ژاں ژینے سے سات ملاقات
مترجم: احمد سہیل
فرانسیسی ڈراما نگار، ناول نگار، سوانح نگار، فلمی لکھاری، سیاسی مزاحمت کار ژاں ژینے (Jean Gengt) 19 دسمبر 1910ء کو پیرس (فرانس) میں پیدا ہوئے۔ وہ ناجائز اولاد تھے۔ ان کی والدہ طوائف تھیں۔ ژاں ژینے نے ایک رضاعی گھر میں پرورش پائی۔ ان کی زندگی جرائم سے بھری پڑی ہے۔ وہ چوری، اغلام بازی اور جعل سازی کے الزام میں پابندِ سلاسل بھی رہے۔ جب ان کو فرانسیسی حکومت نے عمر قید کی سزا سنائی تو فرانسیسی ادیبوں، کاک تو، ژان پال سارتر اور ہسپانوی پابلو پکاسو کی معافی کی اپیل پر فرانس کے صدر نے ژینے کی عمر قید کو موخر کر دیا۔
1927ء سے 1929ء تک فرانسیسی فوج میں شامل ہو کر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ انھوں نے مراکش، الجزائز اور شام میں فوجی خدمات سر انجام دیں۔ وہ شمالی افریقہ میں عربوں پر سامراجی مظالم کے بڑے نقاد اور مزاحمت کار رہے ہیں۔ ان کی ہمدردیاں تاحیات عربوں کے ساتھ رہی۔ 1936ء میں وہ فرانسیسی فوج کے ’’مفرور‘‘ قرار دیے گئے۔ انھوں نے بغیر سفری دستاویزات (پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر) البانیہ، آسٹریا، بلجیم، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ، نازی جرمنی اور پولینڈ کا سفر کیا۔ انھوں نے ’’گے اور لزبن ازم‘‘ پر کھل کر لکھا ہے اور وہ ان کے پُرجوش حامی رہے۔ نفی دانش ان کی سرشت میں ہے۔ ان کی تحریروں پر چارلس یوریلیر اور مارسل پراوسٹ کا گہرا اثر ہے۔
ژاں ژینے کا یہ مصاحبہ ایک عزلی صحافی نے کیا تھا جس کا نام مجھے اب یاد نہیں رہا۔ زیرِ نظر مصاحبہ مراکش کے تفریحی شہر ’’ٹنجر‘‘ میں کیا گیا جو مختلف نشتوں پر محیط تھا جس سے ژاں ژینے کی زندگی، تخلیقی زندگی اور ادبی نظریے کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’جدید تھیٹر‘‘ میں شامل اپنے مضمون ’’لایعنی تھیٹر‘‘ نے ژاں ژینے پر جزوی باب قائم کیا ہے۔
1950ء کی دہائی میں ان کی ’’ہم جنسیت‘‘ کے سبب امریکی حکومت نے ان کو امریکہ میں دخلے پر پابندی لگا دی۔ ژاں ژینے کا تعلق آون گاردتھیٹر اور یورپ کے سفاک اور لایعنی (Absurd) تھیٹر سے ہے۔ انھوں نے چھ ناولز، چھ ڈرامے، پانچ فلمیں، چھ شعری مجموعوں کے علاوہ فن پر آٹھ اور سیاست پر پانچ مضامین لکھے ہیں۔ ژاں ژینے کا انتقال 75 سال کی عمر میں گلے کے سرطان کے سبب 15 اپریل 1986ء میں فرانس کے شہر پیرس میں ہوا۔
ژاں ژینے کی موت کے بعد ان کی یادداشتوں کا مجموعہ ’’محبت کا قیدی‘‘ (Prisioner of Love) کے نام سے شائع ہو چکا ہے، جس میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور امریکی تشدد پسند سیاہ فام تنظیم ’’بلیک پینتھر‘‘ کو سراہا گیا ہے، جو ایک دستاویزی تحری ہے۔
ژاں ژینے کا مقولہ ہے:
’’لوگوں کو جرائم کی تاریخی تشکیل دیتے ہوئے شرم آتی ہے، وہی آدمی کا سچ ہے۔‘‘
18 ستمبر 1968ء
میں کیفے سنٹرل میں گراڈ بیٹی کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک اس نے کہا۔۔۔۔۔ ’’وہ دیکھو ژاں ژینے!‘‘
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آ رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیبوں میں تھے۔ وہ پریشان پریشان سا نظر آ رہا تھا۔ وہ کیفے سینٹرل کی سیڑھیوں پر چڑ رہا تھا۔۔۔۔ میں نے گراڈ بیٹی سے کہا ’’میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ کوشش نہ کرو۔‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’دیکھو وہ ابھی اپنے کمرے (خول) میں چلا جائے گا اور تم اس سے ملاقات نہ کر سکو گے۔ میں نے گراڈ کی اس بات کو نظر انداز کر دیا۔ میرا ذہن سوچنے لگا کہ ژاں ژینے مراکشی نوجوانوں کے ساتھ کیفے ٹیریا میں ایک سا تھے بیٹھے۔
ہم کوئی ایک گھنٹے مصوروں اور ادیبوں کے ساتھ بیٹھے جو کئی برسوں سے ٹنجر میں مقیم تھے۔ سب کی نظریں ژینے پر لگی ہوئی تھیں۔ اس کا ماتھا سورج کی طرح چمک رہا تھا۔ تین بجے کے قریب اس نے گفتگو شروع کی۔ میں نے گراڈ سے کہا ’’اب غور سے سنو!‘‘
گراڈ چلایا ’’تم آپے سے باہر ہو رہے ہو۔‘‘ اس نے میری طرف دیکھا اور ایک کھسیانی ہنسی ہنسا۔ اس کی نظریں مجھے عجیب سی لگیں۔
’’آپ مسٹر ژینے ہیں نہ؟‘‘
انھوں نے بغیر حیرت کے مجھ سے سوال کیا ’’آپ کون ہیں؟‘‘
میں نے بغیر وقفے سے کہا ’’ایک مراکشی ادیب!‘‘ اس کے ہاتھ میں Nchante کا پرچہ تھا۔ ہم شنگھیز تک آ گئے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ ٹنجر آنا پسند کریں گے۔
’’کوئی وعدہ نہیں کرتا۔‘‘ ژینے نے جواب دیا۔
’’کیا آپ نہیں سوچتے کہ یہ دنیا کے خوب صورت شہروں میں سے ایک حسین شہر ہے؟‘‘
’’یقیناً نہیں، مگر بہرحال تم نے ایک آئیڈیا دیا ہے۔‘‘
’’یہ صحیح نہیں ہے۔ ایشیا میں کئی خوب صورت شہر ہیں۔ زکو چیکو اور منرل ہوٹل جانے تک کوئی بیس منٹ لگے۔ اسی دوران ژینے سے مراکشی ادیبوں اور ان کے مسائل کے علاوہ خاص طور پر طباعت کے مسئلے پر تبادلہ خیال ہوا۔ جب ہم ہوٹل کے سامنے بیٹھے تو ژاں ژینے نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’میں ہمیشہ جلدی سونے کا عادی ہوں۔ اگر تم چاہو تو دو بجے دوپہرے کے قریب مجھ سے دوبارہ ہوٹل زوکو چیکو میں ملو۔‘‘
19 ستمبر 1968ء
میں ہوٹل میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ یہاں آئیں گے کہ نہیں کہ یکایک وہ تنہا چھوٹے چھوٹے اور آہستہ آہستہ قدم لیتے ہوئے داخل ہوئے اور مجھ سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
آج وہ کل کے مقابلے میں زیادہ گرم جوشی دکھا رہے تھے۔ ہم دونوں بیٹھ گئے۔ انھوں نے منٹ (Mint) والی چائے کا آرڈر دیا اور دوسرے ہی لمحے وہ سڑک پر واپس نہ جانے کے لیے نکل آئے۔ بہت سے بچے اور نوجوان اس سیاح (ژینے) کو عجیب نظر سے دیکھ رہے تھے۔
’’میں یہ نہیں جان سکا کہ اب تک آپ کی کتاب کا ترجمہ کیوں نہیں ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تمہارا مطلب قران کی عربی میں؟‘‘
میں نے کہا ’’قرآن کی عربی کلاسیکی ہے۔‘‘
’’میں نہیں جانتا۔ کسی نے مجھ سے کبھی یہ نہیں پوچھا۔ ہو سکتا ہے یہ کبھی ممکن ہو۔ ممکن ہے نہ بھی ہو۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ میرے خیالات ان سے ملیں۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ عرب اس وقت انتہا درجے کے جذباتی ہو جاتے ہیں، جب اخلاقیات کے سوال آتے ہیں۔‘‘
میں اپنے ساتھ Le rouge et le noir کی کاپی لے گیا تھا۔ میں نے پرچے کے صفحات کو کھولا۔ کیا آپ اسے پسند کریں گے۔ پہلے میں نے اسے عربی میں پرھا ہے۔ اب میں اسے فرانسیسی میں پڑھوں گا۔‘‘
میں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جولین خاندان کی زندگی بالکل میری ذاتی زندگی کی روش کی سی ہے۔ خاص طور پر کچھ چیزیں تو باآسانی شناخت کی جا سکتی ہیں۔ مسٹر سوریل اپنے بیٹے جولین کو تین سو فرانک کے لیے شہر کے میئر کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے اور میرے باپ نے مجھے ایک چرس پینے والے کو صرف 30 پینرٹ کے عوض کرائے پر دے دیا تھا۔ یہ آدمی این کھابس کے علاقے میں کیفے چلاتا تھا۔ جب ہم ٹوٹان میں رہتے تھے۔
مجھے آپ کی مشکلات کا اندازہ ہے مگر دنیا میں صرف آپ ہی ایک نہیں ہیں۔ اس راہ میں آپ ادب کے لیے کسی جمال کو نہیں پا سکتے۔ آپ کو اس کے لیے ہر چیز پڑھنی پڑے گی اور ذہن سے زندگی کا آئیڈیا سوچنا پڑے گا یا دوسری جانب کسی ہیرو کی طرح اپنی زندگی کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ اگر تم علیحدگی میں سوچو۔ تمہاری زندگی کسی دوسرے کی زندگی نہیں ہے۔ میں باسل (Basil) کی شخصیت کے متعلق سوچتا ہوں۔۔۔۔۔ The picture of Dorain Gray میں۔۔۔۔۔ اس کتا میں وہ لارڈ ہنری سے فن اور اس کے تعلق سے ایک فن کار کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے اثرات پر مکالمہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ جولین اسے اپنے ماضی زوائیدو سے دیکھے اور مجھے میرے حال سے منسلک کر دے۔‘‘ میں نے ان سے کہا۔
’’Maintenant Je Comprends‘‘ انھوں نے کہا۔ جولین کی زندگی زبردست تھی۔ وہ اصل ہے۔ اسیٹرل اپنے زمانے کا ایک عظیم ادیب تھا۔ Meursailt اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے آپنے آپ کو رد کر دیتا ہے۔ (کامید کے ’’اجنبی‘‘ میں) جب جیل میں جیولین اسے یاد دہانی کرواتا ہے، یہ یکساں چیزیں نہیں۔ انھوں نے کہا اور انھوں نے اسیٹرل کے دور کے بارے میں بتایا جو ان کی تحریروں سے متعلق ہے۔ پھر ژینے نے کہا کہ ’’کامیو زیادہ خوش قسمت تھے کہ انھوں نے ’’اجنبی‘‘ اس دور میں لکھی جب فرانس میں فوج اور کلیسا کی ضرورت نہ تھی۔ اس کا ہیرو آج کی کتاب میں اس بات کے لیے زیادہ آزاد ہے کہ اسے رد کر دیا جائے کہ یہ شاید ہی ہو کہ وہ عورت کے عشق میں مر جائے۔ وہ اسے گولی مار سکتی ہے۔ وہ جیل میں اس کے لیے کسی قسم کی محبت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کا نام دہراتا ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ کافکا وہ پہلا ادیب ہے جس نے Refus Obscur کے متعلق لکھا تھا۔ کافکا کے ’’مقدمہ‘‘ کو لیجیے۔ وہ اس کے خلاف سنگین الزام ہے مگر وہ اس کے لیے اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہ تھا۔ جس لمحے اس کی زندگی خطرے میں تھی۔ تو وہ ایک عورت کے ساتھ کامک والا عشق کر رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے میں ان کے دوست سارتر کے متعلق پوچھا۔
’’میں نے انھیں دو سال سے نہیں دیکھا۔‘‘
ژینے نے کہا ’’میں نے ان کی خاصی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں ان سے کچھ دن بعد بات کروں گا۔ جنگ سے پہلے والا سارتر جنگ کے بعد والا سارتر نہیں رہے۔ اب وہ جرمن زنداں سے باہر آ چکے ہیں، ایک نئی کھال کے ساتھ۔‘‘
’’ہم دونوں ہوٹل سے باہر آئے۔ میں نے ژینے سے پوچھا کہ ’’کیا آپ ہسپانوی زبان جانتے ہیں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ جب میں اگست میں شکاگو گیا تھا تو میں نے ہسپانوی کے چند الفاظ سیکھے۔
’’اور انگریزی‘‘
’’میں انگریزی نہیں جانتا۔‘‘
ہم نے ہوٹل کے سامنے ایک دوسرے کو خیر باد کہا۔ کسی نئی ملاقات کا وعدہ کیے بغیر۔
21 نومبر 1968ء
میں ان سے روکو چیکو میں دوپہر کے آس پاس ملا۔ ہم دونوں نے ایک گھنٹہ گفتگو کی۔ انھوں نے مجھ سے مراکش کے نقطۂ نظر، ثقافت اور معشیعت کے متعلق سوالات کیے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا اسکول (یونیورسٹی) کے طلبا اور پروفیسر تفریح کے اوقات میں یا اسکول سے باہر آپس میں ملتے تھے۔
’’نہیں۔۔ نہ ہی مراکش میں نہ ہی فرانس میں۔ وہاں اساتزہ اور شاگردوں کے درمیاں ایک بڑا پردہ حائل ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’میں نہیں جانتا۔‘‘
وہ افسردہ لگتے تھے۔ جلد ہی ہن نے اسلام اور عیسائیات پر گفتگو شروع کر دی۔ چار الہامی کتابوں اور قرآن کی وحی۔۔۔ ذاتی طور پر میرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن میتھو، مارک، لوک اور جان سے زیادہ قابلِ اعتبار ہے۔‘‘ ژینے نے کہا۔
ہم کچھ لمحے خاموش رہے۔ پھر ہم دونوں نے نیا مکالمہ شروع کر دیا۔
’’کیا آپ نے کبھی کسی عرب ادیب کو پڑھا ہے؟‘‘ میں نے ژینے سے سوال کیا۔
’’بدقسمتی سے نہیں۔۔۔ صرف چند چیزیں اپنے دوست خطیب یٰسین کی پڑھی ہیں۔‘‘
’’یہاں تک کہ طلحہ حسین یا توقیف الحکیم کو‘‘
’’یہ کون ہیں‘‘ ژینے نے دریافت کیا۔
’’یہ دو مصری ادیب ہیں۔ ان کی کتابیں فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر توفیق الحکیم کی۔‘‘
’’میں اس بارے میں نہیں جانتا۔ کسی نہ کسی دن میں ان دونوں کو پڑھوں گا۔‘‘
25 نومبر 1969ء
ہم نے کھانے کے برتنوں سے ہاتھ کھینچا۔ ژینے کھانے سے کچھ ڈرا ڈرا سا لگ رہا تھا۔ کھانے کے بعد ژینے نے قرآن سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
اسی دوران ژینے سے سوال کیا گیا کہ آپ ’’منیزا‘‘ میں کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں، کیا آپ غریب مراقشیوں کی کمپنی چاہتے ہیں؟‘‘
ژینے نے قہقہہ لگایا ’’میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’کیوں کہ میں ’’گندا کتا‘‘ ہوں۔ میں منیزا میں ٹھہرا یا ہلٹن میں۔ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ خوش پوش لوگوں کو غلاظت میں دیکھوں۔ جیسا میں ہوں۔‘‘
میرا دوست بور یوں اب تک اپنے پاؤں کے لیے پریشان تھا۔
میں اپنے ساتھ Lachrtreuse De Parme اور La Et Le Neant کی جلد بھی لے گیا تھا۔
ژینے نے یہ چیزیں دیکھ کر کہا ’’سارتر میرے دوست ہیں مگر La Chartreuse De Parm۔۔۔۔۔L’etre: Et Le Neant سے بہتر ہے۔‘‘
’’سارتر کی کتاب بہت پیچیدہ ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
میں تین سالوں میں اس کتاب کے صرف ایک سو تیس صفحات پڑھ چکا ہوں۔ بعض دفعہ ایک جملہ پڑھ کر ایسا لگتا تھا جیسے پوری کتاب پڑھ لی ہو۔
’’پہلی دفعہ میرے ساتھ بھی مشکل ہوئی۔‘‘ ژینے نے مجھ سے کہا۔ ایک دن میں یہ کتاب سارتر کے گھر لے گیا اور ان سے کہا کہ ’’اس کتاب کا ’آپ‘ بہت مشکل ہے۔‘‘
انھوں نے میرے ہاتھ سے کتاب لی اور اس پر نوٹس اور نمبر لکھنے لگے اور مجھے پڑھنے کے لیے کتاب کے مختلف حصوں کی ترتیب بنا کر دی اور مجھ سے کہنے لگے کہ اب میرا خیال ہے کہ تم کو اب کتاب سمجھنے میں دشواری نہ ہو گی۔‘‘
انھوں نے بالکل صحیح کہا کہ انھوں نے مجھے کتاب پڑھنے کا طریقہ بتا دیا۔ اس کے بعد مجھے کتاب پڑھنے میں بالکل دشواری نہ ہوئی۔
میرے دوست نے ژینے سے پوچھا کہ ’’آپ کا خدا پر یقین ہے؟‘‘
ژینے نے قہقہہ لگایا ’’میں نہیں جانتا۔ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ یہ دنیا وجود رکھتی ہے۔ صرف بذات خود جانتا ہے کہ وہ وجود رکھتا ہے کہ نہیں۔ کیا فلسفی دوست کہتے ہیں کہ ’’خدا وجود نہیں رکھتا۔‘‘ میرے دوست نے دریافت کیا تو ژینے نے ہنستے ہوئے کہا ’’تو آپ ملحد ہیں۔‘‘
برینو نے مداخلت کی کہ یہ (میرا دوست) ایسی ہی باتیں کرتا ہے مگر وہ اس بات کو بیان نہ کر سکا کہ وہ ملحد ہے۔ وہ ایسی باتیں صرف اس وقت کرتا ہے جب اس کے ساتھ کوئی غیر ملکی ہو۔ مگر جب مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے تو یہ ابن الوقت اور بزدل ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ جانتا ہے کہ خدا وجود رکھتا ہے۔‘‘
’’اور تم۔۔۔۔‘‘ میرا دوست چلایا ’’کیا تم اپنا عقیدہ بیان کر سکتے ہو۔‘‘
’’ہاں۔ خدا وجود رکھتا ہے۔ یہ کافی ہے۔‘‘
پھر میں نے ژینے سے اپنے ذہن پر نقش ہونے والے ’’بالکنوی‘‘ سے متعلق پوچھا۔ ’’میں نے اپنی کتاب ’’بالکنوی‘‘ عربی اور فرانسیسی کی نذر کی۔‘‘ ژینے نے کہا۔
26 اکتوبر 1969ء
میں ژینے سے ’’کیفے لی منیزا‘‘ میں ملا۔ میں اپنے ساتھ ’’دی ایڈیٹ‘‘ کی ایک کاپی کے علاوہ چند عربی جریدے ’’العرب‘‘،’’مواکف‘‘ اور ’’المعارفہ‘‘ بھی لے گیا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’کیا ان رسائل میں کچھ ایسے موضوعات بھی ہیں جو غیر عرب ادیبوں سے متعلق ہیں؟‘‘ عرب ادب اس بات سے تعلق نہیں کیوں کہ یہ بذات خود ایک مسئلہ ہے لیکن یہ محض عرب جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ عربی ادب اپنی حدود کے باہر زیادہ دلچسپی نہیں لیتا ہے۔
میں نے پوچھا’’کچھ عرب نقاد آپ کو وجودی تصور کرتے ہیں اور کچھ لایعنی (Absurd) مکتبۂ فکر سے آپ کے تعلق کو بیان کرتے ہیں۔‘‘
انھوں نے میری جانب دیکھا۔ وہ چونک سے گئے ’’کس نے میرے متعلق اس قسم کی چیز لکھی ہے۔‘‘
’’کچھ عرب نقادوں نے‘‘
’’وہ غلطی پر ہیں کیوں کہ میں نہ ہی وجودی ہوں اور نہ ہی لایعنی۔۔۔۔۔ میں اس قسم کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتا۔ میں صرف ادیب ہوں۔ اچھا یا بُرا۔۔۔۔ اسی دوران ایک لڑکا ہماری میز پر آیا۔ ژینے نے گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا اور وہ میری طرف مڑے اور کہنے لگے ’’یہ میرا دوست ہے۔ میں اس سے پچھلے سال ملا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے دو آئینے ایک دوسرے سے شناسائی کا تبادلہ کر رہے ہوں لیکن دونوں نے ایک دورے سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ جب وہ لڑکے سے بات کر رہے تھے تو ژینے کی زبان سے مراکشی اور تیونسی زبان کے ملے جلے لفظ بھی نکل رہے تھے۔ لڑکے نے قہقہہ لگایا۔ ژینے نے لڑکے کے پرانے جوتوں کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’نئے جوتوں کے جوڑے کی قیمت کیا ہو گی؟‘‘
’’ہزار فرانک‘‘ لڑکا بڑبڑایا۔
’’کیا یہ کل رقم ہے؟‘‘ ژینے نے پوچھا۔ لڑکے نے سر ہلایا۔
’’انھوں نے جیب سے پندرہ ہزار فرانک نکال کر لڑکے کو دیتے ہوئے تنبیہ کی۔ اگر تم نہیں گئے اور تم نے نئے جوتے نہیں خریدے تو ہم مزید ایک دوسرے کے دوست نہ رہ سکیں گے اور جب میں تم کو دیکھوں گا تو تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
لڑکا مسکرایا اور بھاگ گیا۔
ژینے میری طرف مڑے ’’یہ ذہین لڑکا ہے۔ یہ اسکول کیوں نہیں جاتا؟‘‘
میں نے وجہ بیان کی۔ ’’میں سمجھ نہیں سکا۔‘‘ انھوں نے کہا۔
کچھ لمحوں بعد میں نے ان سے پوچھا کیا وہ سارتر کے ساتھ متفق ہیں جو انھوں نے آپ کے متعلق لکھا ہے۔
ژینے نے بغیر تامل کے جواب دیا ’’فطری بات ہے کہ میں سارتر کے ساتھ متفق ہوں۔ سارتر نے میرے پہلے سو صفحات با آواز بلند پڑھے اور پھر مجھ سے پوچھا کہ اگر میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ صحیح ہے تو میں آگے چلوں ورنہ نہیں۔‘‘
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں یا وہ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ موضوعات کو وہی سمجھائیں۔ تو انھوں نے اس بارے میں اپنی کتاب میں لکھا بالکل اسی طرح جیسے انھوں نے اپنی کتاب میں بودلیئر کے متعلق لکھا۔
’’میں متفق نہیں ہوں۔‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’اگر سارتر کو میری کتاب میں دلچسپی نہیں تھی تو ان کو مجھ پر نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اس بات کا علم تھا کہ میں مطالعہ کے بعد یہ کیا لکھ رہا ہوں اور وہ میری نجی زندگی کے حقائق کے بارے میں آگاہ ہیں کیوں کہ وہ میرے دوست ہیں۔ انھوں نے میرے متعلق اپنے علم سے آئیڈیا تشکیل دیا۔‘‘
چند لمحات بعد میں نے کہا۔ بریوں نے مجھے بتایا ہے کہ ’’کلوریل ادیب کے بیٹے‘‘ اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ وہ فرانسیسی قونصل خانے میں آپ کے لیے سرکاری ضیافت کا اہتمام کریں۔ میں اسے قبول نہیں کروں گا۔ بالکل اسی طرح جیسے جب مجھے پیرس میں کیوبا کے قونصلر نے مجھے چھٹیاں گذارنے کے لیے کیوبا میں مدعو کیا تھا۔ فیڈرل کاسترو میرے دوست ہیں مگر میں ان کی جانب سے کسی دعوت نامے کو قبول نہیں کر سکتا۔ میں صرف ایک بار سربراہِ مملکت کے ساتھ میز پر بیٹھا ہوں۔ اس کا نام پوم پی ڈو (Pomppi Dou) ہے۔ صرف اس لیے کہ انھوں نے میرے چند دوستوں کی جلاوطنی ختم کر کے انھیں فرانس آنے کی اجازت دی۔ میں تمام حکومتوں سے نفرت کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر مجھے امریکہ میں خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ اس کی وجہ میری ہم جنسیت تھی اور میرا جرائم سے بھرا ریکارڈ تھا۔ حالاں کہ نہ ہی میں امریکہ کا سابق قیدی تھا اور نہ ہی امریکہ میں ہم جنسیت کا مرتکب ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور میں روس بھی نہ جا سکا کیوں کہ ژانوف اسٹالین کے ہاتھ کے نیچے تھا اور وہاں میرے کام (تحریروں) کی اجازت نہ تھی۔ پھر انھوں نے میرے ہاتھوں سے ’’ایڈیٹ‘‘ کا عربی ترجمہ لے لیا۔
’’یہ کس نے لکھا ہے؟‘‘۔۔۔۔ انھوں نے سوال کیا اور میں نے انھیں بتا دیا ’’مجھے برادر کراموزف‘‘ زیادہ اچھی لگی۔ انھوں نے مجھ سے کہا ’’بریوں کا خیال ہے ’’ایڈیٹ‘‘ بہتر ہے۔‘‘
’’آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ژینے نے مجھ سے پوچھا۔
’’میں نے برادر کراموزف‘‘ ابھی پرھنا شروع کی ہے مگر میں ’برادر کراموزف‘ کا ہی پرستار ہوں۔
27 اکتوبر 1969ء
ہم ان کے ہوٹل میں ملے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ ٹینیسی ولیم کی سب تحریریں پڑھ چکے ہیں؟
’’میں نہیں چاہتا کہ میں سب کچھ پڑھوں۔‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘
’’میں نے ان کے متعلق سے کچھ پڑھ رکھا ہے۔ ان کے کام نے نے میری سوچوں کی رہ نمائی ضرور کی مگر یہ میری دلچسپی کا باعث نہیں بن سکی۔‘‘
’’کیا آپ انھیں ذاتی طور پر جانتے ہیں؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا۔
’’انھوں نے ایک بار مجھے پیرس فون کیا تھا۔ میں ان دنوں ٹھیک نہ تھا۔ ہم نے دوسرے دن ملاقات کا دن طے کیا مگر میں شدید بیمار تھا۔ اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔‘‘
30 اکتوبر 1969ء
ہم لوگ کیفے ڈے پیرس کے برآمدے میں بیٹھے تھے۔ میرے پاس کامیو کی کتاب La Peste تھی۔ ژینے نے پوچھا کہ ’’کیا تم کو یہ ناول پسند ہے؟‘‘
’’جی ہاں! میں اس کو دوسری بار پڑھ رہا ہوں۔ تم نے کامیو کو اس میں کیسا پایا؟‘‘
میں نے انھیں اچھا پایا۔
تھوڑے وقفے کے بعد میں نے ان سے پوچھا ’’کامیو کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟‘‘
’’وہ سانڈ (Bull) کی طرح لکھتے تھے۔‘‘ میں نے قہقہہ لگایا۔
جب وہ چلے گئے۔ میں نے انھیں کبھی پسند نہیں کیا کہ انھوں نے کیا لکھا اور نہ ہی میرا ان کی شخصیت سے کبھی کوئی ناطہ رہا اور نہ ہی میں نے ان سے یہ چاہا کہ میں ان سے کچھ حاصل کروں۔‘‘
’’تو پھر آپ ان دونوں کے درمیان ان کے مشہور مناقشہ میں سارتر کا ساتھ دے رہے ہیں؟‘‘
’’یقیناً، کامیو کے پاس خیالات سے زیادہ جذبات تھے۔‘‘ اتنے میں ایک ہیپی ہماری جانب آیا اور انگریزی میں کہنے لگا ’’میں تمہاری (ژینے) تحریروں کا بڑا پرستا رہوں۔ تم سے مل کر بڑی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔‘‘ ژینے نے میری جانب دیکھا۔ میں نے نوجوان کی گفتگو کا ترجمہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہیپی نے ژینے سے مصافحہ کیا۔ ژینے مسکرا رہے تھے۔ ژینے نے میری طرف مڑ کر کہا ’’امریکن ہیپی بہت خوب صورت ہوتے ہیں مگر ان کے والدین ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔‘‘
14 اکتوبر 1969ء
میں ژینے سے ہوٹل میں ملا۔ ان کی صحت بہتر لگ رہی تھی۔ میں نے انھیں قرآن کے فرانسیسی ترجمے کی کاپی دی۔ آپ اسے مکمل طور پر نہ سمجھ پائیں گے۔
’’میں جانتا ہوں بہت سی کمنٹری کے معنی۔‘‘ ژینے نے کہا۔ ’’پہلے مجھے عربی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑھے گا۔ تم عربی میں کتاب کا مطالعہ کرتے ہو۔ یہ یقیناً بڑی حیرت کی بات ہے۔‘‘
یہ عربی میں صرف ایک عظیم کام ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ انھوں نے میلارمے پر گفتگو شروع کر دی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ میلارمے کے اندھے پرستار ہیں۔ انھوں نے میلارمے کی چند سطریں ایک دفعہ حوالے کے طور پر لکھی تھیں۔ میں نے ژینے سے کہا کہ کیا وہ میرے لیے میلارمے کی چند سطریں لکھ کر دیں گے۔ اس وقت ہمارے پاس سارے صفحات نہ تھے۔ انھوں نے قآن کے سادہ صفحات پر لکھ دیا۔
Et Le Vide Papre Que Sa Blanchue Difend۔ وہ ان سطروں کے متعلق کوئی زیادہ پر اعتماد نہ تھے لٰہذا انھوں نے آخر میں سوالیہ نشان لگا دیا (میں نے بعد میں یہ سطریں چیک کیں تو مجھے ان سے دریافت کیا کہ فرانس میں میلارمے کے کیا معنی ہیں؟‘‘
وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولے ’’ان کا نام ان کے نام کی اہمیت کا اشارہ ہے۔۔۔۔ جنسی طور پر کمزور۔۔۔۔۔‘‘ مگر ان کے اندر ذہن بھرا ہو تھا۔
پھر میں نے ’’اسکوئر‘‘(Esqire امریکی رسالہ) کے متعلق پوچھا جس میں شکاگو میں ہونے والے ڈیموکریٹ کنونشن کی روداد تھی جو ژاں ژین نے لکھی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’وہ آدھی شائع ہو چکی ہے۔ مگر میں نے آدھی روئیدار کسی اور جریدے کو فروخت کر دی تھی۔ انھیں اس بات سے دلچسپی نہ تھی کہ اس پر میرے دستخط ہو یا نہ ہوں۔ وہ بس یہ سننا چاہتے تھے کہ میں نے امریکہ کی جمہوریت کے متعلق کیا کہا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔