ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک چینی شہنشاہ کو جھینگروں کی لڑائی کا بہت شوق تھا۔وہ ہر سال اپنے تمام گورنروں کے ذمہ یہ کام لگاتا کہ وہ اپنے علاقے کے بہترین جھینگر اکھٹے کرکے اسے بھیجیں ۔ شہنشاہ سے انعام حاصل کرنے کے لئے گورنر اپنے علاقے میں لوگوں کو بہترین جھینگر پکڑنے پر لگا دیتے ۔ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک غریب خاندان بستا تھا ۔ان کایک دس سال کابیٹا تھا۔ اس کا نام گھر والوں نے بہادرہیرو رکھا تھا۔ اس کا باپ ایک با ہمت شکاری تھا۔ ماں اور باپ اس بچے سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے ۔خصوصاّّماں کی تو اس میں جان تھی ۔بہادرہیرو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ ایک دن باپ پہاڑوں سے لوٹا تو اس کے پاس زندگی کا بہترین شکار تھا۔ایک بہت بڑا اورخوبصورت جھینگر ۔ اس نے اپنے جھینگر کانام بیٹے کے نام پر بہادر ہیرو رکھا ۔باپ اب بہت مطمئن اور خوش تھا ۔ اگر وہ چوبیس گھنٹے میں جھینگر پکڑ کر نہیں لاتا تو اس پر بہت بڑا جرمانہ ہو سکتا تھا۔چھوٹا لڑکا بھی جھینگر کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا۔اس نے اپنے باپ سے التجا کی کہ اسے جھینگر دیکھنے کا موقع دے ۔شروع میں باپ نے صاف انکار کر دیا۔لیکن بیٹا اصرار کرتا رہا حتّی کہ رونے لگا ۔
بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر باپ نے اسے جھینگر دیکھنے کی اجازت دے دی ۔جونہی اس نے بڑی سی نلکی کاڈھکنا اٹھایا ۔جھینگر اچھل کر باہر آیا ۔پاس ہی موجود مرغ نے لپک کر جھینگر کونگل لیا۔
باپ کو جھینگر کے زیاں کااتنا صدمہ ہواکہ اس نے سخت غصے میں آکر لڑکے کوگھر سے نکل جانے کا حکم دے دیااوراسے کہہ دیا کہ جب تک ایسا جھینگر پکڑ کر نہ لاؤگھر واپس نہیں آنا ۔غریب لڑکا پہاڑوں میں جھینگر پکڑنے گھر سے نکل پڑا ۔وہ رات بھر گھر نہیں لوٹا ۔ادھرماں باپ رات بھر اس کے فراق میں تڑپتے رہے ۔اگلی صبح باپ نے اسے ایک بڑی چٹان پرلیٹا پایا۔ وہ تقریباّّ نیم مردہ تھا۔ باپ کو اپنا کلیجہ باہر نکلتا محسوس ہوا ۔وہ صدمے سے رورہاتھا۔ جب اس نے بیٹے کا نیم بے جان جسم اٹھایا تو ایک چھوٹا اور بدشکل جھینگر لڑکے کے زرد چہرے سے چمٹا پایا ۔باپ نے بیٹے کے چہرے سے اسے جھاڑا اور بیٹے کواٹھا کر گھر لے آیا ۔
ماں باپ نے بیٹے کو رو دھو لیا ۔ انہوں اس کے کفن دفن کا بندوبست کرلیا ۔ بیٹے کا نیم مردہ جسم نہلا دھلاکر بڑے کمرے کے مرکز میں رکھ دیا گیا ۔وہ اس کی آخری سانسیں نکلنے کا انتظار کر رہے تھے ۔جب وہ بیٹے کے نیم مردہ بدن پر دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہے تھے ۔انہیں جھینگر کی مدہم سی آواز سنائی دی ۔یہ وہی چھوٹا اور بدشکل جھینگر تھا جسے باپ نے پہلے بھی بیٹے کے چہرے سے جھاڑ کر پھینکا تھا ۔اسے یہاں دیکھ کر باپ کو پھر غصہ آگیا ۔اس نے اسے اٹھا کر باہر پھینک دیا ۔
تھوڑی دیر بعد گورنر جھینگر لینے پہنچ گیا ۔ لڑکے کے باپ نے کہا ’’میرے پاس کوئی جھینگر نہیں ہے ‘‘
اس وقت جب گورنر نے غضب ناک ہو کر گھر کو آگ لگانے کاحکم دیا انہیں ایک جھینگر کی آواز سنائی دی ۔یہ آواز کافی اونچی اور واضح تھی ۔گورنر کے آدمیوں نے آواز کاتعاقب کیا تو انہیں اسی نلکی کے اندر سے یہ آواز سنائی دی جس میں سے پہلے والا جھینگر نکل بھاگا تھا ۔یہ وہی چھوٹا اور بدشکل جھینگر تھا ۔اتنا چھوٹا اور بدشکل جھینگر دیکھ کر گورنر نے سمجھا شکاری نے اس کے ساتھ مذاق کیا ہے ۔اس نے غصے سے جھینگر مرغ کی طرف پھینکا کہ وہ اسے کھالے ۔جونہی مرغ اسے کھانے کے لئے آگے بڑھا جھینگر اچھل کر اسکی کلغی پر جا بیٹھا ۔دونوں کے درمیان کچھ دیر کشمکش جاری رہی اس کے بعد مرغ گرا اور مرگیا ۔گورنر بہت متاثر ہوا۔اس نے شکاری سے پوچھا ’’ تم نے اس کاکوئی نام رکھا ہے ‘‘
شکاری نے بے اختیار کہا ’’ میں اسے بہادر ہیرو کہ کر پکارتا ہوں ‘‘
بہادر ہیرو کچھ عرصے میں ملک بھر میں مشہور ہو گیا ۔ وہ ملک بھر کا سب سے زیادہ لڑاکا جھینگر ثابت ہوا ۔اس نے اپنے مقابلے میں آنے والے بڑے بڑے جھینگروں کو آسانی سے ہرا دیا ۔اس نے کبھی کوئی لڑائی نہیں ہاری ۔حتی کہ اس نے شہنشاہ کے لڑاکا مرغوں کو بھی ہرا دیا ۔وہ شہنشاہ کا سب سے زیادہ چہیتا بن گیا ۔شہنشاہ اسے بہت زیادہ چاہنے لگا تھا۔
ادھر اس پہاڑی گاؤں میں لڑکا ابھی تک سانس لے رہا تھا ۔ جب تک وہ سانس لے رہا تھا ماں باپ کی آس باقی تھی ۔انہوں سے بڑے کمرے کے مرکز میں رکھا ہواتھا ۔جہاں وہ بے سدھ پڑا ہواتھا ۔
جب جھینگروں کی لڑائی کا موسم ختم ہوا تو شہنشاہ نے حکم دیا کہ جس شکاری نے یہ جھینگرپکڑا تھا اسے انعام سے مالا مال کر دیاجائے۔ اس نے شہنشاہ کو مسرتوں سے نوازا تھا۔ بادشاہ نے اسے سونے چاندی کے انعامات سے نواز دیا ۔ لیکن والدین کو انعامات سے خوشی نہیں ہوئی ۔کیونکہ ان کا بیٹا مرا جارہاتھا ۔وہ اپنے اکلوتے بیٹے سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے ۔یہ سونا چاندی انہیں بیٹے کی زندگی سے زیادہ عزیز نہیں تھا ۔یہ مادی چیزیں ان کا بیٹے کا نعم البدل نہیں ہو سکتی تھیں ۔ وہ رات دن بیٹے کی صحت کی دعائیں مانگتے تھے ۔
ایک دن بہادر ہیرو اپنے شاہی پنجرے سے پر اسرار انداز میں غائب ہوگیا ۔ اسی دن اس لڑکے کے جسم میں جان لوٹ آئی اور وہ بھلاچنگا ہوگیا ۔
وہ چھوٹا جھینگر اس لڑکے کا جذبہ تھا ۔اس نے اپنے جذبے سے خود کوجھینگر کر قالب میں ڈھال کر اپنے خاندان کی جان بچائی تھی ۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...