سامنے سمندر ہے۔ نیلے اور سفید پانی کا مسحور کن امتزاج۔ دخانی کشتیاں چل رہی ہیں۔ دور‘ بہت دور‘ دو قوی ہیکل بحری جہاز نظر آ رہے ہیں۔ دائیں طرف مشہورِ زمانہ مَرے ہائوس ہے جو 1846ء میں برطانوی اقتدار نے اپنے فوجی افسروں کے لیے تعمیر کیا تھا۔ اس کے سامنے سمندر کے پانی میں خوبصورت بارہ دری نما عمارت ہے۔ کسی زمانے میں لندن سے آئے ہوئے اعلیٰ برطانوی حکام‘ اور کبھی کبھی ملکہ بھی‘ اس بارہ دری میں بیٹھ کر سمندر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اُن مغل شہزادوں اور بیگمات کی طرح جو بارہ دریوں میں بیٹھ کر جمنا اور راوی کی لہروں کے ساتھ ساتھ جیسے بہتے جاتے تھے اور ہلکورے کھاتے تھے اور ہندوستانیوں کی اکثریت لنگوٹی میں ملبوس تھی۔ چنائی یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہام ایرالی نے‘ جو ہندو ہے نہ مسلمان‘ اور جس کی معرکہ آرا تصانیف بھارت میں کوئی نہیں چھاپتا‘ برطانیہ میں شائع ہوتی ہیں‘ لکھا ہے کہ مغلوں کے عروج کے زمانے میں ہندوستان کی کل دولت کا ایک چوتھائی صرف پانچ سو کے لگ بھگ افراد کی ملکیت میں تھا‘ لیکن یہ کہانی اور ہے‘ پھر کبھی سہی‘ اس وقت تو لکھنے والا ہانگ کانگ کے جنوبی ساحل پر کھڑا‘ خلیج سٹین لے‘ کے بے پناہ حُسن پر حیران ہے۔ 1842ء میں جب انگریزوں نے ہانگ کانگ پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے یہی سٹین لے گائوں ہی ان کا ہیڈ کوارٹر بنا تھا۔ بعد میں جزیرے کے شمال میں وکٹوریہ سٹی بنا اور ہیڈ کوارٹر وہاں منتقل ہوا۔ اسی وکٹوریہ سٹی کو اب ہانگ کانگ کا سنٹرل ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے جو لندن اور نیویارک کے بعد دنیا کا تیسرا طاقت ور ترین مالیاتی مرکز ہے۔ اب تو ہانگ کانگ کے ساتھ ساتھ‘ ’’نیولان کانگ‘‘ کی اصطلاح بھی وضع کرلی گئی ہے جو ’’نیویارک لندن اور ہانگ کانگ‘‘ کا مخفف ہے۔ پوری دنیا کی معیشت کا رُخ ان تین شہروں کی مالیات متعین کرتی ہے۔
وکٹوریہ کے نام کے ساتھ انگریزوں کا عشق بھی خوب ہے۔ جہاں گئے‘ پہلے یہ نام رکھا۔ کینیڈا کے‘ انتہائی مغرب میں‘ خوبصورت برٹش کولمبیا کا دارالحکومت وکٹوریہ ہے‘ جو اصل میں جزیرہ ہے۔ آسٹریلیا گئے تو جنوب مشرقی صوبے کا نام وکٹوریہ رکھا۔ کراچی مارکیٹ بنائی تو اس کا نام وکٹوریہ مارکیٹ کے بجائے پتہ نہیں ایمپریس مارکیٹ کیوں رکھا‘ ہو سکتا ہے اب پچھتا رہے ہوں!
ہانگ کانگ عجوبۂ روزگار شہر ہے۔ شہر کیا ہے‘ کئی شہروں کا مجموعہ ہے۔ کرۂ ارض پر ہانگ کانگ کو کئی لحاظ سے امتیاز حاصل ہے۔ فی کس آمدنی کے حوالے سے بلند ترین ملکوں میں شامل ہے۔ اقتصادی آزادی‘ معیارِ زندگی‘ شفافیت اور افرادی قوت کی ترقی سمیت کئی لحاظ سے سرِفہرست ہے۔ اکاسی ملکوں میں اس کے شہریوں کا آئی کیو بلند ترین ہے۔ 2012ء کے سروے میں طویل ترین عمروں میں بھی اس کا پہلا نمبر تھا۔
ہانگ کانگ کی پبلک ٹرانسپورٹ عجوبۂ روزگار ہے۔ چار سو چھبیس مربع میل کے علاقے میں ستر لاکھ افراد… اور لاکھوں سیاحوں کی روزانہ آمد اور قیام۔ اس کا حل یہی تھا کہ دنیا کا مستعد ترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم چلایا جائے اور وہ یہاں چل رہا ہے۔ نوے فی صد آبادی ذاتی کاروں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہے۔ یہاں کی زیرِ زمین ریلوے (ایم ٹی آر۔ ماس ٹرانزٹ ریلوے) دنیا کے نصف درجن بہترین زیر زمین ذرائع آمدورفت میں شمار ہوتی ہے۔ 152 سٹیشن ہیں۔ روزانہ 34 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں۔ دس مختلف لائنیں ہیں۔ ہر ریلوے سٹیشن کا رنگ مختلف ہے۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ مجھے کس رنگ کے سٹیشن پر اترنا ہے۔ ٹکٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ آکٹوپس کارڈ ایک الیکٹرانک کارڈ ہے جو ہر مسافر کو خریدنا ہوتا ہے۔ اس کی افادیت وہی ہے جو کریڈٹ کارڈ کی ہے۔ یہ کارڈ نہ صرف ریل بلکہ ٹرام بس اور فیری میں بھی کام آتا ہے۔ ٹرام 1904ء سے چل رہی ہے۔ سینکڑوں ڈبل ڈیکر اور سنگل ڈیکر بسیں اس کے علاوہ ہیں۔ وقت کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ ایک سیکنڈ کی تاخیر کا بھی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ شام پانچ بجے جب چالیس پچاس لاکھ افراد سرکاری دفتروں‘ نجی کمپنیوں‘ ملٹی نیشنل اداروں‘ پلازوں‘ سٹوروں‘ بازاروں سے نکلتے ہیں تو بظاہر قیامت کا سماں ہوتا ہے۔
انسان حیران ہوتا ہے کہ چند سو مربع میل کے جزیرے میں یہ حشر برپا کرتا اژدہام کہاں سمائے گا اور کدھر کا رُخ کرے گا۔ لیکن ہانگ کانگ کا مستعد ٹرانسپورٹ سسٹم اس بے پایاں‘ بے کنار‘ ہجوم کو نگل لیتا ہے۔ ہر دو منٹ کے بعد ایک زیر زمین ٹرین ڈیڑھ سو سٹیشنوں پر آ کر رکتی ہے‘ ہجوم‘ قطار بناتا ہے اور سوار ہو جاتا ہے۔ ٹرین میں گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ قطاریں رُک جاتی ہیں۔ کوئی شخص قطار کی خلاف ورزی نہیں کرتا‘ دو منٹ کے بعد دوسری ٹرین آ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ پانچ پانچ چھ چھ ڈبل ڈیکر بسیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ پیچھے پیچھے درجنوں ٹرامیں آ رہی ہیں‘ یہ ٹرانسپورٹ سسٹم دن بھر کے تھکے ہارے پچاس لاکھ افراد کو اپنے گھروں اور آرام دہ بستروں پر پہنچا دیتا ہے۔
چھوٹی سی جگہ پر اور کوئی چارہ نہیں تھا‘ سوائے اس کے کہ آبادی کو افقی کے بجائے عمودی عمارتوں میں سمویا جائے۔ کثیرمنزلہ عمارتوں کا سلسلہ 1935ء میں شروع ہوا۔ اس وقت بلند ترین عمارتوں کے لحاظ سے ہانگ کانگ دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ ان عمارتوں کو ’’سکائی لائن‘‘ (آسمانی قطار) کہا جاتا ہے۔ 2000ء اور 2010ء کے درمیانی عرصہ میں پچاسی عمارتیں ایسی تعمیر ہوئیں جو تقریباً چھ سو فٹ اونچی تھیں۔ یہ رہائشی عمارتیں ہیں۔ جس نے ہانگ کانگ میں رہنا ہے‘ اسے معلوم ہے کہ وہ وسیع گھر
اور صحن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ فلیٹ اور اپارٹمنٹ یہاں کے کلچر کا جزو لاینفک ہیں۔
ہانگ کانگ آج جس مقام پر ہے‘ اُسے یہاں تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار برطانوی حکومت اور برطانوی قانون کا ہے۔ استحکام‘ سکیورٹی اور تسلسل۔ یہ تین اجزا ہیں جو برطانوی قانون کو معیشت اور نظام تعمیر کرنے میں مددگار بناتے ہیں۔ غیر یقینی صورت حال سے (کل کون سا قانون ہوگا) انگریزوں نے ہمیشہ پرہیز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شخصیات کے بجائے پورے نظام کے سر پر سہرا سجتا ہے۔ سنگاپور کو لی کوآن یو نے بنایا۔ ملائیشیا کا نام آتے ہی مہاتیر کا چہرہ ذہن کے پردے پر چھا جاتا ہے۔ چین کو آج کا چین بنانے میں مائوزے تنگ اور چواین لائی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ لیکن ہانگ کانگ‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا کا نام آئے تو کوئی شخصیت نہیں یاد آتی۔ برطانیہ کا مجموعی نظام اور قانون یاد آتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ جب آزاد ہوا تو برطانوی نظام ہی تھا جسے لے کر اُس نے قدم آگے بڑھائے۔ قانون کی یقینی صورت حال‘ تسلسل‘ نجی شعبے پر اعتماد‘ اقتصادی سرگرمیوں پر ضروری کنٹرول لیکن منڈی کا مجموعی طور پر طلب اور رسد پر انحصار سرکاری شعبے پر اکائونٹس کے قوانین اور آڈٹ کی مکمل گرفت اور سب سے بڑھ کر عدلیہ کی آزادی۔ یہ تھے وہ عوامل جنہوں نے ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ کینیڈا‘ امریکہ اور خود برطانیہ کو ان ملکوں میں سرفہرست کھڑا کیا ہے جہاں آباد ہونے اور رہنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“