جو بھی بچوں کے ساتھ کوئی گیم کھیلے، اسے جلد ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ جیت ان کے لئے کتنی اہم ہے۔ زیادہ تر بچوں کے لئے (اور کئی بڑوں کے لئے بھی) یہ مسئلہ اس گیم سے بڑھ کر ہے۔ جیتنا ایک خواہش نہیں رہتی، ایک ضرورت بن جاتی ہے۔ جیت سے فخر کا جذبہ آتا ہے اور ہار سے شرمندگی کا۔ ان جذبات کی ان کی زندگی میں اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر چھوٹے لڑکوں میں۔
کھیل کھیلتے وقت یہ بچے اپنی فتح اور ہماری شکست میں بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ جیت کے لئے یہ چیٹنگ بھی کر لیں گے۔ رولز بدل دیں گے تا کہ ان کو فائدہ ہو سکے۔ اور پھر یہ صرف جیت پر ہی اکتفا نہیں کریں گے۔ اس کے بعد نعرے لگائیں گے، شیخی بھگاریں گے اور ہارنے والے پر فقرے کسیں گے اور اگر ہار جائیں تو گیم الٹ دیں گے، دوبارہ سے کھیلنے کا شور مچائیں گے یا پھر کھیلنے سے ہی انکار کر دیں گے۔
بچے ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ بچے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اپنی جیت کی فیلنگ، اپنی جسمانی یا ذہنی برتری، دوسروں سے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنا انہیں اپنی انا کے لئے ضروری لگتا ہے۔ بچوں کو یہ یقین چاہیۓ کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ان کا تخیل ہے۔
پری سکول کے بچوں پر سوزن ہارٹر نے ایک دلچسپ سٹڈی کی۔ ہر بچہ اپنے آپ کو باقیوں کے مقابلے میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں میں بہتر سمجھتا تھا۔ ان میں سے آدھے بچوں کا خیال یہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ کے بچوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تیز بھاگتا ہے۔
اگرچہ خود اعتمادی ارادے کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ زندگی میں مایوسیوں اور فریسٹریشن کی جڑ ہے۔ شکست تسلیم کر سکنے کی اہلیت کا فقدان سیکھنے میں اور زندگی میں آگے بڑھنے میں مشکلات پیدا کرتا ہے اور جیتے پر شیخی بگھارنے اور طعنے کسنے کی کوالٹی سے باہمی اعتماد اور مل کر کام کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی ہے۔
ہم یہ کیسے بدل سکتے ہیں؟ کئی والدین کا خیال ہے کہ سمجھانے سے یا ڈسپلن کو نافذ کرنے سے یہ میچورٹی آ جائے گی لیکن تجربہ کچھ اور بتاتا ہے۔ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔
جب بچوں کے ساتھ آپ خود کوئی مقابلہ کریں یا ان کے ساتھ مل کر کوئی مقابلہ دیکھیں تو اس دوران مایوسی، خوشی، فریسٹریشن، بے چینی کے لمحات آئیں گے۔ اس دوران آپ کا طرزِ عمل وہ چھوٹی سی کھڑکی اور موقع ہے جس سے آپ کے بچے کا کیریکٹر بنے گا۔ بچہ اس دوران جو سیکھے گا، وہ کسی بھی لیکچر سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
اسی طرح ہم بچوں کے ساتھ کچھ کھیلتے ہوئے ان کو جیتے دیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسا نہ کریں۔ نہ صرف جیت ہمیں سکھاتی ہے بلکہ ہار بھی۔ ان کے ساتھ کھیلیں اور جوش سے کھیلیں۔ جیت اور پھر ہار اور پھر جیت۔ یہ ان کے لئے زندگی کا سبق ہو گا۔ ورنہ اگر جیت سب کچھ ہے تو چیٹنگ کرنا ٹھیک ہے۔
اگر آپ نے چھوٹی عمر میں بچوں کو مقابلے کے ذریعے ٹیم ورک، کو آپریشن، کمنٹمنٹ، مخالف کی عزت اور سب سے بڑھ کر رولز میں رہ کر کھیلنا سکھا دیا تو یہ ان کے کردار کے لئے اہم سبق ہو گا۔ یہ صرف عملی طور پر کر کے دکھانے سے ہی سمجھایا جا سکتا ہے۔
یہ کینتھ بیرش کے آرٹیکل کا ترجمہ ہے جو نفسیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اصل آرٹیکل یہاں سے