تعارف و تبصرہ … ممتاز شیخ
ڈاکٹر اختر شمار کی صوفیانہ تحریروں پر مبنی کتاب"جی بسم اللہ" پر ایک طائرانہ نظر
صوفی منش اور درویش صفت ڈاکٹر اختر شمار ملک کے ان چنیدہ اہل علم و فضل میں شمار کیے جاتے ھیں جو استاد ھونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرزواسلوب ادیب اور شاعر بھی ھیں جو کالم نویسی میں بھی مکمل دسترس اور استاد کا درجہ رکھتے ھیں – شعر ان کی زندگی کا لازمہ ھے -وہ اپنی ان تمام خوبیوں کے علاوہ اک روحانی مرتبے پر بھی فایز ھیں -شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ھو کہ وہ دنیاوی رنگینیوں اورہمہ ہمی سے قدرے دور اور مظاہر فطرت سے قریب تر ھیں-وہ دنیاوی سودوزیاں سے ھٹ کر ایک الگ دنیا بسایے بیٹھے ھیں ، ان کی نئی کتاب "جی بسم اللہ " ان کی ایسی ھی صوفیانہ طبعٓ خاص کی غماز ھے وہ اس وقت ایسے مقام پر فایز ھیں جہاں انسان روحانی اور ابدی حقیقتوں کی تلاش اور اس کے حصول کے لیے سرگرداں رہتا ہے -ڈاکٹر اختر شمار کی کتاب جی بسم اللہ " میں جو معرفت اور درویشی نظر آتی ھے وہ ڈاکٹر اختر شمار کا آنکھ سے اوجھل اللہ والوں کوایک طویل تلاش بسیار اورمجتھدانہ لگن کے بعد پا لینا اور ان کی صحبت سے فیض یابی اور ھمکلام ھونا ہے اور ایسے ایسے محیٓر العقول واقعات اس کتاب میں پڑھنے کو ملتے ھیں کہ آدمی دنگ رہ جایے کہ کایٓنات کا کویٓ رنگ ایسا بھی ھوتا ہے کہ جس کا زرا سا حصول بھی ممکن ھو تو بھت ساری روحانی ،لا شعوری الجھنیں اور کلفتیں دور ھو جایین-ڈاکٹر اختر شمار کے قادر الکلام اور وسیع العلم ھونے میں تو کوی شک ہے ہی نھیں مگر مجھے " جی بسم اللہ " کے مطالعے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ جس دنیا میں وہ ھمیں لے آیے ھیں یہ وہ تو نھیں جس میں ھم رہ رھے ھیں یہی تو وہ دنیا ہے جو اہلِ احساس و دلاں کو مطلوب و مقصود ہو سکتی ھے- انھوں نے جس غیر محسوس اور دلنشین اسلوب میں اس مادی اور حرص و ھوس سے اٹی ہویٓ زندگی کو اللہ والوں سے بار بار ملاقاتوں کے تجربے اور نچوڑ کی روشنی میں قائرین کے لیے جو نقشہ کھینچا ہے وہ مجھ جیسے عام قاری کو حقیقی معنوں میں مقنا طیسی کشش کے عمل کے تحت اپنی طرف بہا لے جاتا ہےاور اس وقت تک ساتھ نھیں چھوڑتا جب تک کتاب کا اختتام نھیں ھو جاتا-اس میں ایک کھلا پیغام بجز اس کے کچھ اور نھیں کہ درویش اور صوفی کی ایک الگ دنیا ہے جو تزکیہٓ نفس سے عبارت ہے-درویشی کوی پیشہ نھیں بلکہ یہ تو پیشوں کو برگزیدہ اور روح کی میل کچیل نکالنے کی بنیاد ہے-" جی بسم اللہ " میرے نقطہٓ نظر کے مطابق ڈاکٹر اختر شمار کی شاہکار اور دل چھو لینے والی تحریروں کا مجموعہ ہےجو دریوشوں اور صوفیا کے حوالے سے حال درون و بروں کے تحت مکمل یکجائی کے ساتھ سچایٓ کا درس دے رہا ھے اور اسی طرف متوجہ کر رھا ھے جو انسان کی بنیادی ضرورت ہے-" جی بسم اللہ " کے مطالعہ سے اخلاقی،جسمانی،روحانی اور قلبی و بدنی بیماریوں کی وجہ تخلیق کا بھی بخوبی اندازہ ھو سکتا ہے- کم از کم دو دہایوں سے ڈاکٹر صاحب سے شناسایٓ ہے مگر تعلق خاطر کا آغاز اس وقت ھوا جب اولڈ راوینز کا ادبی جریدہ "لوح" منظر عام پر آنے کو تھا میں نے ان کی تصانیف کا مطالعہ شروع کیا تو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی تہ در تہ گرہیں کھلتی چلی گیں مگر مکمل اختر شمار اس وقت میرے سامنے منکشف ہوا جب میں نے " جی بسم اللہ" کا مطالعہ کیا اور سچ بھی یہی ھے کہ میں نے اختر شمار کو اس کتاب تک رسای کے بعد اس طرح جانا جیسے جاننے کا حق ہوتا ہے-ایک خوشبو تھی جو ساتھ ھو لی، ھمسفر ھو لی – " جی بسم اللہ " نے مجھے آکہی دی کہ صوفیا اور درویشوں کو ڈھونڈنے کے لیے طلب کی سچای او دھن کا پکا ہونا شرط اول ہے- " جی بسم اللہ " ڈاکٹر اختر شمار کی اپنے پیشے سے بے پناہ محبت کے آیینے میں اگر یوں سمجھ لیا جایےکہ جو شخس شعروادب کی محبت سے مالامال ہو تو یہ بعید اس قیاس نہیں کہ وہ خود بھی صوفی کے مرتبے پر فاییٓز ہو بلکہ مجھے حیرت ھوتی ہے کہ ھمارے مہان شاعر اور ادیب اس مرتبے پر عام طور پر فاییز کیوں نھیں ہوتے-وہ طریقت اور معرفت کی اصولی محبت میں مبتلا کیوں نھیں جسطرح اشفاق احمد یا واصف علی واصف تھے-" جی بسم اللہ" پڑھ کر مجھے خوشی اور اطمینان کا احساس ھوا کہ صوفیا کی سنگت تلاش کرنے والے ادیب اورشعرآ ابھی باقی ھیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ھے اور ڈاکٹر اختر شمار " جی بسم اللہ " کی صورت میں طریقت اور معرفت کی بکل مین لیے ہمیں سینے سے لگائے خود احتسابی پر ماہل کر رہے ہیں۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1807468782817437/