“آئیڈیل لوگ اور آئیڈیل نظام، کتابوں میں ہیں یا خوابوں میں”
جب کرسٹوفر کولمبس ہسپانیولا کے جزیرے پر 1492 میں پہنچے تو اس جزیرے پر پانچ ہزار سال سے لوگ آباد تھے۔ یہ آرواک انڈین تھے جن کو ٹینو کہا جاتا ہے۔ ان کا انحصار زراعت پر تھا اور پانچ الگ قبائل بستے تھے۔ کل آبادی شاید پانچ لاکھ تھی۔ شروع میں تو یہ ملاپ ٹھیک رہا لیکن پھر ان ہسپانویوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ ان کے بدقسمتی تھی کہ ان کے پاس سونا تھا۔
ان نوواردوں نے اس جزیرے کو آپس میں بانٹ لیا اور ٹینو سے جبری مشقت کروانا شروع کر دی۔ یہ اپنے ساتھ اپنے جسموں میں یورپ کی بیماریوں کے جراثیم بھی لائے تھے جن کے خلاف ان انڈینز کی مدافعت نہیں تھی۔ کچھ تو اس جبری مشقت نے لیکن اس سے کہیں زیادہ سرعت سے ان جراثیم نے مقامی آبادی کا صفایا کر دیا۔ کولمبس کے آنے کے ستائیس برس بعد ان کی آبادی کم ہو کر گیارہ ہزار رہ گئی تھی۔ اس سال چیچک پھیل گئی اور صرف تین ہزار بچے جو اگلی کچھ دہائیں میں ختم ہو گئے یا ضم ہو گئے۔
کام کرنے کے لئے نئے غلام لائے گئے۔ یہاں گنا اگا۔ یہ امیر کالونی بن گئی۔ ہسپانیہ کی سلطنت کو زوال آیا۔ فرانس نے اس جزیرے کے مغربی حصے پر اپنا قبضہ کر لیا۔ 1795 میں ہسپانیہ یہاں سے نکل گیا اور پورا کنٹرول فرانس کے ہاتھ میں آ گیا۔ کچھ ہی برس میں یہاں رہنے والوں نے فرانس کی حکومت سے بغاوت کر دی اور مغربی حصے کو 1804 میں فرانس نے چھوڑ دیا۔ افریقہ سے آئے غلاموں نے اس کا پرانا نام اسے واپس دے دیا جو پانچ ہزار سال سے ٹینو اسے کہتے آئے تھے۔ یہ ہیٹی کہلایا۔
مشرقی حصے نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر سپین کے سپرد کر دیا۔ سپین نے اس میں اس قدر غیر دلچسپی دکھائی کہ 1821 میں انہوں نے آزادی کا اعلان کر دیا لیکن طاقتور مغربی حصے نے اس مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا جو اگلے تئیس سال تک رہا۔ ان سے آزادی کی بعد مشرقی حصہ ڈومینیکن ری پبلک کہلایا۔ اب اس ایک جزیرے میں دو آزاد ملک تھے۔
دونوں ممالک عدم استحکام کا شکار رہے۔ ہیٹی کے اگلے بائیس میں سے اکیس صدر دورانِ صدارت قتل کر دئے گئے جبکہ ڈومینکن ری پبلک میں اگلے چھیاسی برس میں تیس بار انقلاب آ چکے تھے۔ پچاس حکومتیں بدل چکی تھیں۔ کرپشن یہاں کا نشان تھی۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران امریکہ نے پانامہ نہر کی حفاظت کی خاطر فوج کشی کر کے دونوں ممالک پر قبضہ کر لیا۔ 1934 میں امریکی فوج کا انخلا ہوا۔ اس کے بعد یہ دونوں جزائر واپس اقتدار کی کرسی کے کھیل میں مشغول ہو گئے۔ ان ممالک کی قمست میں لاطینی امریکہ کی تاریخ کے بدنام ترین ڈکٹیٹر آئے۔
ٹروجیلو ڈومینکن ری پبلک میں، پاپا ڈوک ڈووالیے ہیٹی میں۔ مکار اور بے رحم۔ ہیٹی میں بابا ڈوک کے بعد ان کے بیٹے بے بی ڈوک جو 1986 میں اقتدار سے نکالے کر جلا وطن کئے گئے۔
ڈومینکن ری پبلک کے بدنام ڈکٹیٹر کے بعد ان کے قریبی ساتھی بالوگوئے جو چونتیس سال تک سیاست پر چھائے رہے اور اس دوران تین بار صدر بنے۔ ایک عجب کردار اور ایک شاطر سیاستدان، جن کے لئے اقتدار ترجیح تھی اور انسانی حقوق آپشنل۔ جب 94 سال کے تھے تو ان کی بینائی جا چکی تھی، اقتدار چھوڑ چکے تھے، بیمار تھے اور بسترِ مرگ پر تھے۔ اس وقت انہوں نے سب سے مل کر اور اپنے سیاسی مخالفین کو ملا کر ایک آخری سیاسی چال چلی۔ سب کو ساتھ ملا کر ایک معاہدہ کیا۔ اپنی تمام لڑائیوں کے ساتھ ساتھ ڈومینیکن ری پبلک کے مستقبل اور ماحول کی حفاظت کا معاہدہ۔ ان اقدامات کا تسلسل جو ساٹھ کی دہائی سے جاری تھے۔
ڈومینیکن ری پبلک جو ہیٹی کے ساتھ ایک ہی جزیرے پر ہے۔ ایک ہی جیسی تاریخ رکھتا ہے۔ ہیٹی کے قبضے میں تئیس برس تک رہا۔ معیارِ زندگی میں اپنے ہمسائے سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ کہیں زیادہ خوشحال ہے۔ اس کی وجوہات کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔
آج کا ہیٹی اجڑتا ہوا ملک ہے۔ مایوسی کا نشان ہے۔ افریقہ سے باہر دنیا کا غریب ترین ملک ہے۔ ڈومینیکن ری پبلک میں زندگی ہے، امید اور غیرملکی سیاح۔ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی جزیرے پر آباد ہیں۔
ڈومینکن ری پبلک کو آئیڈیل لوگوں نے نہیں بنایا۔ ہم سب، کمزور انسان، مل کر کیا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے اس جزیرے کی تاریخ کو تفصیل سے پڑھنا ایک سبق ہو سکتا ہے۔ (یہ پوسٹ صرف پس منظر ہے)۔ تفصیل سے اس لئے کہ سادہ اور مقبول کہانیوں اور سادہ لکھی گئی تاریخ میں ہیرو اور ولن ہوتے ہیں، لیکن یہ کہانیاں ٹھیک نہیں ہوتیں کیونکہ اصل دنیا ایسی نہیں۔
اس کو تفصیل سے پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل کتاب
The Tears of Hispaniola by Lucia M. Suarez