جیت امن اور محبت کی ہوگی۔
سردار چرن جیت سنگھ کی تعزیت کرنے ان کے گھر جانے کا سوچ رہا تھا لیکن ہمت نہیں ہورہی تھی۔ ابھی ایک شاپنگ پلازے میں جہاں اکثر ہمارے سکھ بھائی گھومنے اتے ہیں اور میں ان سے ملتا رہتا ہوں۔ اج جب انہیں میں نے ہنستے مسکراتے گھومتے دیکھا تو دل نے کہا چلو ان سے تو تعزیت کرسکتے ہو۔ میں نے اپنے چھوٹے پیارے سکھ بھائیوں سے چرن جیت سنگھ کے بارے میں تعزیت کی۔ اور انکے بیہمانہ قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ میں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ ائے دن کوئی نہ کوئی مسلمان مار دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی زیادہ دکھ اپ کا ہوتا کیونکہ اپ ہمیں زیادہ عزیز ہیں۔ کیونکہ اقلیت کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتا ہے اور اپ ہمارے معاشرے کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں۔ یہ سن کر داڑھی والے سکھ بھائی جو ان سب میں بڑا تھا۔۔ اس نے کہا بس بھائی جہاں موت لکھی ہو وہاں تو موت اکر رہیگی۔
یہ سن کر میں حیران ہوا کہ کوئی گلہ شکوہ نہیں اور اتنا بلند حوصلہ دکھایا۔
مجھے سکھ بھائی اس لیے بھی زیادہ اچھے لگتے ہیں کیونکہ پشاور میں آباد پٹھان ہندو، عیسائیوں کی مادری زبان ہندکو اردو ہے لیکن سکھ واحد اقلیت ہے جنکی مادری زبان خالص پشتو ہے۔ پشاوری پٹھان ہندو، اور عیسائی زیادہ تر پینٹ شرٹ پہنتے ہیں لیکن پشاوری پٹھان سکھ سارے کے سارے شلوار قمیص پہنتے ہیں۔ اور ویسے بھی پٹھانوں اور سکھوں کی عادتیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ پشاور میں سکھوں کی آبادی ایک ہزار خاندانوں سے تجاوز کرچکی ہے۔ 90 فیصد پشاوری سکھ تجارت سے وابستہ ہیں۔ اس لیے اقلیتوں میں یہاں سکھ سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہونگا کہ یہاں عام مسلمانوں سے بھی زیادہ خوشحال ہمارے سکھ بھائی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے سکھ بھائی فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔