نعت تخلیقی عمل کا ایک مقدس شعبہ ہے۔حرف و بیان کی ہمرکابی میں قلم جب تقدس مآب ہو کر ذاتِ احمد ﷺ میں حسن کی دریافت کے عمل کی تخلیقی و تخئیلی سطحوں کی نقابت کا فریضہ انجام دینے لگے تو نعت کی تمثیلی و توصیفی جہات رو بہ عمل ہو جاتی ہیں۔ تہذیبی علائم میں حسّی وفور کا درجہ اور تاریخی قرائن میں ذوقی پہلو کی تدریجی ساخت، دونوں جمالیاتی پیرائے کا خاصہ بن جاتے ہیں۔ نعت گو کے مافیے میں جدید ترین امکانات کی تلاش تخیلاتی فضا ہی میں زقند نہیں بھرتی بلکہ اسے تجربے کی بنیاد فراہم کرتی ہوئی نئے نئے فنی جواہر اور علامتی پیکر خَلق کرتی ہے جس سے نہ صرف معنیٰ کا تناؤ بلکہ اسلوب و ادا کی بلند آہنگی کا ادراک و اظہار بھی پورے جمالیاتی سانچے میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔ یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ تخلیق کا درجہ تہذیبی رویے کا قائل نہ ہو تو روایتی انحراف کی تازہ کارروائی جدید تخلیق کار کا ذہنی و فکری لازمہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کے باب میں بلکہ بڑی نعتیہ شاعری میں فنی درجے کے ادراک پر فکری معنویت کی چھاپ زیادہ مطلوب ہوتی ہے۔ نعتیہ ڈسکورس میں لفظ کے سبھی احوال و معانی کا تعلق مرکز سے منسلک رہے نہ رہے، تخلیقی مرتبے کی تفہیم میں مرکزی کردار کی بازیافت ضروری ہوتی ہے اور یہ اسی نظریے کا نتیجہ ہے کہ نعت کا ہر شعر اپنے سماجی پن سے منحرف ہو کر قلبی تحویل میں اترتا ہوا آفاقی قدریں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل کی بہ نسبت نعت کا شعر زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔ غزل کے شعر میں احساساتی کمتری کا اعلان تہذیبی رویہ خود پیدا کرتا ہے جبکہ نعت میں معنیٰ کی کثرت و قلت کے اعتبار کے بغیر شعری سانچہ اپنی تمام تر قدامت میں بھی جدید لب و لہجے کی رہنمائی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔
نعت کی تازہ آوازوں میں ایک خوش گوار آہنگ کی جمالیاتی بالیدگی کا پتا ہمیں جاوید عادل سوہاوی کے نعتیہ ڈسکورس میں ملتا ہے۔ ان کے ہاں نعتیہ آواز میں دھیما پَن زیادہ اور بلند آہنگی کا فقدان خاصا لاشعوری ہے۔ وہ اپنی جذبے کی اٹھان میں آواز کا سہارا لیے بغیر باریک پیرائے میں پورا تجربہ لفظ کے ماتھے پہ چسپاں کر دیتے ہیں جو خاموشی میں بھی اعلانیہ تازہ کاری کا واضح ثبوت فراہم کر دیتا ہے۔ فکری سطح پہ تخیل کی محض قلانچیں بھرنا ان کا پیشہ نہیں بلکہ عقیدے کے تحفظ اور جذبے کی ترسیل میں ان کا رہوارِ سخن خاصہ بیباک ہے۔ وہ آرزوئے دید میں پہروں ڈولتے نہیں بلکہ اشتیاق کی لذت میں رہ کر حضور Presence کی آواز کی دریافت میں غیر محسوس طریقے سے گم ہو جاتے ہیں اور تکمیلِ تمنا میں سرشار ہو کر نمودار ہوتے ہیں :
کس نے جانا ہے مدینے جو صبا نے پوچھا
اوس کے ہاتھ کئی بار گلِ تر سے اٹھے
۔۔۔
حروفِ عطر فشاں میں تھی بوئے نورانی
حضور پاس تھے، مدحت سرا سے دور نہ تھے
۔۔۔
دل مکمل ہے ترے عشق میں اس جا پہ نہیں
شین اور قاف جہاں ہوتے نہیں عین کے ساتھ
۔۔۔
نگاہوں میں توقع سے زیادہ روشنی تھی
مرے آگے عقیدت کا دیا ہے اور میں ہوں
۔۔۔
جو قلب و روح کے مابین ایک آہنگ ہے
وہ دھڑکنوں میں سجا ہے ثنا کی دھن کے بعد
جاوید عادل نعت کی فنی نزاکتوں سے غیر معمولی طور پر آگاہ ہیں اسی لیے فکری اغراق اور تخئیلی جادہ گردی سے شوقِ فضول کو پراگندہ نہیں کرتے بلکہ عقیدت و عرفان کے سبھی جذبے دل کی گہرائیوں میں پالتے رہتے ہیں اور قلم کو ادب آموز بنا کر توصیفِ احمدی ﷺ کے بڑے اور جمالیاتی تجربوں سے گزارتے ہیں۔ ان کے ہاں ادب باقاعدہ نظریہ ہے اور تعظیم سراسر عقیدت کا نظام :
لفظ جب آپ کی عظمت کے رقم ہوتے ہیں
ہاتھ پر بوسے دیا کرتی ہے دستارِ قلم
۔۔۔
بزمِ حضور عشق میں وہ بزم ہے جہاں
شیدائی کو جنوں میں بھی ادراک چاہیے
جاوید عادل کے ہاں ذہن کی ہر فیکلٹی کا تسلیم شدہ مفہوم نعت کا مافیہ Content نہیں بنتا بلکہ وہ شعور کی بلند ترین رَو پہ اپنے متن کی بنیاد رکھتے ہوئے نعت کا حسی و ذوقی پیرایہ تخلیق کرتے ہیں۔ ان کے ہاں عملی بساط کا روایتی پَن بھی اپنے پورے جوبن کے ساتھ موجود ہے :
جہاں ذوقِ اسیری خار ہو شاخِ جہالت کا
وہاں نوکر ترے زنجیر کو گلفام کرتے ہیں
۔۔۔
دھیان میں جب بھی ترا دشتِ عرب آتا ہے
تشنگی پر بھی برس جاتا ہے آبِ زمزم
۔۔۔
فزوں ہے جس سے یہ تعدادِ انبیا کا فروغ
ہر اک جمال میں وہ اک عدد ضروری ہے
۔۔۔
نگاہِ خامہ سے کاغذ کے آسمان کو دیکھ
ہلالِ حرفِ ثنا پھر سے مسکرایا ہے
مجموعی تاثر میں جاوید عادل کا نعتیہ شعری مرتبہ خاصا دھیما ہے۔ یہ دھیما پَن معنیٰ کے اخفا یا تشکیلی سطح کے عدمِ ترابط کی وجہ سے نہیں بلکہ شعری تجربے کی نت نئی ساخت کو بروئے کار لانے کے سبب سے ہے جوکہ خوش آئند ہے۔ نعت ان کے ہاں محض لفظوں کا ہدف یا تشکیل کا نامربوط نظام نہیں بلکہ الفاظ کے پیچیدہ ڈھانچے میں معنیٰ کی گہری اور بامقصد سمائی ان کے خامۂ جمال رقم کا وہ معجزہ ہے جسے ان کی شعری اٹھان کا مرکزی عامل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ”اسمِ معطر“ کا مطالعہ میرے وجدان و حضور میں سرشاری و کیف آوری کا سبب رہا۔ میں اسے اپنے متاثر کن عوامل میں ایک اہم جگہ پاتا ہوں۔ صاحبِ کتاب کے لیے نیک نیتی اور پرخلوص دعائیں!!