کسان منڈی جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا، گدھا خریدوں گا، پھر اس پر لکڑیاں لادوں گا، شہر جا کر بیچا کروں گا، بہت سے پیسے جمع کروں گا اور یوں دولت مند ہو جائوں گا۔ دوسرے آدمی نے مشورہ دیا کہ اتنا لمبا چوڑا منصوبہ تو ٹھیک ہے لیکن ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیا کرو۔کسان کو غصہ آگیا ، کہنے لگا: رقم میری جیب میں ہے‘ منڈی سامنے ہے‘ گدھا خریدنے میں اب کون سی رکاوٹ ہے کہ انشاء اللہ کہوں۔ شومئی قسمت سے منڈی پہنچا تو ہجوم میں اس کی جیب کاٹ لی گئی۔ اب وہ ناکام و نامراد منڈی سے واپس گھر کو چلا۔ راستے میں پھر کسی نے پوچھا‘ کہاں گئے تھے۔ کسان سبق سیکھ چکا تھا‘ کہنے لگا: انشاء اللہ منڈی گیا تھا، انشاء اللہ وہاں جیب کٹ گئی ، اب انشاء اللہ گھر واپس جا رہا ہوں۔
یہ پامال لطیفہ ہم سب نے کئی بار سنا ہوگا ، لیکن اب کے یہ نئے پیرائے میں سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد کچہری پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد حکومتی ادارے جو اعلانات کرتے پھر رہے ہیں وہ کسان کی انشاء اللہ سے زیادہ نہیں ! خوش خبری سنائی گئی ہے کہ کچہری کے چاروں طرف بائونڈری وال بنائی جائے گی ، بہت سے راستے بند کر دیے جائیں گے ، صرف چار انٹری پوائنٹس رکھے جائیں گے ، واک تھرو گیٹ ہوا کریں گے ، سولہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اسی کچہری میں کچھ سال پہلے خوفناک دہشت گردی ہو چکی ہے۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ پہلے حملے کے بعد ہی احتیاطی اور انسدادی تدابیر کر لینی چاہیے تھیں‘ لیکن غفلت اور نااہلی کی جو تصویر میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے‘ اس سے صرف اور صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دوسرا حملہ کرنے والے اگر تربیت یافتہ دہشت گرد نہ ہوتے اور کسی پرائمری سکول کے بچے ہوتے‘ تب بھی حملہ آوروں کو مشکل پیش آتی نہ رکاوٹ! نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی شہادتیں اتنی زیادہ ہیں کہ شاید ساری احاطۂ تحریر ہی میں نہ آ سکیں۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے صدر بتاتے ہیں کہ چند روز قبل ضلعی پولیس اور انتظامیہ کے حکام کی سیشن جج اسلام آباد سے میٹنگ ہونا تھی تاکہ کچہری کے سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے ، لیکن انتظامیہ اور پولیس نے اس اجلاس کے بجائے کرکٹ میچ دیکھنے کو ترجیح دی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ میڈیا میں جب دہشت گردی کے امکان کی خبریں آئیں تو فول پروف انتظامات کا مطالبہ کیا گیا لیکن انتظامیہ نے توجہ ہی نہیں دی۔
کیا پولیس کو علم نہیں تھا کہ کچہری میں سکیورٹی وال کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ نہ تھی کیونکہ کچہری میں داخل ہونے کے بارہ سے زیادہ راستے وجود میں آ چکے تھے؟ روزنامہ ’’دنیا‘‘ نے وزارتِ داخلہ کی غیر سنجیدگی کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ 47 موجود پولیس اہلکاروں میں سے صرف دو نے موقع پر اسلحہ استعمال کیا۔ چیف کمشنر کو خطرے کی 42 اطلاعات تھیں! وکلا نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ جب انہوں نے پولیس کو کہا کہ حملہ آوروں پر گولی چلائو تو پولیس اہلکاروں کا جواب تھا کہ ان کے پاس جو بندوقیں ہیں وہ استعمال کے قابل نہیں! نااہلی کی ان ساری شہادتوں پر دہشت گرد اگر بھنگڑے نہ ڈالیں اور مٹھائیاں نہ کھائیں تو دہشت گردوں کی اپنی بے وقوفی ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ، اس نے وفاقی دارالحکومت پلیٹ میں رکھ کر دہشت گردوں کو پیش کردیا ہے۔ عوامی نمائندوں کی تشویش کی واحد وجہ یہ ہے کہ اگر کل یہ دہشت گرد پارلیمنٹ میں گھس آئے تو کیا ہوگا۔ گویا، اگر پارلیمنٹ محفوظ ہے تو سب ٹھیک ہے۔ رہے عوام تو وہ جائیں بھاڑ میں۔ جس ملک کی قومی اسمبلی میں ایک منتخب نمائندہ ببانگِ دہل یہ اطلاع بہم پہنچائے کہ صرف ایک ماہ (جنوری 2014ء) میں وفاقی دارالحکومت میں چالیس سے زیادہ ڈکیتیاں ہوئی ہیں اور گزشتہ سال دارالحکومت سے ایک ارب روپے کی گاڑیاں چوری ہوئی ہیں‘ اُس ملک میں اگر عوام کچھ عرصہ بعد طالبان کو پھولوں کے ہار پہنائیں تو تعجب کی کون سی بات ہوگی!
دہشت گردی کا یہ واقعہ پیش منظر پر چھایا رہا ۔ جو کچھ حاشیے پر ہوتا رہا‘ اس کی طرف کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ کیا کیا لطیفے رونما ہو رہے ہیں۔ ہر لطیفہ ایسا ہے جو قوم کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ ایک صاحب نے فرمایا ہے کہ طالبان جنگ بندی پر کاربند رہیں گے کیونکہ ایسا نہ کرنا شریعت کے خلاف ہوگا! سبحان اللہ! یہ جو مسلمانوں کے گلے کاٹ کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا جا رہا ہے اور اس کی وڈیو بنا کر پھیلائی جا رہی ہیں‘ اس میں تو شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوئی! ایک مذہبی رہنما بیرونِ ملک سے واپس آئے تو عمران خان صاحب نے وقت ضائع کیے بغیر ایئرپورٹ ہی پر ان سے ملاقات کی۔ اقبال یاد آ رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے یورپ میں جو میل ملاپ ہو رہا تھا‘ اس پر انہوں نے کہا تھا ؎
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
کچھ دن پہلے ایک خاتون وکیل نے عمران خان کو ایک خاص گروہ کا جاسوس قرار دیا۔ نامور کھلاڑی کے چاہنے والے اس سے بہت غمزدہ ہوئے۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ اس سنگین الزام پر خان صاحب عدالت میں جاتے اور الزام لگانے والی خاتون سے ثبوت طلب کرتے ، لیکن افسوس ایسا نہ ہوا۔ ان کی منطق پر ، جو وہ وقتاً فوقتاً قوم کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں ، فقط ہنسا ہی جا سکتا ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ منطق عمران خان کی ہے یا یہ بیان ایک خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے کسی مدرسہ نے جاری کیا ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ آپریشن روکنے پر وہ حکومت کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پھر وہ ان عناصر کو الگ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے بقول امن نہیں چاہتے۔ یہ عناصر کیسے الگ ہوں گے؟ اس کا طریق کار وہ نہیں بتاتے۔ پھر کہتے ہیں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی خواہش مند تیسری قوت کو تلاش کرنا ہوگا۔ یہ تیسری قوت جس کا
ہر وہ شخص ذکر کرتا ہے جو دہشت گردوں کا دفاع کرنے والا ہے‘ آج تک سامنے نہیں آئی۔ عمران خان کے ایک نظریاتی بھائی نے تو اس ضمن میں چوتھی پانچویں اور چھٹی قوت کا بھی ذکر کیا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان رشتہ داری کی وجہ سے اس معاملے میں جذباتی ہیں؟ وہ بار بار قبائلی علاقوں میں رہنے والے عوام کا ذکر کرتے ہیں۔ جس قوت نے پچاس ہزار پاکستانی عوام کو مسجدوں‘ مزاروں‘ کچہریوں‘ بازاروں‘ سکولوں اور دفتروں میں قتل کیا ہے‘ اس قوت کا عمران خان کبھی کھل کر نام نہیں لیتے۔ کیا وہ رشتہ داری نبھانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں؟ آخر وہ اتنے جذباتی کیوں ہیں؟ ان کی پارٹی کے جن افراد نے پارٹی کی ایک حالیہ میٹنگ میں انہیں مجبور کیا کہ وہ ایف سی کے نوجوانوں کے بہیمانہ قتل کے بعد مذاکرات کی رٹ لگانا چھوڑ دیں‘ اُن افراد کو چاہیے کہ اس مسئلے پر بھی غور کریں کہ آخر ان کا لیڈر ہر حال میں مذاکرات ہی کی بات کیوں کرتا ہے۔ ایف سی ٹریجڈی کے بعد تحریک انصاف کی کورکمیٹی کا اجلاس ہوا تو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کی رپورٹ یہ تھی کہ اجلاس میں خوب گرما گرمی ہوئی اور ’’اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے مذاکرات کے حوالے سے پالیسی پر ممبران کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس پر تمام ممبران کو مطمئن نہ کر سکے‘‘۔
اگر ایف سی کے شہید نوجوانوں اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے پچاس ہزار پاکستانیوں کا تعلق بھی اس علاقے سے ہوتا جس سے خان صاحب جذباتی ڈور سے بندھے ہیں تو ان کا طرزِ فکر ضرور مختلف ہوتا۔ غالبؔ نے درست ہی کہا تھا ع
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایمان ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“