دوسری جنگ عظیم چھڑی تو وہ آٹھ سال کا تھا۔ وجہ پتہ نہیں کیا تھی لیکن ہوا یہ کہ املی کے بیج کی مانگ بڑھ گئی۔ وہ دن بھر املی کے بیج چن چن کر اکٹھے کرتا اور مسجد سٹریٹ میں واقع ایک دکان کے مالک کو بیچ آتا۔ ایک دن میں یوں وہ ایک آنہ کما لیتا۔ اُس چھوٹے سے گائوں میں‘ جو ایک جزیرے میں تھا‘ اُس نے نیوز پیپر ایجنسی والے کے ہاں مزدوری بھی کی اور اپنے بڑے بھائی کی دکان پر بیٹھ کر پیاز، تیل، چاول، سگریٹ اور بیڑی بھی بیچی۔ انجینئرنگ کالج میں داخلے کے لئے ایک ہزار روپے کی ضرورت تھی جو اُس کے باپ کی استطاعت سے باہر تھے۔ جس کیریئر کا خواب اس نے دیکھا تھا، وہ اس کی دسترس سے دور… بہت دور… دکھائی دے رہا تھا۔ اس نازک موڑ پر اُس کی بہن زہرا نے اس کی دستگیری کی اور اپنی سونے کی چوڑیاں اور ہار رہن رکھوا کر داخلے کی رقم کا بندوبست کیا۔ داخلہ تو ہو گیا، اس سے آگے کیا ہو گا؟ ایک ہی صورت تھی کہ اُسے سکالر شپ ملے۔ اس نے جان توڑ محنت کی اور سکالر شپ حاصل کر لیا۔ انجینئرنگ کے آخری سال کے دوران پانچ طلبہ کو ایک خصوصی پروجیکٹ دیا گیا۔ ایک جنگی طیارہ بنانا تھا۔ پانچوں نے کام آپس میں بانٹ لیا۔ اُس کے ذمے ڈیزائن کی ڈرائنگ آئی۔ ایک دن ڈیزائن کے پروفیسر نے اُس کے کام کا جائزہ لیا تو شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ پروفیسر کے خیال میں اس کی کارکردگی توقع سے کہیں کم تھی۔ اُس نے تاخیر اور کم معیار کی کئی توجیہیں پیش کیں مگر استاد متاثر نہ ہوا۔ آخرکار اس نے درخواست کی کہ اسے ایک ماہ کا وقت دیا جائے۔ پروفیسر نے اسے غور سے دیکھا اور کہا… ’’ینگ مین! یہ جمعہ کی شام ہے، میں تمہیں تین دن دیتا ہوں۔ اگر پیر کی صبح تک کام مکمل نہ ہوا تو تمہارا سکالر شپ روک دیا جائے گا۔‘‘ اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ سکالر شپ اس کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا، لائف لائن تھا۔ اُس نے کمرِ ہمت باندھ لی۔ ڈرائنگ بورڈ پر بیٹھ گیا۔ کھانے کا وقت آیا، گزر گیا، وہ نہ اٹھا۔ دوسرے دن صبح صرف ایک گھنٹے کا وقفہ کیا۔ اتوار کا دن تھا، وہ تکمیل کے نزدیک پہنچ گیا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کمرے میں کوئی اور بھی ہو، اس نے دیکھا کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں۔ وہ جم خانے سے ٹینس کھیل کر آ رہے تھے اور کھیل ہی کے لباس میں تھے۔ جو کچھ وہ کر چکا تھا اسے دیکھا تو اسے گلے سے لگا لیا اور اعتراف کیا کہ ان کے خیال میں اتنے وقت میں کام مکمل کرنا ناممکنات میں سے تھا، نہ ہی انہیں توقع تھی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا!
یہ کہانی عبدالکلام کی ہے، جنہیں بھارت میں ’’میزائل مین‘‘ کہا جاتا تھا۔ جولائی 2002ء میں وہ بھارت کے گیارہویں صدر منتخب ہوئے اور اس منصب پر پانچ سال رہے۔ گذشتہ ہفتے ان کا انتقال ہوا۔
اس میں کیا شک ہے کہ عبدالکلام کا تعلق ایک ایسے ملک سے تھا جس سے ہماری کئی جنگیں ہوئیں، ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع اُس ملک نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ مشرقی پاکستان کے حالات ہم نے خود خراب کئے مگر اُس سے بھارت نے ایک شاطر کھلاڑی کی طرح پورا فائدہ اٹھایا۔ عبدالکلام نے بھارت کی جارحانہ اور دفاعی قابلیت کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا اور مسلسل کئی عشرے جنگی تیاریوں کی قیادت کی۔ مگر اس کے باوجود، عبدالکلام کی زندگی میں ہمارے لئے کئی سبق ہیں۔ وہ جو عربی میں کہتے ہیں کہ غور اس پر کرو کہ کیا کہا گیا ہے، یہ نہ دیکھو کہنے والا کون ہے۔ تو آج ہم جس پاتال میں کھڑے ہیں، اُس کے پیشِ نظر یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ حریف کے پاس ایسی کون سی قوتیں ہیں جن سے ہم محروم ہیں!
اگر برِصغیر کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو تعجب اس بات پر ہے کہ عبدالکلام جہاں پیدا ہوئے، وہ گاؤں ایک اعتبار سے برِصغیر سے باہر ہے۔ تامل ناڈو کی ریاست بھارت کے جنوب مشرقی کونے میں آخری ریاست ہے۔ یہاں برِصغیر کی سرحد ختم ہو جاتی ہے۔ سرحد سے آگے سمندر میں تیس کلومیٹر چوڑا اور سات کلومیٹر لمبا ایک ننھا منا جزیرہ ہے جو بھارت اور سری لنکا کے درمیان واقع ہے۔ اس جزیرے میں ایک چھوٹا سا بے بضاعت گاؤں رامِش ورام عبدالکلام کی جائے پیدائش ہے۔ رامش و رام سے سری لنکا کا فاصلہ دو، اڑھائی سو کلومیٹر ہے۔ اس گاؤں کے ایک انتہائی غریب مسلمان کے بیٹے عبدالکلام نے، جس کا باپ ساری زندگی اپنے گاؤں سے باہر نہ گیا، ہزاروں کلومیٹر دور دہلی تک کا سفر جس طرح طے کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے ممکنات کی حد کوئی نہیں۔ غربت واحد رکاوٹ نہ تھی۔ کٹر ہندو معاشرے کا تعصب غربت سے بھی بڑی مصیبت تھی جو عبدالکلام کے گلے میں کانٹوں کا ہار بن کر لٹک رہی تھی۔ اس ماحول کا تصور کیجئے، گاؤں کے سکول میں عبدالکلام اپنے ہندو دوست کے ساتھ پہلی صف میں بیٹھتا تھا۔ اس کے سر پر مسلمانوں کی ٹوپی ہوتی تھی۔ ایک دن ایک نئے استاد سے برداشت نہ ہو سکا کہ اونچی ذات کے برہمن لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکا بیٹھے۔ اس نے عبدالکلام کو کلاس کی آخری صف میں بٹھا دیا، وہ تو عبدالکلام کی قسمت اچھی تھی کہ برہمن لڑکے کا باپ گاؤں کا کھڑپینچ تھا اور روشن خیال بھی۔ بیٹے کی شکایت پر اس نے متعصب استاد کو آڑے ہاتھوں لیا کہ چھوٹے سے گائوں میں منافرت کا زہر نہ پھیلاؤ۔ بالآخر استاد نے معذرت کی اور عبدالکلام کو اپنی نشست واپس مل گئی۔ ایک اور ہندو استاد جو بچے کی قابلیت سے حددرجہ متاثر تھا، جب اُسے کھانے کے لئے گھر لے آیا تو بیوی نے مسلمان بچے کو باورچی خانے میں داخل نہ ہونے دیا۔ یہ صورتِ حال صرف گاؤں میں نہ تھی، پورے بھارت میں تھی۔ مگر عبدالکلام کی لیاقت اور بے مثال ذہانت بھارت کی ضرورت بن گئی۔ تعصب اور تنگ نظری اس کی صلاحیتوں کی راہ میں دیوار نہ بن سکی۔ ’’میزائل مین‘‘ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز ملا اور سیاسی جماعتوں نے اُسے متفقہ صدر کے طور پر چُنا۔
مگر اس سے بھی بڑا سبق ہمارے لئے اور ہمارے رہنماؤں کے لئے عبدالکلام کی وہ بے نیازی ہے جو اس نے دنیاوی مال و متاع، بینک بیلنس، جائیداد، مکان اور مال و دولت سے برتی۔ جن اٹیچی کیسوں کے ساتھ وہ بھارت کے ایوانِ صدر میں داخل ہوا، پانچ سال بعد انہی اٹیچی کیسوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوا، بطور سابق صدر جب اُس سے پسند کی رہائش کا پوچھا گیا تو اس کا واحد مطالبہ یہ تھا کہ اس کی لائبریری کے لئے جگہ موجود ہو۔ کوئی بزنس کیا، نہ آبِ رواں کے کنارے کوئی محل بنایا۔ اس کے بھائیوں اور بہنوئی کے اس پر کئی احسانات تھے‘ مگر اُس نے اپنی بلند حیثیت میں ان کی کوئی سفارش کی نہ اُن کی ’’قسمت‘‘ بدلنے کی کوشش کی! ایک جگہ اس نے لکھا ہے…
’’میری کہانی… زین العابدین کے بیٹے کی کہانی… زین العابدین جس نے رامش ورام کے جزیرے کی مسجد سٹریٹ والے گھر میں سو سال سے زیادہ زندگی گزاری اور وہیں داعیٔ اجل کو لبیک کہا… اُس لڑکے کی کہانی جو اپنے بھائی کے ساتھ اخبارات بیچتا تھا، اُس سائنس دان کی کہانی جس کا کئی ناکامیوں اور سختیوں نے امتحان لیا، ہاں! یہ کہانی میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ دنیاوی اعتبار سے میرے پاس کچھ بھی نہیں! میں نے کچھ بھی نہیں بنایا! کوئی گھر نہیں تعمیر کیا، نہ ہی میری ملکیت میں کچھ ہے!! میں تو اس سرزمین پر ایک کنواں ہوں۔ جس کی لاکھوں بچوں اور بچیوں پر نظر ہے تاکہ وہ آئیں اور جو (علم) میرے پاس ہے، اُس کے ڈول بھر بھر کر نکالیں اور دور و نزدیک ہر جگہ پہنچائیں!!‘‘
یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں! ہاں! اپنی صورت! جو اس قدر بگڑ چکی ہے کہ ہماری شناخت ہی خطرے میں پڑ رہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے رہنما وہ ذہنی مریض ہیں جن کو دولت کے بے کنار انبار بھی سکون و اطمینان نہیں بخش سکتے۔ پورے کرۂ ارض پر پھیلی ہوئی دولت، محلات اور پرستانوں جیسے عشرت کدوں کی ملکیت کے باوجود، حکومتی محکموں، سرکاری ملازموں کی تعیناتیوں، یہاں تک کہ عام سرکاری خرید و فروخت سے بھی اپنا حصہ مانگتے ہیں اور اس میں کوئی خجالت نہیں محسوس کرتے بلکہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں!
عبدالکلام کی کہانی میں بھارتی مسلمانوں کے لئے بھی سبق پوشیدہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی نئی نسل کو اوسط قسم کی کاروباری سرگرمیوں میں ڈالنے کے بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی طرف منتقل کریں۔ چند دن پہلے دہلی کی ایک مسلمان بستی میں ٹیلی ویژن والے مختلف لوگوں کا انٹرویو لے رہے تھے۔ ایک مسلمان نوجوان رونا رو رہا تھا کہ اچھے بھلے لائق لڑکے کو آٹھویں جماعت سے اٹھا کر دکان پر بٹھا دیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی اُسی سطح پر رہتا ہے۔ مانا ہندو تعصب بہت بڑی حقیقت ہے لیکن اگر عبدالکلام کا راستہ نہ روکا جا سکا تو غیر معمولی ذہانت اور محنت کرنے والے دوسرے مسلمان بچوں کو بھی اپنی قسمت ضرور آزمانی چاہئے۔ کھڑکی پر پردہ تان کر کرنوں کو ایک کمرے میں آنے سے روکا جا سکتا ہے مگر کرنوں پر یہ پابندی کوئی نہیں لگا سکتا کہ وہ فضا کو منور نہ کریں! کوئی نہیں! کسی کا باپ بھی نہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“