کل وہ تاریخی لمحہ اچانک اردو فکشن کی گود میں چھم سے آن گرا جس کی توقع کئیوں کو نہیں تھی، شاید اس کا سبب ہم اردو والوں کا احساس کمتری تو ہے ہی لیکن سب سے بڑی وجہ اردو کے ادبی معاشرے میں بتدریج بڑھتی ہوئی میڈیوکریٹی بھی ہے۔ لہٰذا خالد جاوید کو ’جے سی بی انعام‘ ملنا جہاں بیشتر لوگوں کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوا، تووہیں دوسری طرف حاسدوں کے لیے یہ واقعہ غیر متوقع صدمہ ثابت ہوا۔ جو اردو کے مداح ہیں، اردو فکشن کے قتیل ہیں، اور جو برسوں سے اردو کو بین الاقوامی ادب کے برابر لا کھڑا کرنے کی آرزو دل میں بسائے بیٹھے ہیں، انھیں ظاہر ہے خوش ہونا ہی تھا، انھیں اپنی زبان و ادب پر فخر کرنا ہی تھا سو انھوں نے اس خوشی کا برملا اظہار اپنے اپنے طریقوں سے کیا۔ لیکن جو دوسرا طبقہ ہے اور جس کا ایک بڑا حصہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اردو کی کمائی کھا کر اسی کی تھالی میں چھید کرنے کے ہنر سے واقف ہیں، انھوں نے تیوری چڑھائی اور فرمایا، ’جناب ترجمے سے کسی فکشن کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ کیوں کر لگایا جا سکتا ہے، یہ تو مترجم کا کمال ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
مجھے قطعی کوئی حیرت نہیں ہوئی چونکہ اردو معاشرے میں ہی ایسے احمق الحمقا پائے جاسکتے ہیں جنھیں اب تک زبان اور ادب کے بنیادی رسومیات تک سے واقف نہیں ہوئے لیکن پھر بھی انھیں پروفیسر اور دانشور کہلانے کا خبط طاری ہے۔خیر، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر احمق کو اختیار ہے کہ وہ خود کو عقل کُل سمجھے ۔
ہاں تو کیا کہہ رہے تھے حضرت؟ ترجمہ پر مبنی کتاب پر حق صرف مترجم کا ہوتا ہے؟ مصنف کا اس سے کوئی تعلق نہیں؟
تب تو آپ نے اب تک جتنے غیر ملکی ادب کا مطالعہ کیا ہے وہ سب مترجم کے ہی کارنامے ٹھہرے؟ مثلاً ٹالسٹائی کی آپ بہت تعریف کرتے ہیں، چیخوف کی بھی کرتے ہیں، مارکیز سے تو آپ کی گفتگو شروع ہوتی ہے اور میلان کنڈیرا پر ختم ہوتی ہے۔ تو اے میرے عقل کُل! ذرا بتانا کہ کیا تم نے ان رائٹروں کو ان کی زبان میں پڑھا ہے یا انھیں انگریزی ترجمے کے حوالے سے جانتے ہو؟ اگر تم انگریزی حوالے سے انھیں جانتے ہو تو وہ تو مترجم کا کمال ہوا ، اس سے بھلا ٹالسٹائی، کافکا، مارکیز، چیخوف، کنڈیرا وغیرہ کی عظمت کا تمھیں کیسے ادراک ہوا؟ 😃میاں! مترجم مصنف کے ٹیکسٹ سے وابستہ ہوتا ہے جب کہ مصنف اپنی تخیل سازی اور اسے برتنے کے لیے اپنی زبان سے۔ کیا تم کہہ سکتے ہو کہ مترجم مصنف کے ٹیکسٹ سے بے نیاز ہوکر ترجمہ کرسکتا ہے؟ یا چلو ، میرے اس سوال کا جواب کم از کم دے دو کہ تمھارے نزدیک کیا ترجمہ تخلیق سے کبھی بڑا ہوسکتا ہے؟ بالفرض محال تم نے ہٹ دھرمی سے کہہ بھی دیا کہ ہاں ترجمہ تخلیق سے بڑا ہوسکتا ہے تو جواب یہ ہوا کہ ہم اسے مترجم ہی پھر کیوں کہیں، تخلیق کار کیوں نہ کہیں؟ میں جانتا ہوں تم منطقی نہیں ہو اور نہ تمھاری نیت صاف ہے۔ تمھارا مقصد کچھ اور ہے اور زبان سے کچھ اور باہر آ رہا ہے، اس لیے ضمیر اور مافی الضمیر میں فرق صاف نظر آ رہا ہے۔ تمھیں بھی پتہ ہے کہ تخلیق سے بڑا کبھی ترجمہ نہیں ہوسکتا چونکہ گالی کا ترجمہ گالی ہی ہوگا اور نعت پاک کا ترجمہ نعت پاک ہی ہوگا۔ کیا کسی اچھے سے اچھے مترجم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ پریم چند کے بیانیے کو سید محمد اشرف کے بیانیے سے بدل دے یا صدیق عالم کے بیانیے کو اشعرنجمی کے بیانیے میں منتقل کردے؟ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں کیوں کہ مترجم کو مصنف اور متن کے متعین کردہ Narrativeپر ہی چلنا پڑتا ہے، یہ اس کی مجبوری بھی ہے اور اس کی عظمت بھی۔ اس کی ماہیت کو بدلنے کا اختیار مترجم کے پاس بالکل نہیں ہے ورنہ وہ خیانت کا مرتکب کہلائے گا۔ لیکن چونکہ تمھیں خالد جاوید کو ملنے والی عزت و توقیر کو کم کرکے دیکھنا ہے تو ظاہر ہے غیر منطقی اور غیر اصول بات کرنے سے بھی تمھیں عار نہیں ہے۔
اچھا آؤ۔ اس معاملے کو دوسری طرح دیکھتے ہیں۔ کیا ’نعمت خانہ‘ کا انگریزی ترجمہ اردو کا پہلا واقعہ ہے؟ کیا خالد جاوید سے پہلے ہمارے کسی ادیب کے فکشن کا ترجمہ نہیں ہوا؟ ظاہر ہے تم اس سوال پر جز بز نہیں ہوگے۔ تمھیں یاد ہے ’آگ کا دریا‘ جسے اردو کو بڑا ناول کہا جاتا ہے، اس کا بھی انگریزی میں ترجمہ ہوا تھا لیکن اسے اس زمانے کا بہت بڑا پرائز Commonwealth Book Prizeتک نہیں ملا؟ انگریزی ترجمہ تھا بھائی، اگر کسی خراب ناول کے انگریزی ترجمے پر آج انعام مل سکتا ہے تو کل ایک بڑے ناول کے بڑے ترجمے پر کیوں نہیں ملا؟ آگے بڑھیے، نیر مسعود کا فکشن بھی تو انگریزی میں ترجمہ ہوچکا تھا، وہ کیوں غیر زبانوں کے قارئین کی توجہ حاصل نہ کرپایا؟ انتظار حسین کا ترجمہ تو مین بکر پرائز میں شارٹ لسٹ بھی ہوچکا تھا، ظاہر ہے ترجمہ ہی اچھا ہوگا لیکن افسوس اچھے ترجمے کے باوجود اسے وہ پرائز حاصل نہ ہوپایا۔ اچھا ان سب کو جانے دیجیے ، ’نعمت خانہ‘ کی مترجم باراں فاروقی کے والد اور ہم سب کے پیارے اور محترم شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ کا انگریزی ترجمہ تو انھوں نے خود ہی کیا تھا، جسے پینگوئن انڈیا نے چھاپا تھا لیکن وہ ناول جے سی بی کی لانگ لسٹ میں بھی شامل نہ ہوسکا تھا۔ وہ ناول خراب تھا یا اس کا ترجمہ؟ فیصلہ کرنا تمھارا کام ہے۔ظاہر ہے جے سی بی یا کوئی بھی انعام ادب کے معیار کا پیمانہ نہیں ہوسکتا اور نہ اس کے ملنے نہ ملنے سے کسی فن پارے کی قدر کا تعین ہوتا ہے لیکن جس طرح خالد جاوید کو ملنے والے انعام کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے پینترے بدلے جارہے ہیں اور عظمت کا تاج صرف اور صرف مترجم کے سر پر سجانے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کا مظہر ہے۔کیا اسے میں تجاہل عارفانہ سمجھوں یا بے خبری کی عظیم مثال کہ خالد جاوید کے فکشن کو اپنے زمانے کے نقادوں اور ادیبوں نے کافی سراہا ہے۔ مثلاً نعمت خانہ پر فاروقی بھی کہہ چکے ہیں جس کا ایک فقرہ تو انگریزی ایڈیشن کے سرورق پر ہی لگا ہوا ہے۔ آصف فرخی نے نہ صرف اس پر لکھا بلکہ پاکستان میں اسے اپنے ادارے شہرزاد سے چھاپا، شمیم حنفی کی رائے بھی یاد ہوگی۔ تو کیا ان تمام لوگوں نے بھی خالد جاوید کے ناول کا ترجمہ پڑھا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اوریجنل ٹیکسٹ پڑھنے کے بعد تقریباً وہی بات بلکہ کچھ زیادہ ہی ان نقادوں نے خالد کے فکشن پر کہہ چکے ہیں اور کھل کر ان کی تعریف کرچکے ہیں جو اب اس کا ترجمہ پڑھ کر دوسری زبانوں کے لوگ کررہے ہیں تو فرق کہاں ہے؟ اگر اوریجنل ٹیکسٹ گھٹیا تھا جسے بقول حاسدین ، مترجم نے خوب صورت بنا دیا تو پھر مجھے کچھ نہیں کہنا، چونکہ اس سے خالد کی کم اور مترجم کے والد کی زیادہ سبکی ہوتی ہے کہ انھیں فکشن کی سمجھ نہیں تھی، شمیم حنفی کو بھی نہیں تھی، آصف فرخی مرحوم کو بھی نہیں تھی، سید محمد اشرف تک کو بھی نہیں ہے۔کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی عقل کُل ہونے کا مدعی نہیں تھا۔ خیر، اس میں کوئی شک نہیں کہ خالد جاوید کے مشکل فکشن کا اتنا رواں ترجمہ باراں فاروقی نے بڑی لگن اور محنت سے کیا ہے، جس کی قدر نہ کرنا احسان نا شناسی ہوگی لیکن باراں کے کندھے پر بندوق رکھ کر جو لوگ خالد جاوید پر نشانہ سادھ رہے ہیں، انھیں کم از کم وہ گفتگو تو پڑھ لینی چاہیے جو باراں فاروقی نے کچھ روز پہلے خالد کے فکشن کے ترجمے کے تعلق سے کہی تھی کہ وہ کیسے بار بار خالد کو فون کرکے ہر لفظ کے معنی اور اس کے استعمال کی تہہ تک اترنے کی کوشش کرتی رہیں۔ وہ غضب کی ذمہ دار مترجم ہیں، اس لیے انھوں نے مصنف کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ مصنف کی رہنمائی میں ہی انھوں نے اس پُر خطر سفر کو مکمل کیا۔ لیکن یہ بات بھی ان احمق الحمقا کی سمجھ دانی میں نہیں سمائے گی جس میں خالد کا فکشن تک نہیں سماتا۔
اچھا، انٹرنیشنل بکر پرائز کی انعام یافتہ گیتانجلی شری بھی جے سی بی میں شارٹ لسٹ ہوئی تھیں اور ان کا انگریزی بھی ان کے ہندی ناول ’ریت سمادھی‘ کا ترجمہ ہی تھا۔ اردو کا کوئی ادارہ ہوتا تو فیصلہ کرنے میں مرعوبیت کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ انعام گیتانجلی شری کے نام صرف اس لیے کردیتا کہ انھیں پہلے ہی اس ناول پر انٹرنیشنل بکر پرائز مل چکا تھا۔ لیکن نہیں صاحب، اس ادارے نے کم از کم ایک بات تو ثابت کردی کہ اس پر کسی قسم کے خارجی دباؤ کا اثر اس طرح نہیں ہوتا جس طرح مثلاً اردو ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈ پر کم از کم گزشتہ دس سالوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتہ ایک اور اردو ناول بھی جے سی بی کی لانگ لسٹ میں شامل ہوا تھا لیکن اس کا انتخاب شارٹ لسٹ میں نہ ہوسکا۔ اس کے برخلاف دلچسپ بات یہ ہے کہ خالد کو نہ تو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کبھی ملا اور نہ انٹرنیشنل بکر پرائز لیکن انھوں نے بازی مار لی۔ اگر یہ ترجمے کی برکت ہے تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر انعام ملنے کا انحصار ترجمے پر ہی ہے تو باراں فاروقی سے شاید کچھ زیادہ بہتر مترجم ڈیزی راک ویل ہوں گی چونکہ انھیں کے ترجمے کو انٹرنیشنل بکر پرائز ملا تھا لیکن افسوس جے سی بی نے اس ترجمے کو کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ ٹیکسٹ کو ملحوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انعام کا اعلان کرنے سے پہلے ہیڈ جیوری نے ایک مختصر سی اسپیچ دی تھی، اس میں اشارتاً خالد کے ناول کے بیانیے کو سفاک کہا ۔ تو کیا یہ بیانیہ مترجم کا تھا یا مصنف کا؟
چلتے چلتے ایک اور بات پر ایک اور معترض کا اعتراض سن لیتے ہیں۔ فرماتے ہیں، ’اردو فکشن کی قسمت کا فیصلہ اب انگریزی کے لوگ کریں گے؟‘ جی ہاں جناب، بالکل کریں گے۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے، صلاحیتوں کا اعتراف کوئی بھی کرسکتا ہے۔ اگر آپ کوتاہ بینی کے شکار ہیں تو کیا دوسرے بھی اپنی آنکھوں میں سلائیاں پھیرلیں؟ آپ نہیں کریں گے تو دوسری دنیا کے لوگ کریں گے، آپ یہ سیاسی فقرہ یہاں استعمال نہیں کرسکتے کہ ’یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔‘ آپ کے گھر نے تو ایسے ایسے کندہ ناتراشوں کو ہمارے سر پر گزشتہ دس پندرہ سالوں سے سوار کردیا ہے اور کیسے کیسے ذہین اور باصلاحیت لوگوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے کہ اب یہ زمام کار آپ سے چھین لی گئی ہے۔ جنھیں آپ نے اپنے ہی گھر میں بے گھر کردیا تھا، ان کی سرپرستی دوسروں نے کرنی شروع کردی ہے۔ اب اردو فکشن کو دنیا کے تمام فکشن کی طرح زبانوں اور ملکوں کی سرحد کے اندر قید نہیں رکھا جا سکتا اور نہ کسی زبان کے ادیب پر حکم چلانے اور اسے اپنے تابع رکھنے کا اختیار کسی زبان کو حاصل ہے۔ اس لیے میری ایسے تمام لوگوں سے اپیل ہے جو اردو کا دم بھرتے ہیں لیکن خود اس کا راستہ روکے کھڑے ہیں ، خاموشی سے ہٹ جائیں ورنہ خالد جاوید کے فکشن کے پیچھے پیچھے چلا آنے والا ریلا انھیں خس و خاشاک کی طرح کنارے لگا دے گا۔
https://web.facebook.com/esbaatbookseries/posts/pfbid04Eu6r4EVU6Hocovz3dTn6CJWMb4LzgL3VrAugyyAstRMeBC1m1FzZh6oSnZTX6acl