کی جا چکی ہے۔ میانمار کو پہلی ڈلیوری 2018 میں کی گئی۔ نائیجیریا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے شمال میں جاری شورش کچلنے نے لئے ان طیاروں کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دنیا میں لڑاکا طیاروں کی ایک بڑی مارکیٹ ابھر رہی ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں پر پرانے سوویت طیارے اب بوڑھے ہو رہے ہیں اور نئے طیارے خریدنے کا بجٹ زیادہ نہیں۔ الجزائر، ارجنٹینا، ایران، لبنان، ملیشیا، مراکش، سری لنکا، یوراگوئے، آذربائیجان، زمبابوے، قطر، سعودی عرب اور سوڈان مختلف وقتوں میں اس میں دلچسپی دکھا چکے ہیں۔
اس طیارے کو بیچنے میں سب سے اہم نکتہ تو اس کی قیمت ہے، جو ایف 16 یا ایف 35 کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ہے اور یہ استعمال شدہ سیکنڈ ہینڈ طیاروں سے بھی سستا مل جاتا ہے۔ اس کا سادہ ورژن 25 ملین ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا یہ موؐثر بھی ہے؟ یہ سوال متوقع خریداروں کو بھی رہا ہے۔ کاغذوں پر اس کے اپنے اچھے اور کمزور پوائنٹ ہیں لیکن اس کا ایک جواب برِصغیر کے تنازعے کی لہر کی حالیہ شدت سے ملا۔ 27 فروری 2019 کو پاکستان فضائیہ کے ایک پیک کو انڈین ائر فورس کے آٹھ طیاروں نے انٹرسپٹ کیا۔ ان میں چار سخوئی 30، دو میراج 2000 اور دو مگ 21 بائزن طیارے تھے۔ (بائزن، مگ 21 کا اپ گریڈڈ ورژن ہے)۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی ڈاگ فائٹ میں وہ مرحلہ آیا جب ایک مگ 21 کے شانے پر موجود ایک جے ایف 17 نے نشانہ باندھا۔ ہوا میں مار کرنے والے اٹھارہ سینٹی میٹر قطر کے میزائل نے بائزن کو دو ٹکڑے کر دیا۔ دوبدو مقابلے میں یہ جے ایف 17 کی پہلی kill تھی۔
برِصغیر میں سپرسانک طیاروں کے آپس میں ہونے والے دوبدو مقابلوں میں اس سے قبل مشرقی ہمسائے نے اپنی برتری مگ 21 کے ذریعے قائم کی تھی۔ اس کو خود اپنے بنائے گئے طیارے کے ذریعے مگ 21 کو ہی گرا کر چیلنج کرنا مغربی ہمسائے کی طرف سے ایک بڑا صبرآزما، مہنگا، پرپیچ اور میٹھا انتقام تھا۔
لیکن یہ کہانی جاری ہے۔
پسِ تحریر نوٹ: اس پوسٹ پر کمنٹ کرنے میں زیادہ احتیاط سے کام لیں۔ قومی انتہاپسندی پر مبنی، افواہوں یا غلط معلومات والے، جنگی جنون ابھارنے والے یا کسی بھی قسم کے سیاسی کمنٹس ہٹا دئے جائیں گے۔ پوسٹ لکھنے والے صاحب پسند نہ آنے والے کمنٹس کو اور ان پر اصرار کرنے والے لوگوں کو گروپ سے اڑانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
برِصغیر کے دو ممالک کو عسکری مہم جوئی پر کتنا خرچ کرنا چاہیے، یہ ایک بالکل الگ اور غیرمتعلقہ بحث ہے جو اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔
اس آرٹیکل میں صرف وہی معلومات شامل کی گئی ہے جو پبلک انفارمیشن ہے۔
اس طیارے پر ایوی ایشنسٹ میں ایک آرٹیکل