22 اکتوبر 1964ء کو ژاں پال سارتر نے ادب کا نوبل انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نےسویڈن کے اخبار کو لکھے اپنےایک خط میں اس فیصلے کی وجوہات بیان کیں:
“موجودہ صورتحال میں معروضی طور پر نوبل انعام ایک ایسے اعزاز کے طور پر سامنے آتا ہے، جو صرف مغربی لکھاریوں یا مشرقی باغیوں کے لیے مخصوص ہے۔ مثلاً یہ اعزاز نیرودا کے حصّے میں نہیں آیا، جس کا شمار جنوبی امریکہ کے عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ کبھی سنجیدگی سے لوئی آراگون پر بھی غور نہیں کیا گیا ، جو اس اعزاز کا یقیناً حقدار ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ اعزاز شولوکوف سے پہلے پاسٹرناک کو دیا گیا یا واحد روسی شاہکار جسے یہ انعام دیا گیا ،وہ روس میں شائع نہیں ہوا ،جہاں اس پر پابندی لگی۔کسی قسم کا توازن برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ الجیریا کی جنگ کے دوران جب ہم نے “قراردادِ 121″ پر دستخط کیے تو میں یہ انعام بخوشی قبول کر لیتا کیونکہ یہ اعزاز نہ صرف میرے لیے ہوتا بلکہ ان لوگوں کی آزادی کے لیے بھی ،جن کی خاطر ہم جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور مجھے یہ انعام جنگ کے خاتمے کے بعد دیا گیا۔”
(اردو ترجمہ: شوکت نواز نیازی)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...