مختار صدیقی عمدہ شاعر تھے۔ مختلف علوم میں درک رکھتے تھے۔ موسیقی سے بھی گہرا شغف تھا۔ ان کی پہلودار علمی شخصیت کا ایک حوالہ ترجمہ نگاری ہے۔ چینی مصنف ڈاکٹر لین یو تانگ کی کتاب The Importance Of Living کا ترجمہ انھوں نے ’’ جینے کی اہمیت ‘‘ کے نام سے کیا۔ اس کتاب نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ، ایک اہم نام ممتاز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ہے جن کا کہنا ہے کہ اس کتاب نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ ٹی ایس ایلیٹ کے مضمون “Tradition and the Individual Talent” اور ڈی ایچ لارنس کے ناول ’’ کپتان کا گڈا ‘‘ پر ایف۔آر۔ لیوس کے مضمون کا ترجمہ بھی ان کے قلم سے ہے۔ مختار صدیقی نے اور بھی ترجمے کیے لیکن ہم نے بات کرنی ہے ممتاز فرانسیسی مصنف آندرے موروا (1885-1967 )کی کتاب The Art of Living کے ترجمے کی جو ’’ جینے کا قرینہ ‘‘ کے نام سے 1955 میں سامنے آیا۔ مکتبہ جدید لاہور نے شائع کیا۔ ترجمے کے عمدہ ہونے میں کلام نہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے قاری کہیں الجھن میں نہیں پڑتا۔ کتاب میں جن مصنفین کا نام آیا ہے، ان کے بارے میں مترجم کے تعارفی نوٹ بھی ہیں۔ مختار صدیقی نے کئی جگہ کسی نکتے کی صراحت کے لیے اردو فارسی شعر بھی فٹ نوٹ کے طور پر دیے ہیں۔ کتاب میں محبت ، شادی، گرہست ، دوستی ، غورو فکر ، کام ، قیادت، بڑھاپا، مسرت ، ان معاملات کے بارے میں بحث ہے، بیچ بیچ میں موضوع کی مناسبت سے نامور لوگوں کے اقوال بھی ہیں ۔
’’ جینے کا قرینہ‘‘ کے مندرجات سدا بہار ہیں، اس لیے اشاعت کو 80 برس ہونے پر بھی کتاب کا مواد ہمارے حسب حال ہے۔ اس قدر حکیمانہ باتیں ایک کتاب میں کم ہی پڑھنے کو ملیں گی۔ ہم اپنی بات مسرت سے شروع کرتے ہیں، جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جدید انسان کے بھونڈے رکھ رکھائو کو قرار دیا گیا ہے۔ مصنف کی دانست میں سیدھے سادھے انسان زندگی میں زیادہ خوشیاں اس لیے کشید کرتے ہیں کہ ان کی خواہشات سادہ اور سچی ہوتی ہیں جبکہ ’’ مہذب انسان کی مثال اس طوطے کی ہے جو اپنی ٹیں ٹیں کا خود ہی غلام ہو۔ اسی لیے مہذب انسان ایسی پسندو ناپسند ، ایسی محبت و نفرت اپنے آپ پر طاری کر لیتا ہے جو حقیقتاً وہ محسوس نہیں کرتا۔ ‘
آٹھ دھائیوں پہلے آندرے موروا نے جس المیہ کی طرف اشارہ کیا اسے عالمگیریت اور سفاک صارفیت نے بہت زیادہ بھیانک بنا دیا ہے، تشیہرکاری کا عذاب الگ ہے جس نے ہم سے چیزوں کے انتخاب کاحق چھین لیا ہے۔ اس ماحول میں ریا کاری کو فروغ ملا جس سے خوشی ملتی ہے نہ طبع مضطر سنبھلتی ہے۔ مادی آسائشوں کو جو مقصدِ زندگی بنالے اس کے لیے یہ تصور محال ہے کہ اچھی کتاب ، فلم، شعر ، کھلے ہوئے پھول، سہانے موسم، بچے کی کلکاری ، باوفا رفیقوں کی سنگت ، ان سب چیزوں سے بھی سچی خوشی مل سکتی ہے، اس لیے وہ اپنی دھونس جھوٹی شان وشوکت کی بنا پر جمانا چاہتا ہے۔ وہ کبھی ممتاز فلسفی رسل کے اس مالی جیسا نہیں ہو سکتا جس کا ذکر آندرے موروا نے کیا ہے ۔
’’ برٹرنڈ رسل نے لکھا ہے کہ میں جب اپنے دوستوں کی کتابیں پڑھتا ہوں یا ان کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں مسرت ناممکن ہے۔ اس کے برعکس ، میں کبھی اپنے مالی سے بات کرتا ہوں تو میرا خیال غلط ثابت ہوتا ہے۔ یہ مالی اپنے پھلوں پھولوں اور سبزیوں ترکاریوں کا خیال رکھتا ہے۔ اسے اپنا کام آتا ہے، اسے اپنے باغ کے ذرے ذرے سے واقفیت ہے، اسے معلوم ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کی فصل اب کے عمدہ ہوگی۔ اور اسے اس پر فخر بھی ہے !‘‘
اس کتاب میں مطالعہ سے متعلق باب ذاتی طور پر مجھے سب سے پسند ہے۔ موروا کا کہنا ہے کہ جس طرح جوانی میں آدمی دوست ڈھونڈتا ہے، اسی سپرٹ کے ساتھ کتابوں کی کھوج میں رہنا چاہیے اور جب اچھے دوست مل جائیں تو بس پھر عمر بھر کا پیمانِ وفا باندھ لیں۔ اس کے خیال میں عظیم ادیبوں کا عمیق مطالعہ زندگی بھر کے لیے کفایت کرسکتا ہے۔ وہ ادب کے شاہکار پڑھنے پر زیادہ اصرار کرتا ہے، یعنی وہ ادب جو وقت کی کسوٹی پر پورا اتر چکا ہو۔ وہ زمانۂ حال کے ادیبوں کی تحریروں سے اعتنا کرنے سے روکتا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہے کہ کلاسیک اتنے زیادہ ہیں کہ پہلے انھیں پڑھنا چاہیے۔
موروا کہتا ہے کہ مطالعے کا رسیا کتابیں پڑھنے کے لیے وقت چراتا ہے۔ ریل کا لمبا سفر وہ خوشی خوشی کرتا ہے کہ اسے بالزاک اور ستاں دال کے ضخیم ناول پڑھنے کا موقع ملے گا ۔ اس کے نزدیک بڑھاپے میں آئیڈیل زندگی یہ ہے کہ شہر کے ہنگاموں سے دور کھلی فضا میں رہا جائے اور پسندیدہ کتابیں بار بار پڑھ کر ان پر حاشیے لکھے جائیں۔
مطالعہ کے لیے وہ ارتکاز کی اہمیت پرزور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کتاب کا کوئی صفحہ کھولااور پڑھ لیا، پھر لگے فون سننے۔ موروا اس زمانے کی بات کر رہا ہے جب ٹیلی فون تھا یا پھر ریڈیو، اب تو ٹی وی، موبائل، واٹس ایپ، ای میل، سکائپ اور نہ جانے کیا کچھ ہے جن کے اثرات سے شاید ہی کوئی محفوظ ہو۔ آندرے موروا قاری کے ارتکاز کی بات کرتا ہے، ادھر عربی کے ممتاز عالم اور نامور اردو شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی اسے قلم کارکے واسطے بھی ناگزیر قرار دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ارتکاز کے بغیر بڑا انسانی ذہن جنم نہیں لیتا۔ وہ عدم ارتکازکو ذہنی صحت اور تخلیقی عمل کے لیے زہرِ قاتل قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ اگر ہمیں غالب و اقبال جیسی تناور شخصیات درکار ہیں تو ہمیں ارتکاز وتسلسل کا خون کرنے والے اس نظام کے خلاف مزاحمت کرناہوگی ورنہ ہمیں صرف گملوں میں لگے ہوئے بونے برگد ہی ملیں گے جنھیں بس کھڑکیوں میں سجایا جاسکتا ہے ۔ ان کی چھائوں میں بیٹھا نہیں جاسکتا۔‘‘
موروا کے خیال میں لیڈروں کو زیادہ بولنے سے پرہیزکرنا چاہیے۔ وہ جنرل ڈیگال کے قول کا حوالہ دیتا ہے : ’’اختیار کی سب سے بڑی پشت پناہ خاموشی ہے ، گفتار خیالات کو کمزور کرتی ہے اور اس سے ہمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ ‘‘اس فرمودے پر موروا یوں تبصرہ کرتا ہے:’’ گویا گفتار اس محویت اور اس تفکر کو گھن لگا دیتی ہے جو قائد کے لیے ضروری ہے۔‘‘ وہ بتاتا ہے کہ نپولین سے زیادہ کم گو اور کم آمیز کوئی شخص نہیں تھا۔
انسانی تعلقات کے ضمن میں اس کا نقطہ نظر ہے کہ دوسرے آپ سے نہ اکتائیں، اس کا یہ نسخہ ہے کہ وہ جیسے ہیں انھیں اسی طرح رہنے دیں۔ اس کی رائے میں بناوٹ سے دل کشی میں کمی آتی ہے۔اس کے بقول ’’ عقلمند چاہنے والوں کا ہمیشہ یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ اپنے رفیق محبت کی فطری صلاحیتوں کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی بیویوں یا محبوبائوں کو اپنے سانچے میں ڈالنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اور ان پر ، اپنا مذاق ، اپنے خیالات ٹھونسنا چاہتے ہیں ، یہ سخت نادانی ہے ۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر کوئی عورت ہمارے نصب العین سے بہت زیادہ مختلف ہے تو اسے چاہا کیوں جائے ؟اور اگر ہم نے اسے منتخب کر ہی لیا ہے تو ہمیں اس کی صلاحیتوں کی قدرتی نشو ونما میں سنگ راہ نہیں بننا چاہیے۔ دوستی کی طرح محبت کا بھی یہی حال ہے ، ہم صرف انھی لوگوں سے مل کر خوش ہوتے ہیں جن کے سامنے ہم پر کوئی گبھراہٹ کوئی پریشانی طاری نہ ہو جن کے سامنے ، ہم کسی بناوٹ کےبغیر ’’ہم‘‘رہ سکیں۔‘‘
محبت کے دائمی ہونے سے متعلق اس نے ایک ہسپانوی کسان خاتون کی مثال دی ہے جس نے اسے بتایا :
’’مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ سچ ہے میری زندگی میں تکلیفیں آئیں۔ بیس برس کی عمر میں مجھے ایک نوجوان سے محبت ہوگئی۔وہ بھی مجھے چاہتا تھا ، اور ہم نے شادی کرلی ۔ چند ہفتوں میں اس کا انتقال ہوگیا، لیکن میں سمجھتی ہوں مجھے اپنے حصے کی مسرتیں مل چکی تھیں چنانچہ میں نے زندگی کے پچاس برس اسی کی یاد میں گزار دیےہیں۔‘‘
کام کے بارے میں کتاب میں بڑی پتے کی باتیں ہیں۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ کام بڑا ہو تو اسے حصوں میں بانٹ لیں۔ اس سے ہر حصے پر توجہ مرکوز ہوگی اور دوسرے حصوں سے بے نیاز ہوکر کام یکسوئی سے ہوسکے گا۔وہ کہتا ہے کہ کسی ملک کی تاریخ لکھنا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن اسے مختلف ادوار میں تقسیم کرلیں اور اس حصے سے آغاز کریں جس کی بابت آپ کی معلومات سب سے زیادہ ہیں، اس طرح اپنی پیش رفت بڑھاتے جائیں۔ اس نے لکھا کہ مصروفیت کا شکوہ کرنے والے کبھی خود سے پوچھیں کہ کیا وہ دن میں سات آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں؟اگر وہ اتنی دیر کام کرلیں تو زندگی میں بہت سا کام کرلیں گے۔
مختار مسعود نے’’ آواز دوست ‘‘ میں ممتاز تاریخ دان ٹائن بی کے بارے میں بتایا ہے کہ اس نے دنیاوی کاموں میں انتہائی مصروف رہنے والوں کے علمی کاموں کا ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کی فہرست میں شامل کئی ناموں سے واقف نہیں اور ان کے بارے میں فقط اتنا جانتے ہیں کہ ’’ وہ بھر پور عملی زندگی بسر کرنے کے باوجود بھاری بھرکم علمی کام بھی کر گئے ہیں۔ کم فرصتی کا رونا رونے والوں کے لیے اس فہرست سے بڑھ کر کوئی اور تازیانہ کیا ہوگا۔‘‘
موروا وقت برباد کرنے والوں سے دور رہنے پر زور دیتا ہے، اس کے خیال میں یہ لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں ، ان سے وہ کسی رو رعایت کا قائل نہیں، ایسوں سے حسن سلوک کو وہ خود سے دشمنی قرار دیتا ہے۔ وہ گوئٹے کی مثال دیتا ہے جسے بلا اطلاع منہ اٹھائے چلے آنے والے ایک آنکھ نہ بھاتے ۔ ہمارے یہاں عربی کے عالم اوراردو کے ادیب محمد کاظم نےسرکاری ملازمت کی مصروفیت کے باوجود بہت سا علمی کام کیا، جس کی وجہ کام کرنے سے متعلق ان کا ڈسپلن تھا، ڈاکٹر خورشید رضوی نے لکھا ہے ’’ لوگوں کے بیشتر مطالبات کے جواب میں ان کے پاس ایک مختصر مگر مضبوط لفظ تھا ’’ نہیں ‘‘ جسے وہ عربی تعبیر کے مطابق ’’لا المریحۃ ‘‘ کہا کرتے تھے ، یعنی ’’ ایک نا، سو سکھ۔‘‘
کتاب میں بتایا گیاہے کہ نامور فلسفی ڈیکارٹ سچائی تک پہنچنے کے لیے عجلت اور تعصب سے احتراز پر زور دیتا ہے۔ یہ بات پڑھ کر پاکستانی معاشرہ کا خیال آتا ہے جہاں عجلت اور تعصب عام ہے۔ہر آدمی لگتا ہے جلدی میں ہے، سڑک پر گاڑی چلانے والے سے لے کر،کسی پیشہ میں مقام حاصل کے لیے خواہاں تک ، سب جلد از جلد منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ تعجیل کی ایک وجہ موروا لوگوں میں خود پسندی کو قرار دیتا ہے، جن کے لیے یہ کہنا شرمندگی کا باعث ہے کہ وہ فلاں چیز سے متعلق نہیں جانتے، اور ان کے لیے یہ کہنا کہ وہ تحقیق کے بعد ہی کچھ بتا سکیں گے، نری بے عزتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے لوگ کسی معاملے سے نابلد ہونے کے باوجود اپنی رائے وثوق سے دیتے ہیں۔ وہ عام گفتگو کا معیار اونچا اور اس کی اہمیت بڑھانے کے لیے چار لفظی اس جملے کا استعمال ضروری سمجھتا ہے ’’ بھئی مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘یا پھر وہ شاہ لوئی چہار دہم کا یہ جملہ کہ ’’ اچھا دیکھوں گا‘‘کو کارآمد جانتا ہے۔ یہ پڑھ کر ہمیں ممتاز فکشن نگار اسد محمد خان کا ایک مضمون یاد آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ جون ایلیا نے ان سے کہا کہ لفظ یقین احتیاط سے برتا کرو،اور لفظ شاید کو کثرت سے استعمال کیا کرو ۔ جون ایلیا کہتے’’ بھائی سن! یہ لفظ شاید جو ہے ، یہ ایک مہذب لفظ ہے۔ اس میں یقین کی دھونس دھڑی اور تلنگا پن نہیں ہوتا ۔ اشتباہ کا انکسار اور بھلمنسی ہوتی ہے۔‘‘
عجلت کے بعد تعصب کی بات آتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے یہاں بھی پاکستانی معاشرے کا ذکر ہو رہا ہے۔
’’ عجلت ہی ہماری غلطیوں کی واحد وجہ نہیں۔ ایک وجہ تعصب بھی ہے، ہم بندھی ٹکی رائے کے ساتھ معاملات پر غور کرتے ہیں۔ اور یہ رائے خاندان اور سماج کی تشکیل کردہ ہوتی ہے۔ ہماری افتاد طبع ، ہماری میراث اور ہماری تعلیم پہلے سے ہمارے خیالات کو ایک خاص شکل دے چکی ہوتی ہے۔ سماج کا فرد کی رائے پر کتنا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ آپ سماج کے خیالات کے مطابق مختلف لیڈروں اور پبلک شخصیتوں سے کبھی نفرت کرتے ہیں، کبھی انھیں اچھا سمجھنے لگتے ہیں ۔ اس ساری نفرت اور رغبت کی بنیاد محض اخباری مضامین پر ہوتی ہے۔ اور آپ کی یہ نفرت اور رغبت نیک نیتی پر ضرور مبنی ہوتی ہے، مگر عقل پر مبنی نہیں ہوتی۔‘‘
موروا کا کہنا ہے کہ مال ودولت کی ہوس یا کامیابی کی حرص ہمیشہ انسانوں کو ناشاد رکھتی ہے کیونکہ اس وجہ سے انسان کو دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ اس کے مطابق ، عہدوں کا جویا بہت غیر محفوظ ہوتا ہے، اسے ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اس کا کوئی عمل کسی کو ناراض نہ کردے۔اس کی دانست میں لالچ اور جاہ طلبی کی وجہ سے ہم اپنے بھائی بندوں سے جھگڑتے ہیں۔ وہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ حادثات جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے ان کے اندیشے میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی موجود و میسر کے چھن جانے کا خوف ہونا چاہیے۔
مصنف کےنزدیک، بڑھاپے کی سب سے بڑی لعنت تنہائی اور اکیلا پن ہے۔بڑھاپے میں بہترین ساتھی کون ہوسکتے ہیں ،اس بابت وہ کہتا ہے ’’ عظیم ادبا، انسان کے لافانی رفیق ہوتے ہیں، جن کی رفاقت ہماری پیری کو اسی طرح منور کرسکتی ہے جس طرح انھوں نے ہمیں کمسنی کے ایام میں مسحور کیا تھا ۔ اس طرح موسیقی بھی یار وفادار ثابت ہوتی ہے جن لوگوں کا انسان سے اعتماد اٹھ گیا ہو، موسیقی انھیں بھی اپنی طلسماتی دنیا میں پناہ دیتی ہے۔ ‘‘
آخر میں کتاب میں شامل دو اقوال :
’’ ٹھیک کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ٹھیک طریقے پر سوچیں‘‘
’’ جو کوئی تمنا کرتا ہے لیکن عمل سے عاری رہتا ہے ، وہ خرابی پھیلاتا ہے! ‘‘
Mehmood Ul Hassan