یروشلم کی کہانی
یروشلم میں آجکل خوب گرما گرمی ہے،اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ و جدل کی کیفیت ہے ۔کہانی کچھ یوں ہے کہ آج سے کوئی دو ہفتے قبل یعنی 14جولائی کو مسجد اقصی کے باہر دو اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا ۔اسرائیلی حکام کے مطابق ان اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو فلسطینیوں نے فائرنگ کرکے ہلاک کیا ۔اس واقعے کے دو دن بعد اسرائیل نے مسجد اقصی کے انٹری پوائینٹ پر میٹل ڈیٹیکٹرز دروازے نصب کردیئے ۔اس کے بعد کیا تھا احتجاج شروع ہو گیا ،اسرائلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان شدید جھڑپوں کا آغاز ہو گیا ۔اسرائیلی پولیس اہکاروں نے فلسطینوں پر لاٹھی چارج کے ساتھ ساتھ شدید تشدد کیا ۔فلسطینیوں نے احتجاج کے طور پر مسجد اقصی کی بجائے گلی کوچوں میں نماز ادا کرنا شروع کردی ۔فلسطینیوں نے جمعہ کی نماز بھی گلی ،کوچوں اور سڑکوں پر ادا کی ۔جمعہ کے دن اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ،ان جھڑپوں میں تین فلسطینی چل بسے۔جمعہ کے دن ہی ایک فلسطینی نے فائرنگ کرکے تین اسرائیلی ہلاک کردیئے ۔مسئلہ ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے ،اسرائیلی فلسطینیوں کو اور فلسطینی اسرائیلیوں کو ہلاک کررہے ہیں ،یروشلم میں آگ و خون کا کھیل ویسے تو دہائیوں سے جاری ہے ،لیکن پھر درمیان میں کبھی کبھی امن و آشتی کا دور بھی آجاتا ہے ،لیکن اب تو جنگ و جدل کی کیفیت ہے ۔اصل کہانی یہ ہے کہ مسجد اقصی کے دو حصے ہیں ،ایک مسجد اقصی کا وہ حصہ جس میں گنبد سخرہ ہے ۔ایک حصہ وہ ہے جسے ہیکل سلیمانی کہا جاتا ہے ۔یہودیوں کے مطابق یہاں پر حظرت سلیمان ؑ کا معبد یا ہیکل ہے ۔جو تباہ ہو گیا تھا ،یہودی اس ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ان کے مطابق یہ آسمانی پیشن گوئی ہے یا ان کا اعتقاد یا ایمان ہے ۔یہودیوں کا یہ پختہ ایمان ہے کہ جس دن ہیکل سلیمانی تعمیر ہو گیا ،اس کے بعد یہودی پوری دنیا پر راج کریں گے مطلب پوری دنیا پر حکومت کریں گے ۔جیسے طالبان کہتے ہیں یا القاعدہ یا داعش کہتی ہے کہ وہ پوری دنیا پر حکومت کریں گے ۔اب اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ میٹل ڈیٹکٹرز دروازے لگانے سے فلسطینیوں کو کیا مسئلہ ہے ؟کیوں فلسطینی خوامخواہ احتجاج کررہے ہیں اور ان سے لڑ رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں جب یہودی یہاں ہیکل سلیمانی میں آتے ہیں تو انہیں بھی ان میٹل ڈیٹیکٹرز دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔اگر مسجد اقصی کے حصے میں بھی یہ میٹل ڈیٹکٹرز دروزے لگ گئے ہیں تو ان سے فلسطینی کیوں غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینوں کا مسئلہ یہ دوازے نہیں ہیں ،انہیں خطرہ اور اندیشہ یہ ہے کہ جس طرح اسرائیلیوں نے انیس سو سرسٹھ میں بیت المقدس کو اپنے اندر ضم کر لیا تھا ،اور مکمل طور پر قابض ہو گئے تھے ،اسی طرح وہ یہ دروازے نصب کرکے مسجد اقصی کو بھی ہیکل سلیمانی کا حصہ بنانے جارہے ہیں ۔اصل میں انہیں اسرائیل کی نیت پر شک ہے ۔۔۔میٹل ڈیٹکٹرز دروازے جب سے نصب ہوئے فلسطینیوں کی نام نہاد حکومت جسے فلسطینی اتھارٹی کہا جاتا ہے ،اس نے اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون ختم کردیا ہے ۔ادھر اردن میں بھی اسرائیلی سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے دو فلسطینیوں کا ہلاک کردیا ہے ۔یہ واقعہ اردن میں اسرائیلی سفارتکانے کے باہر پیش آیا ۔اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اپنے سیکیورٹی گارڈ کو اردن کی حکومت کے حوالے نہیں کریں گے کیونکہ اسے ڈپلومیٹک تحفظ حاصل ہے ۔اب اردن سے اسرائیل کا تمام سفارتی عملہ وآپس اسرائیل چلا گیا ہے ۔حالات بدترین ہو گئے ہیں ۔حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی جیسن گرین تل ابیب پہنچے ،جیسن گرین نے اسرائیلی حکومت کو سمجھایا کہ وہ آگ سے کھیلنا بند کریں ۔انہوں نے اسرائیل کو سمجھایا کہ بھیا یہ مسجد اقصی کا معاملہ ہے ،کسی کے عقیدے اور ایمان کا ایشو ہے ،یہ پوری دنیا تک پھیلے گا ،اس لئے ہوش کے ناخن لیں اور مسئلہ حل کریں ۔ادھر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے بھی اسرائیل کو تنبیہ کی ہے کہ اگر مسئلہ حل نہ کیا گیا تو پورا خط آگ اور خون کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اور اقوام متحدہ کے ایلچی کی مداخلت کے بعد نیتن یاہو کی حکومت نے مسجد اقصی سے میٹل ڈیٹکٹرز دروزے ہٹا دیئے ہیں ۔لیکن فلسطینوں کی جانب سے اب بھی احتجاج جاری ہے ،ان کا کہنا ہے کہ وہ جو مسجد اقصی کے آس پاس اور اندر سینکڑوں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے ہیں وہ بھی ہٹائے جائیں ۔یروشلم کی سرزمین پر یہودیوں،عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو مذہبی عقائد کی جنگ جاری ہے ،کسی دن یہ دنیا میں بہت بڑی تباہی کا سبب بنے گی ۔یہ ایک بہت بڑا اور قدیمی مسئلہ ہے جس پر دنیا خاموش ہے ۔یہ ایمان ،اعتقاد اور تین الہامی مذاہب کا مسئلہ ہے جس پر دہائیوں سے توجہ نہیں دی جارہی ۔مشرق وسطی میں جو آگ و خون کا کھیل ہے ،اس کے پیچھے بھی یہی یروشلم کی مقدس سرزمین ہے ۔لیکن دنیا خاموش ہے اور اسرائیلی مظالم پر کچھ نہیں کہتی ۔فلسطینیوں کا ڈر اور خوف بے بنیاد نہیں ہے ۔21 اگست 1969 کے دن ایک آسٹریلوی شہری مائیکل روحان مسجد اقصی میں داخل ہوا تھا ،اس نے مسجد اقصی میں داخل ہوتے ہی مسجد میں آگ لگادی تھی ۔اس کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینوں کے درمیان خونی کھیل شروع ہو گیا تھا ،اس زمانے میں اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا ۔او آئی سی کی بنیاد بھی اسی واقعے کے بعد رکھی گئی تھی ،مائیکل روحان پر عدالت میں کیس چلا ،عدالت نے مائیکل روحان کو زہنی مریض اور پاگل قرار دیتے ہوئے جیل بند کردیا تھا ،پانچ سال بعد 1974 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مائیکل روحان کو آسٹریلیا بھیج دیا گیا ۔مائیکل روحان آسٹریلوی شہری اور ایک عیسائی تھا ۔اس نے آسٹریلیا پہنچتے ہی میڈیا کو بتایا کہ وہ کوئی پاگل یا زہنی مریض نہیں تھا ،اس نے مسجد اقصی میں جان بوجھ کر آگ لگائی تھی ،اس کی وجہ مائیکل نے یہ بتائی کہ اس نے اس لئے آگ لگائی تاکہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر مکمل ہو ،اس طرح حضرت عیسیؑ کی دوسری آمد ہو گی ،عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جس دن ہیکل سلیمانی کی تعمیر مکمل ہوگی ،عیسی ؑ اس زمین پر دوبارہ آئیں گے اور دنیا کو امن و آشتی اور عیسائیت کا پیغام دیں گے اور پھر دنیا میں عیسائیت کا ایک بار پھر بول بالا ہو گا ۔یروشلم اس لئے خوف ناک مذہبی مسئلہ ہے ۔۔۔اب مذہبی ایشوز کو اچھال کر اسرائیل کی حکومت اپنے شہریوں سے ووٹ لیتی ہے ،بلکل ایسے جیسے بھارت میں مودی ہندو انتہا پسندوں کو شہہ دے کر ووٹ لیتا ہے ۔عیسائیوں ،یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے مذہبی مسئلہ بناکر سیاست رچائی جاتی ہے ۔اس سیاست کی وجہ سے یروشلم میں ہزاروں انسان مر گئے ہیں ،لیکن حکومتوں اور حکمرانوں کو کیا پرواہ ان کی شہنشاہیت اور حکومت قائم ہے ،خون تو ان کا بہہ رہا ہے جو مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔اسی طرح 28 اپریل سن 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم شیرون نے سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ مسجد اقصی میں گھسنے کی کوشش کی تھی ،جس پر فلسطینیوں نے مزاحمت کی ،شیرون کو بچانے کے لئے اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کردی جس سے سات فلسطینی چل بسے ۔پھر کیا تھا یروشلم میں خونی جنگ شروع ہو گئی ،اسرائیلی فوج نے رملہ کا محاصرہ کر لیا ،رملہ پر میزائلوں اور ٹینکس سے حملے کئے گئے جس سے بیس فلسطینی چل بسے تھے ۔۔اسی عرصے کے دوران فلسطینی رہنما یاسر عرفات کا بھی انتقال ہو گیا تھا ۔شیرون نے اسی زمانے میں بیان دیا تھا کہ وہ تمام فلسطینوں کو قتل کردیں گے ،اس کے بعد پورے مشرق وسطی میں آگ لگ گئی تھی ۔جو عرصے تک جاری رہی ۔یروشلم کی سرزمین پر مسلمان مررہے ہیں ،یہودی مررہے ہیں ،عیسائی مررہے ہیں ،عقائد کا خطرناک کھیل جاری ہے ،حکمرانوں کو اپنی حکومت کی پڑی ہے ،اس لئے وہ ان عقائد کو سیاسی نعرے بازی کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔سعودی عرب کو یروشلم میں امن کی کیا پرواہ۔اس کے لئے تو قطر ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ،بلکہ صرف سعودی عرب نہیں یو ائے ای ،بحرین ،مصر وغیرہ سب کے لئے بڑا مسئلہ قطر ہے ،یروشلم میں انسان مرتے رہیں ،انہیں کیا فکر ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔