اگزسٹینشلسٹ جان پال سارتر کے مطابق انسان انتہائی تکلیف میں جیتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ زندگی تکلیف دہ چیز ہے، بلکہ اس لیے کہ ہمیں ’’آزاد‘‘ رہنے پر مجبور کردیا گیاہے۔ ہمیں ’’اگزسٹینس‘‘ میں پھینک دیا گیا ہے۔ ہمیں پیدا ہونے کے بعد اپنے بارے میں جاننا پڑتاہے کہ ہم کیا ہیں، کون ہیں اور تب ہمیں اپنی خواہشات اور ارادے طے کرنا پڑتے ہیں۔ ہم انتخاب پر اس قدر مجبور ہیں کہ اگر ہم یہ فیصلہ بھی کرلیں کہ آئندہ ہم انتخاب نہیں کرینگے تو یہ بھی ایک انتخاب ہوگا۔ سارتر کے مطابق ہر ’انتخاب‘، ’’ایک انسان کیسا ہونا چاہیے‘‘ سے متعلق ہماری خواہش کا اظہار ہے۔ ہمارا انتخاب طے کرتاہے کہ ایک انسان کیسا ہونا چاہیے۔
ایک چاقُو کا ایسنس (جوہر)، اُس کے وجود سے پہلے بھی موجود ہے۔ ہم جب چاقُو کا نام لیتے ہیں تو ہمیں پتہ ہوتاہے کہ اس کا جوہر کیا ہے۔ ایک مخصوص شکل، جس میں ایک بلیڈ اور ایک دستی ہوتی ہے اور جو چیزوں کو کاٹتاہے چاقُو کہلاتی ہے۔ چاقُو کی شکل، ساخت، کام، مقصد وغیرہ سب ہمیں چاقُو کی غیر موجودگی میں بھی معلوم ہیں۔ یعنی یوں کہا جاسکتاہے کہ ایک چاقُو کا ایسنس (جوہر) اس کے وجود سے پہلے موجود ہوتاہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چاقُو دراصل ایک ڈیزائن ہے۔ اس ڈیزائن کا تصور ہی اس کے وجود کا باعث بنتاہے۔ لیکن سارتر کہتاہے کہ صرف انسان ہی ایسی چیز ہے جس کا کوئی ڈیزائن نہیں ہے۔ ایسا کوئی تصور نہیں ہے جسے چاقُو کی طرح ذہن میں لاکر یہ طے کیا جاسکے کہ ایک انسان کا ایسنس یہ ہے؟ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ ہم کیا چیز ہیں؟ کسی قسم کے کسی خدا نے انسان کے لیے کوئی مقصد تجویز نہیں کیا۔ فطرت (نیچر) میں کہیں کوئی ہدایت موجود نہیں ہے کہ ہمیں کس طرح جینا چاہیے۔
سارتر نے اپنے 1945 کے ایک پبلک لیکچر میں کہا تھا کہ ’’ایگزسٹینشلزم اصل میں ہیومینزم ہے‘‘۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ صرف انسانوں کے معاملے میں
’’وجود جوہر پر متقدم ہے‘‘۔
یعنی چاقُو کی طرح شئے کا جوہر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے بلکہ انسان کا وجود پہلے ہے اور اس کا جوہر بعد میں دریافت ہوتاہے۔ جبکہ ایک چاقُو کا جوہر پہلے ہے اور اُس کا وجود بعد میں ایجاد کیا جاتاہے۔
سارتر کے اگزسٹینشلزم کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ،
’’میں اپنے عمل کے ذریعے اپنے آپ کوخود پیدا کرتاہوں۔ وہ ارادے، جو اِس دنیا میں مَیں اختیار کرتاہوں میرے جوہر کا تعین کرتے ہیں جبکہ یہ دنیا کسی قسم کی طے شدہ اقدار پر ہرگز مشتمل نہیں۔ میرے عمل سے میری شخصیت وجود میں آتی ہے۔ میں جو ہوں سو میں اپنے اختیارات کے استعمال کی وجہ سے وجود میں آیا ہوں۔ ڈیکارٹ نے تو کہا تھا کہ ’’آئی تھنک سو آئی ایم‘‘۔ سارتر نے کہا تھا، ’’آئی ایم، وٹ آئی ڈُو‘‘۔ ’’میں وہ ہوں، جو میرا عمل ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پھر تکلیف کہاں اور کب پیدا ہوتی ہے؟ سارتر کے بقول میری چوائس فقط چوائس نہیں ہوتی بلکہ میری چوائس کلیۃً اس بات کا اظہار ہوتی ہے کہ میں انسانوں کو کس طرح کا دیکھنا چاہتاہوں۔ میں جیسا اپنے لیے انتخاب کرتاہوں دراصل میں یہ کہہ رہاہوتا کہ انسانوں کو اس طرح کا ہونا چاہیے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو تعمیر کرتے ہوئے، اپنے آپ کو ڈیزائن کرتے ہوئے دراصل میں انسانیت کو تعمیر کررہاہوتاہوں اور انسانیت کو ڈیزائن کررہاہوتاہوں۔ چنانچہ مجھے اس طرح سے عمل کرنا پڑتاہے جیسے ہرکوئی مجھے دیکھ رہاہے اور اُن کی نظروں سے بھاگ نکلنے کا میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...