ولادت: لاہور.29.نومبر.1960. ۔ وفات: ملتان.5.فروری.1986. آنس معین بھاٸی کا تمام بہن بھاٸیوں سے حسب مراتب کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ ہم سب بہن بھاٸی مل کر انڈور گیمز مثال کے طور پر کیرم بورڈ ، لوڈو ، پلیٸنگ کارڈز کھیلنا پسند کرتے تھے ۔ جبکہ ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ، بڑے بھاٸی انجم بھاٸی ، عارف بھاٸی اور آنس بھاٸی پلٸنگ کارڈز میں بِرّج اور شطرنج اور بیڈ منٹن کھیلنا پسند کرتے تھے۔ آنس بھاٸی نے دویا تین مرتبہ شطرنج ٹورنامینٹ میں بھی بھرپور انداز میں شرکت کی اور دونوں مرتبہ سیمی فاٸنل جیت کر فاٸنل تک پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ نذیر جونیٸر جیسے شطرنج کے نامور کھلاڑی کو بھی آنس بھاٸی نے ٹورنامینٹ میں اور اس کے علاوہ بھی متعدد بار شکست سے دوچار کیا ۔ آنس بھاٸی عام طور پر امروز ملتان کے اس وقت کے ایڈیٹر سید سلطان احمد ، والد گرامی سید فخرالدین بلے اور ممتاز العیشی کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتے تھے ۔ تاش/پلیٸنگ کارڈز کے مشہور و معروف کھیل بِرّج میں بھی آنس بھاٸی بہت زیادہ ماہر تھے ۔ فلم ، ریڈیو ، اسٹیج اور ٹیلی وژن کے ممتاز اداکار جناب منور سعید صاحب ممتاز شاعر جناب مرتضی برلاس ، ایم ڈی اے ملتان کے ڈاٸریکٹر ٹاٶن پلاننگ سردار نذیر صاحب ، جبکہ اریگیشن/ محکمہ انہار (ڈاکٹر انورسدید کے ہم محکمہ) جناب ملک افضل اور دیگر متعدد سول سروسز کے اعلی افسران کے ساتھ آنس بھاٸی کا برج کھیلنا معمول تھا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 4.فروری1986 کو بھی انہوں نے منور سعید بھاٸی اور اور دیگر احباب کے ساتھ برج کھیلا۔
بے شک بحثیت برادرِ خرد ہم اپنا اپنا حق نہیں سمجھتے کہ ہم آنس معین کے ادبی مقام اور منصب کا تعین کریں لیکن آنس معین نے کم عمری میں جس اعلی پاٸے کی شاعری کی اس نے دنیاٸے شعر و ادب کے بڑے بڑے ناقدین اور شعرا ٕ و ادبا ٕ کو چونکا ڈالا . حضرت جوش ملیح آبادی آنس معین کو کمسن سقراط کہا کرتے تھے جبکہ فیض احمد فیض نے متعدد نشستوں اور تقاریب میں برملا طور پر فرمایا کہ آنس معین میں نے آنس معین جیسا جہاں دیدہ دانشور آج تک نہیں دیکھا ، احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ میں آنس معین کے اشعار سن کر دم بخود رہ جاتا ہوں اور رشک بھی کرتا کہ آنس معین جیسے اشعار کہہ سکوں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ تو یہاں تک فرمایا کہ آنس معین کا کلام سن کر تو دماغ بھی دل کی طرح دھڑکتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے آنس معین کو کیٹس کا ہم پلہ شاعر قرار دیتے ہوٸے اعتراف فرمایا کہ مجھے آنس معین کے بہت سے اشعار سے خوف آتا ہے۔ صدیق سالک نے آنس معین کو کیٹس سے کہیں بڑا شاعر قرار دیا۔ شبنم رومانی نے آنس معین کی المناک موت کو اردو شاعری کی دوسری خودکشی قرار دیتے ہوٸے فرمایا کہ آنس معین جدید اردو شاعری کا معتبر حوالہ ہے، حضرت جون ایلیا ٕ نے خیال ظاہر فرمایا کہ آنس معین کی خوبصورت شاعری جدید اردو ادب کا سرمایہ ہے ، ڈاکٹر انور سدید نے آنس معین کی وفات کو جوان غزل کی موت قرار دیا ، نسیم لیہ نے آنس معین کو عصر موجود کا سقراط اور نٸی سوچوں کا ارسطو قرار دیا ، پروفیسر اسلم انصاری ، ڈاکٹر عاصی کرنالی ، ادا جعفری ، بانو قدسیہ ، باباجی اشفاق احمد ، واصف علی واصف ، ڈاکٹر قمر رٸیس ، رام لعل ، کنور مہندر سنگھ بیدی ، ڈاکٹر منظر عاشق ہرگانوی ، جگن ناتھ آزاد ، ڈاکٹر اسعد بدایونی ، طفیل ہوشیارپوری ، جابر علی سید ، پروفیسر انور جمال ، پروفیسر جاذب قریشی ، دنیاٸے شعر و ادب کی ممتاز شخصیات نے آنس معین کے کمال فن کا اعتراف بھرپور انداز اور الفاظ میں فرمایا۔
آنس معین ہمارے حقیقی بڑے بھاٸی ہیں۔ آنس معین کی ولادت .29.نومبر1960 (10.دسویں جمادالثانی 1380ھ) بروز منگل لاہور میں سید فخرالدین بلے اور مہر افروز بلے کے ہاں ہوٸی۔ والدہ ماجدہ مہر افروز بلے کی آٹھ اولادوں میں آنس معین کا پانچویں نمبر پر ہیں۔ ہم آٹھ بہن بھاٸیوں کے ناموں کی فہرست ملاحظہ فرماٸیے۔ بہن بھائی: بالترتیب : * عذرا کمال ، *سید محمد انجم معین بلے ، *سیدہ اسماء رضوان ، *سید عارف معین بلے ، *سیدہ ناز اظہر ، *سیدہ آمنہ آصف ، *سید ظفر معین بلے۔
تقریبا“ دس برس کی عمر تک آنس معین کو ان کو گھر میں پیار سے پنوں پکارا جاتا تھا ۔
ہماری پیاری والدہ ماجدہ محترمہ مہر افروز بلے صاحبہ بتاتی تھیں کہ جب آنس معین تین چار برس کے تھے تو وہ ایگزیما جیسے جلدی مرض میں مبتلا ہوگٸے تھے اور کچھ ہی عرصے میں ان کے تمام جسم کو اس مہلک بیماری نے بری طرح متاثر کردیا تھا۔ یقینی طور پر آنس معین جیسے حسین بچے پر اس بیماری کے مہلک اثرات دیکھ کر تمام اہل خانہ کو ماں باپ اور بہن بھاٸیوں کو بہت اذیت ہوتی تھی اور تشویشناک بات یہ تھی بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے علاج کروا کر دیکھ لیا گیا تھا مگر کسی معالج کے علاج سے رتی برابر بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ آخرِ کار معالجین نے مایوسی کے اظہار کے ساتھ اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا۔ یہ سب بہت پریشان کن اور اعصاب شکن تھا۔ پھر ہمارے والد گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے اپنے ایک دوست سے کہ جو بلاشبہ ایک انتہاٸی باکمال ہومیو پیتھک فزیشن تھے اور جن کا نام ڈاکٹر فیلبوس تھا سے مشورہ کیا۔ ڈاکٹر فیلبوس نے ہمت بندھاٸی حوصلہ دیا اور اپنا ہومیو پیتھک علاج شروع کیا جو بےشک بہت کارگر ثابت ہوا اور کم و بیش چھ سات ماہ کے مسلسل علاج کے بعد آنس معین مکمل طور پر صحت یاب ہوگٸے۔
زمانہ ٕ طالب علمی میں آنس معین کا شمار اسکول و کالج کے ہونہار اور نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طالب علموں میں ہوتا تھا۔
حلقہ ء احباب : جوش ملیح آبادی ،فیض احمد فیض ، ڈاکٹر وزیرآغا ، احمد ندیم قاسمی ، جابرعلی سید، انتظار حسین ، مسعود اشعر ، یزدانی جالندھری ، حضرت وقار انبالوی ، جاوید احمد قریشی محمد طفیل (مدیر نقوش) ,اخترالایمان ،تیغ الہ آبادی المعروف مصطفے زیدی ، طفیل ہوشیارپوری ، ڈاکٹر فوق کریمی ، محترمہ ادا جعفری ، ڈاکٹر قمر رٸیس ، رام لعل جی ، حضرت خمار جی بارہ بنکوی ، حضرت اشفاق احمد ، حضرت مجروح سلطان پوری ، محترمہ الطاف فاطمہ محترمہ بانو قدسیہ اور جگن ناتھ آزاد جیسے مشاہیر ادب سے آنس معین کے ساتھ بچپن بلکہ آنکھ کھولنے اور ہوش سنبھالنے سے مراسم و روابط تھے ۔ جب کہ اپنے فنی سفر کے آغاز کے ساتھ ہی ان کے ڈاکٹر خورشید رضوی ، ڈاکٹر مقصود زاہدی، پرویز بزمی ، ڈاکٹر انور سدید ممتاز العیشی ، ڈاکٹر ہلال جعفری، غلام جیلانی اصغر ، اسلم انصاری، ارشد ملتانی ، ممتازاطہر ، راغب شکیب ، چوہدری عبدالرحمان ، سید سلطان احمد، شبنم رومانی اور مشفق خواجہ جی ، اینکر پرسن اور شاعر طارق عزیز ، شہزاد احمد شہزاد ، اسلم کولسری ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، ڈاکٹر طارق عزیز ، انجم اعظمی اور بہت سے دیگر نامور ادبا اور شعرا اس فہرست میں شامل ہیں
آنس معین نے سترہ برس کی عمر میں اپنے شعری سفر کا آغاز 1977 میں کیا۔ اس وقت ہم لوگ سرگودھا میں رہاٸش پذیر تھے۔ ہم نے آنس معین کو سرگودھا پریس کلب ، .58.سول لاٸینز (ڈاکٹر وزیرآغا صاحب کی رہاٸش گاہ) ، اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور کمشنر ریونیو جناب مرتضی برلاس صاحب کی رہاٸش گاہوں پر اور دیگر مقامات پر منعقدہ ادبی و شعری نشستوں اور دیگر تقریبات میں ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر خورشید رضوی ، مرتضی برلاس ، سجاد نقوی ، پرویز بزمی ، عبدالقدیر اشک ، انجم نیازی جیسی ممتاز ادبی شخصیات کی موجودگی میں آنس معین کو کلام پڑھتے ہوٸے ہم نے متعدد بار سنا۔ آنس معین کا شعری سفر کل نو برس جاری رہا۔
والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی طرح ان کے چاروں فرزندان (انجم معین بلے، عارف معین بلے ، آنس معین اور راقم السطور ظفر معین بلے) مشاعروں میں شرکت سے گریزاں رہے جبکہ تنقیدی نشستوں میں شرکت سے ہرگز گریزاں نہیں رہے۔
آنس معین اور آنس معین کی شاعری میں مخفی معانی و مفاہیم کی دریافت اور کھوج کا عمل تو جب سے ہی شروع ہوگیا تھا جب سے آنس معین کا کلام اعلی معیار کے ادبی جراٸد و رساٸل میں شاٸع ہونا شروع ہوا اور خیر سے مسلسل یہ عمل جاری ہے اور بے شک دریافت کے اس عمل کو جاری رکھنے میں پاک و ہند کے ممتاز ناقدین اور اعلی معیار کے ادبی جراٸد و رساٸل کے مدیران اور آنس معین کے معاصرین کا قابل رشک اور قابل صد ستاٸش حصہ ہے۔ ممتاز نقاد اور مدیر اوراق ڈاکٹر وزیر آغا نے ہی سب سے پہلے آنس معین کا کلام شاٸع کرنے کا آغاز کیا تھا اور بعد ازاں اوراق ہی میں ایک بھرپور گوشہ بھی شاٸع کرکے آنس معین کو خراج پیش کیا ۔ سینٸر اور ممتاز شاعر اور مدیر ماہنامہ محفل لاہور طفیل ہوشیارپوری نے آنس معین کےلیے دو مرتبہ خصوصی گوشہ مختص کیا اور محفل ہی کا ایک بھرپور شمارہ گویا کہ آنس معین نمبر شاٸع کیا ۔ ہفت روزہ آواز جرس لاہور
اور پندرہ روزہ انکشاف لاہور نے بھی آنس معین کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے خصوصی گوشوں کا اہتمام کیا۔
بھارت میں لکھنٸو سے شاٸع ہونے والے ماہنامہ ”معلم اردو“ لکھنٸو کہ جس کی مجلس ادارت میں ڈاکٹر قمر رٸیس جناب رام لعل جی جناب پروفیسر ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی شامل تھے اور اس کے مدیر جناب اظہار احمد انصاری تھے۔ فروری1992 میں آنس معین کی چھٹی برسی کے موقع پر معلم اردو لکھنٸو نے ایک شاندار آنس معین نمبر شاٸع کیا۔ آنس معین کو خراج پیش کرنے کےلیے اس اشاعت خاص میں مدیر ”معلم اردو“ لکھنٸو نے مختصر مگر جامع اداریہ بھی آنس معین کے ادبی مقام و منصب کے حوالے سے لکھا ۔ اس کے علاوہ آنس معین کی ایک نظم ، غزلیات اور فردیات آنس معین جبکہ حصہ نثر میں آنس معین کے والد سید فخرالدین بلے کا (غم زدہ باپ کا) خط ڈاکٹر وزیر آغا کے نام
سید فخرالدین بلے
غزل کا جواں مرگ شاعر۔آنس معین
(ڈاکٹرانورسدید)
اداس لمحوں کا شاعر (سجادمرزا)
آنس معین کی غزلیہ شاعری میں تخلیقی آگہی
(پروفیسرڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی)
روح کی منجھدھار کا شناور
(پروفیسر انورجمال)
شہید جستجو ۔ آنس معین
طفیل ہوشیارپوری کا اس مضمون
آنس معین کو ان کے بینک کی برانچ تک ڈراپ کرنے کے بعد ہم اپنے کالج کا رخ کرتے اور کالج سے سیدھے ہم آنس معین کی برانچ جاتے اور لنچ بریک میں انہیں لے کر گھر آجایا کرتے اور لنچ کرکے آنس معین پھر اپنے بینک روانہ ہوجاتے اور ہم گھر پر ہی اپنے معمولات مشغول ہوجاتے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے بڑے بھاٸیوں کے آفس ٹاٸمنگز مختلف تھے یہی وجہ تھی ہمیں ڈاٸنگ ٹیبل پر ایک ساتھ بیٹھ کر لنچ کرنے کا ہفتہ بھر میں بمشکل ایک یا دو مرتبہ ہی موقع میسر آتا تھا ۔ البتہ شام کی چاٸے یا ڈنر پر اکثر ہم سب ضرور ایک ساتھ ہوتے تھے۔
اور ویک اینڈ پر تو اکثر رت جگے کا بھی اہتمام ہوتا تھا۔
شام اور ڈنر کی نشست عموما“ شعری و ادبی نشست میں بدل جایا کرتی تھی ۔ جب آمنہ معین یا ناز معین کی جانب سے آنس معین کا کلام سننے کے لیے ان سے فرماٸش کی جاتی تو وہ کہتے کہ انجم بھاٸی کو بھی آنے دو یا ابھی سناتا ہوں عارف بھاٸی تو آجاٸیں۔ اس طرح وہ حسب مراتب کا خیال کرتے ہوٸے خود اپنا کلام سنا کر عارف بھاٸی اور انجم بھاٸی سے بھی کلام سنانے کی فرماٸش کرتے تھے۔
بظاہر تو آنس معین کی زندگی محض پچیس برس دو ماہ اور چھ سات روز کی کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن ایسا ہے نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے آنس معین کی زندگی کا سورج ظاہری طور پر گمان کیا جاتا ہے کہ غروب ہوچکا مگر اس کے باوجود آنس معین کا فنی اور شعری سفر آج بھی جاری ہے۔
آنس معین اور میں مسلم ہاٸی اسکول ملتان میں ایک ساتھ پڑھتے تھے ۔ جونیٸر اور سینٸر پراٸمری اور ہاٸی سیکشن ایک ہی چاردیواری میں مگر الگ الگ عمارتوں میں ہوا کرتے تھے بریک ٹاٸم ایک ساتھ شروع ہوا کرتا تھا ہم نے جگہ مخصوص کر رکھی تھی کہ بریک ہوتی ہی ہم ہیڈ ماسٹر چوہدری عبدالرحمن صاحب کے آفس کی کھڑکی اور نوٹس بورڈ کے قریب ملتے تھے۔ ہم فریش اورنج جوس لینے کے بعد گرم گرم بننے والے سموسوں یا جیرے کے چھولوں کا رخ کیا کرتے تھے اور یہ پندرہ منٹ انجواٸے کرنے کے بعد ضابطے کے مطابق آنس معین مسجد کا رخ کیا کرتے تھے (ضابطے کے مطابق ہاٸی اسکول کے طالب علموں کی مسجد میں حاضری کمپلسری ہوا کرتی تھی) اور ہم اپنے کیمپس کا ۔
فروری 1986 کی پہلی تاریخ کو والدہ ماجدہ مہر افروز بلے صاحبہ آمنہ معین سے بڑی اور آنس سے چھوٹی بہن ناز معین کے ہمراہ اپنی دو بڑی بیٹیوں سے ملنے کراچی کےلیے روانہ ہوٸیں اور ایک روز بعد یعنی دوسری فروری کو بابا جانی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سرکاری کام کی غرض سے اسلام آباد چلے گٸے۔ ان دنوں بڑے بھاٸی صاحب سید انجم معین بلے صاحب کی پوسٹنگ راولپنڈی آرٹس کونسل میں تھی۔ ملتان میں ہم چار بہن بھاٸی تھی عارف بھاٸی ، آنس معین ، آمنہ معین اور میں۔ سردی اپنے عروج پر تھی۔ کمروں ہیٹ جلاٸے بنا گزارہ نہیں تھا۔ مونگ پھلیاں چاٸے کافی اور آتش دانوں میں دھرے گیس ہیٹرز میں آگ کت شعلے اور مختلف موضوعات پر گفتگو شعر و شاعری اور پلیٸنگ کارڈز اور لوڈو کے دور چل رہے تھے۔ .4.فروری کو مغرب سے قبل عارف بھاٸی آنس معین کے کمرے میں گٸے تو وہ راٸٹنگ ٹیبل پر بیٹھے ہوٸے کچھ لکھ رہے تھے عارف بھاٸی کو دیکھ کر کچھ چونکے اور عارف بھاٸی کچھ کہے بنا باہر آگٸے کچھ ہی دیر بعد اتفاق سے میں ان کے کمرے میں گیا تب بھی وہ کچھ لکھنے میں ہی مصروف تھے۔ مجھے دیکھ کر بھی چونک پڑے اور میں یہ کہہ کر کہ آپ فارغ ہوجاٸیں تو تو باہر آجاٸیے گا ہم سب اکٹھے چاٸے پیٸیں گے ۔ شام کے بعد رات ہوٸی ڈنر کے ایک دو گھنٹے بعد بھی ہم سب ایک ہی جگہ پر تھے گرما گرم مونگ پھلیوں اور چاٸے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ شاعری کا دور بھی چلا اور گفتگو کا بھی۔ سب نارمل تھا آمنہ معین اور آنس معین کی آپس کی چھیڑ چھاڑ بھی معمول کا حصہ تھی کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا۔
البتہ .5.فروری کو بس صرف یہ بات خلاف توقع تھی کہ بریک فاسٹ کے ہمیں معلوم ہوا کہ آج آنس معین بینک نہیں جارہے بلکہ انہوں نے آج کی رخصت لے رکھی ہے۔ صبح کے کوٸی دس ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا تو دیکھا آنس معین کہیں جانے کےلیے تیار ہوٸے کھڑے ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بہاولپور جانے اور شام تک لوٹ آنے کا ارادہ ہے اور کچھ دیر بعد وہ روانہ ہونے لگے تو گلے ملے اللہ حافظ کیا ہم نے بھی جوشیلے انداز سے گلے مل کر ان کے شانے کا بوسہ لیا اور انہیں اللہ اور اہل بیت اطہار ع کے سپرد کیا۔
تقریبا“ دوپہر ایک بجے کا وقت ہوگا کہ جب ڈور بیل بجی تو ایک ٹریفک اور ایک پولیس کانسٹیبل کھڑھے ہیں اور اور وہ پوچھ رہے تھے کہ آنس معین صاحب یہیں رہتے ہیں ۔ ہم نے کہا جی ہاں فرماٸیے تب انہوں نے بتایا کہ آنس معین
البتہ .5.فروری کو بس صرف یہ بات خلاف توقع تھی کہ بریک فاسٹ کے ہمیں معلوم ہوا کہ آج آنس معین بینک نہیں جارہے بلکہ انہوں نے آج کی رخصت لے رکھی ہے۔ صبح کے کوٸی دس ساڑھے دس بجے کا وقت ہوگا تو دیکھا آنس معین کہیں جانے کےلیے تیار ہوٸے کھڑے ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بہاولپور جانے اور شام تک لوٹ آنے کا ارادہ ہے اور کچھ دیر بعد وہ روانہ ہونے لگے تو گلے ملے اللہ حافظ کیا ہم نے بھی جوشیلے انداز سے گلے مل کر ان کے شانے کا بوسہ لیا اور انہیں اللہ اور اہل بیت اطہار ع کے سپرد کیا۔
تقریبا“ دوپہر ایک بجے کا وقت ہوگا کہ جب ڈور بیل بجی تو ایک ٹریفک اور ایک پولیس کانسٹیبل کھڑے ہیں اور وہ پوچھ رہے تھے کہ آنس معین صاحب یہیں رہتے ہیں ۔ ہم نے کہا جی ہاں فرماٸیے تب انہوں نے بتایا کہ آنس معین صاحب کی ڈیتھ ہوچکی ہے۔ ہمارے اوسان خطا ہوگٸے۔ ہم گھر کے اندر آٸے عارف بھاٸی اپنے دفتر جانے کی تیاری میں مصروف تھے ہم میں اتنی ہمت تھی ہی نہیں کہ کچھ کہہ پاتے بس ہم نے عارف بھاٸی سے اتنا کہا کہ باہر کچھ لوگ آٸے ہیں ہم نہیں سمجھ پارہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ قصہ مختصر ان لوگوں نے ہماری موجودگی میں عارف بھاٸی کو وہی سب کچھ بتایا کہ جو کچھ ہوچکا تھا۔ ان لوگوں کو رخصت کرکے عارف بھاٸی نے کہا آٶ ظفر آنس کو لینے کےلیے چلتے ہیں بس تم آمنہ کو بتا دو ہم آنس کو لینے جارہے ہیں۔ میں نے کہا آمنہ کو نہ بتاٸیں آمنہ برداشت نہیں کرسکے گی۔ عارف بھاٸی نے مجھے سمجھاتے ہوٸے کہا اور اگر ہماری غیر موجودگی میں کسی نے آکر کچھ کہہ دیا تو ۔
بہر حال عارف بھاٸی نے کسی طرح ہمت کرکے آمنہ معین کو بتایا اور ہم نے اپنے پڑوس میں رہنے والی ہمساٸی سے جاکر کہا کہ آپ کچھ دیر کےلیے آمنہ معین کے پاس رہیں جب تک کہ ہماری واپسی نہ ہوجاٸے۔ اور یوں ہم دونوں بھاٸی تیسرے بھاٸی کولینے چلے گٸے۔ وہاں پہنچ کر کیا ہوا اس کی تفصیلات پھر کسی وقت قارٸین کی نظر کروں گا۔
اب سب سے بڑا مرحلہ یہ تھا آنس معین کی وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں آٸی بینک کو ڈونیٹ کرنے کےلیے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا تھا اور والدہ اور بہنوں کو کراچی اور والد گرامی اور بڑے بھاٸی صاحب کو اسلام آباد فون پر اس قیامت سے کہ جو ہم پر ٹوٹی تھی مطلع کرنا تھا۔ ڈاکٹرز نے آنکھیں عطیہ کرنے والی آنس معین کی خواہش اور وصیت کے جواب میں یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اب یہ ممکن نہیں تاخیر ہوچکی ہے۔ دوسرا مرحلہ والدین اور اعزا ٕ کو مطلع کرنے کا تھا جو اللہ جانے ہم نے کیسے طے کیا. والدین کو اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کی گٸی تھی باٸی ایٸر آنے کی کوشش نہ کیجے گا کیونکہ دھند کی وجہ سے فلاٸیٹس منسوخ ہورہی ہیں۔۔ گھر کے وسیع صحن برآمدے اور کمروں میں محبان بَلّے فیملی اور تعزیت کرنے والوں ایک جمِ غفیر تھا۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
سخت جاڑے کی ٹھٹرتی شام اور آنس معین کے دو بھاٸی اور ایک بہن پر کیا بیتی اور وہ کس حال میں تھے یہ بتانا بہت مشکل ہے البتہ یہ بتایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظریں دروازے پر گڑیں تھیں کہ کب آٸیں گے ان کے والدین
وہ رات کتنی اذیت ناک تھی اور کس قدر لرزہ خیز یہ بتانا ممکن ہی نہیں۔ الصبح سات بجے کے قریب والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے اور بڑے بھاٸی انجم معین بلے صاحب آٸے۔ ہم انہیں اپنے ساتھ صحن اور براآمدے سے گزرتے ہوٸے اندر کمرے میں لے آٸے انہیں پینے کےلیے پانی دیا اور ان کے عارضہ قلب کی میڈیسن۔ انہوں نے دوا لے کر پوچھا کہ مہرو(مہر افروز بلے) کب تک پہنچ رہی ہیں تو ہم نے بتایا بس ابھی کچھ ہی دیر میں ان کی آمد آمد متوقع ہے ۔ پھر ہم نے بہت ہمت کرکے پوچھا کہ آپ آنس بھاٸی کو دیکھنا چاہیں گے تو انہوں نے کہا نہیں ابھی نہیں ۔ اور اس کے بعد وضو کرنے لگے اتنی دیر میں جب ہم دوبارہ کمرے میں آٸے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے نماز کے بعد دعا کی۔ ہم نے سب منظر دیکھتے رہے پھر ہم سے رہا نہ گیا تو ہم نے پوچھا کہ آپ نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے بھیگی آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور فرمایا جی ہاں شکرانے کے نوافل ادا کیے ہیں ۔ ہم نے تعجب سے پوچھا شکرانے کے نوافل تو کہنے لگے جی ہاں پروردگار عالم کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ اللہ کی رضا میں ہی راضی رہنے کا حکم ہے۔ قیامت بھی ٹوٹ پڑے تو ختم المرسلین ص اور اہل بیت اطہار ع اور جناب بادشاہ مولا حسین ع کی اس سنت سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
غزل۔نمبر۔1۔ آنس معین
ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور
تردید تو کر سکتا تھا پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور
کیوں ترک تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور
ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور
لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم
جیتو گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
=======================
اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
غزل۔نمبر۔2۔ آنس معین
اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے
اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں
بازار میں خوشبو کے خریدار کہاں ہیں
یہ پھول ہیں بے رنگ بتا دیں تو کسے دیں
چپ رہنے کی ہر شخص قسم کھائے ہوئے ہے
ہم زہر بھرا جام بھلا دیں تو کسے دیں
========================
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
غزل۔نمبر۔3۔ آنس معین
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
========================
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
غزل۔نمبر۔4۔ آنس معین
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور
امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
======================
وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے
غزل۔نمبر۔5۔ آنس معین
وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے
بیٹھے بیٹھے ندی کنارے ڈوب گیا ہے
آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی
آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے
شور تو یوں اٹھا تھا جیسے اک طوفاں ہو
سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیا ہے
آخری خواہش پوری کر کے جینا کیسا
آنسؔ بھی ساحل تک آ کے ڈوب گیا ہے
=====================
یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
غزل۔نمبر۔6۔ آنس معین
یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا
تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی
ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہوگا
میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا
کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہوگا
پلٹ تو آئے گا شاید کبھی یہی موسم
ترے بغیر مگر خوش گوار کم ہوگا
بہت طویل ہے آنسؔ یہ زندگی کا سفر
بس ایک شخص پہ دار و مدار کم ہوگا
=======================
جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
غزل۔نمبر۔7۔ آنس معین
جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے
تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علہدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے
=========================
عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
غزل۔نمبر۔8۔ آنس معین
عجب تلاش مسلسل کا اختتام ہوا
حصول رزق ہوا بھی تو زیر دام ہوا
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا
کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا
ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں
عجیب قرض وراثت میں میرے نام ہوا
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
ہم اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں پچھتاوا
خیال لوٹ کے جانے کا گام گام ہوا
====================
باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
غزل۔نمبر۔9۔ آنس معین
باہر بھی اب اندر جیسا سناٹا ہے
دریا کے اس پار بھی گہرا سناٹا ہے
شور تھمے تو شاید صدیاں بیت چکی ہیں
اب تک لیکن سہما سہما سناٹا ہے
کس سے بولوں یہ تو اک صحرا ہے جہاں پر
میں ہوں یا پھر گونگا بہرا سناٹا ہے
جیسے اک طوفان سے پہلے کی خاموشی
آج مری بستی میں ایسا سناٹا ہے
نئی سحر کی چاپ نہ جانے کب ابھرے گی
چاروں جانب رات کا گہرا سناٹا ہے
سوچ رہے ہو سوچو لیکن بول نہ پڑنا
دیکھ رہے ہو شہر میں کتنا سناٹا ہے
محو خواب ہیں ساری دیکھنے والی آنکھیں
جاگنے والا بس اک اندھا سناٹا ہے
ڈرنا ہے تو انجانی آواز سے ڈرنا
یہ تو آنسؔ دیکھا بھالا سناٹا ہے
=================
ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے
غزل۔نمبر۔10۔ آنس معین
ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے
تمہاری یادوں کے ساتھ تنہا سفر کیا ہے
سنا ہے اس رت کو دیکھ کر تم بھی رو پڑے تھے
سنا ہے بارش نے پتھروں پر اثر کیا ہے
صلیب کا بار بھی اٹھاؤ تمام جیون
یہ لب کشائی کا جرم تم نے اگر کیا ہے
تمہیں خبر تھی حقیقتیں تلخ ہیں جبھی تو!
تمہاری آنکھوں نے خواب کو معتبر کیا ہے
گھٹن بڑھی ہے تو پھر اسی کو صدائیں دی ہیں
کہ جس ہوا نے ہر اک شجر بے ثمر کیا ہے
ہے میرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تو نے اتنا لمبا سفر کیا ہے
مرے ہی دم سے تو رونقیں تیرے شہر میں تھیں
مرے ہی قدموں نے دشت کو رہگزر کیا ہے
تجھے خبر کیا مرے لبوں کی خموشیوں نے!
ترے فسانے کو کس قدر مختصر کیا ہے
بہت سی آنکھوں میں تیرگی گھر بنا چکی ہے
بہت سی آنکھوں نے انتظار سحر کیا ہے
=======================
کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
غزل۔نمبر۔11۔ آنس معین
کتنے ہی پیڑ خوف خزاں سے اجڑ گئے
کچھ برگ سبز وقت سے پہلے ہی جھڑ گئے
کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں
تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے
اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے
وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے
سلجھی تھیں گتھیاں مری دانست میں مگر
حاصل یہ ہے کہ زخموں کے ٹانکے اکھڑ گئے
نروان کیا بس اب تو اماں کی تلاش ہے
تہذیب پھیلنے لگی جنگل سکڑ گئے
اس بند گھر میں کیسے کہوں کیا طلسم ہے
کھولے تھے جتنے قفل وہ ہونٹوں پہ پڑ گئے
بے سلطنت ہوئی ہیں کئی اونچی گردنیں
باہر سروں کے دست تسلط سے دھڑ گئے
======================
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے
غزل۔نمبر۔12۔ آنس معین
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے
اس شہر خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے
سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو کسے دیں
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں
جب ہاتھ ہی کٹ جائیں تو تھامے گا بھلا کون
یہ سوچ رہے ہیں کہ عصا دیں تو کسے دیں
============================
نظم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکہ
نظم نگار : ۔۔۔۔۔ آنس معین
زندگی کے طویل صحرا میں
اک شجر سایہ دار آیا تھا
جس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے
ایک لمحے کو رک گیا تھا میں
پھر یہ لمحہ ، جو ایک نقطہ تھا
جانے کیسے دراز ہونے لگا
کتنے موسم سمٹ گئے اس میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھی بدن کو سکون کی خواہش
لیکن اندر جو کوئی رہتا ہے
وہ جو لمبے سفر پہ نکلا تھا
اس نے بے چین کر دیا آخر
یہ تو ممکن نہ تھا کسی صورت
وہ شجر ساتھ چل سکے میرے
اس کی شاخوں کے ریشمی بازو
میرے قدموں کی بیڑیاں بن کر
مجھ کو آگے نہ بڑھنے دیتے تھے
اور اب تو یہ ہو چلا تھا یقیں
میرے اندر کا آدی بھی کبھی
اس کے بازو جھٹک نہ پائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اچانک
نہ جانے کیسے نظر
آگئے چند پاؤوں کے نقوش
جن کو دیکھا تو یہ خیال آیا
اس سے پہلے بھی ان گنت راہی
اسی رستے سے ہوکے گزرے ہیں
اسی سائے سے فیض یاب ہوئے
میں چلا جاؤں گا
تو میرے بعد
اور بھٹکا ہوا کوئی راہی
لمحہ بھر کو سکوں کا متلاشی !
===========================================================
نظم : ۔۔۔۔۔۔۔ عدم سے آگے
نظم نگار : ۔۔۔۔۔ آنس معین
وجود کیا ہے ؟
عدم سے پہلے کی ایک منزل
وہ لمحہ
جو منجمد ہے
محیط ہے ساری زندگی پر
گمان ہے کوئی یا حقیقت
کہ ایک پردہ ہے ، ڈھانپ رکھا ہے ، جس نے ساری حقیقتوں کو
وجود تو بس عدم کو جانے کا راستہ ہے
کہ جس کی جانب ازل سے ہر شے رواں دواں ہے
عدم کہا ہے ؟
عدم تو انجانی سمت میں ہے
وجود میں اور عدم میں شاید ہزار صدیوں کا فاصلہ ہے
یہ بے نشاں منزلوں کی جانب طویل سا اک سفر ہے کوئی
کسے خبر ہے ؟
وجود سے کب عدم کی سرحد میں ہوگا داخل
یہ کون جانے
عدم سے آگے بس ایک حد ہے
وہی ابد ہے
===========================================================
نظم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قامت
نظم نگار : ۔۔۔۔۔ آنس معین
عجیب معیار ہیں تمہارے
دہکتے سورج کی جس کسوٹی پہ
لوگ آتش فشاں کی حدت کو ناپتے ہیں
اسی کسوٹی پہ تم پرکھتے ہو
ٹمٹماتے چراغ کو بھی
تم آزماتے ہو آئینے کو بھی پتھروں سے
حساب کرتے ہو ، دامنوں کی نمی سے غم کا
تمہارے ٹھٹھرے وجود کا کیا مقابلہ ہے
خنک ۂوا اور چاندنی سے
عجیب معیار ہیں تمہارے
مگر میں انساں ہوں
تمہارے ہر اک معیار سے ہوں بڑھ کر
اگر کبھی تم کو یہ گماں ہو
میں پستہ قد ہوں
تو میری قامت کو ناپ لینا صلیب سے تم
=========================================
نظم =-=-=-=-=-= تو میرا ہے =-=-=-=-=-=-آنس معین
تو میرا ہے
تیرے من میں چھپے ہوئے سب دکھ میرے ہیں
تیری آنکھ کے آنسو میرے
تیرے لبوں پہ ناچنے والی یہ معصوم ہنسی بھی میری
تو میرا ہے
ہر وہ جھونکا
جس کے لمس کو
اپنے جسم پہ تو نے بھی محسوس کیا ہے
پہلے میرے ہاتھوں کو
چھو کر گزرا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
دستک دینے والا
ہر وہ لمحہ جس میں
تجھ کو اپنی تنہائی کا
شدت سے احساس ہوا تھا
پہلے میرے گھر آیا تھا
تو میرا ہے
تیرا ماضی بھی میرا تھا
آنے والی ہر ساعت بھی میری ہوگی
تیرے تپتے عارض کی دوپہر ہے میری
شام کی طرح گہرے گہرے یہ پلکوں سائے ہیں میرے
تیرے سیاہ بالوں کی شب سے دھوپ کی صورت
وہ صبحیں جو کل جاگیں گی
میری ہوں گی
تو میرا ہے
لیکن تیرے سپنوں میں بھی آتے ہوئے یہ ڈر لگتا ہے
مجھ سے کہیں تو پوچھ نہ بیٹھے
کیوں آئے ہو
میرا تم سے کیا ناطہ ہے
=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=-=
نظم =-=-=-=-=- دانشور کہلانے والو =-=-=-=-=-=-= آنس معین
دانشور کہلانے والو
تم کیا سمجھو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
تھل کے ریگستان میں رہنے والے لوگو
تم کیا جانو
ساون کیا ہے
اپنے بدن کو
رات میں اندھی تاریکی سے
دن میں خود اپنے ہاتھوں سے
ڈھانپنے والو
عریاں لوگو
تم کیا جانو
چولی کیا ہے دامن کیا ہے
شہر بدر ہو جانے والو
فٹ پاتھوں پر سونے والو
تم کیا سمجھو
چھت کیا ہے دیواریں کیا ہیں
آنگن کیا ہے
اک لڑکی کا خزاں رسیدہ بازو تھامے
نبض کے اوپر ہاتھ جمائے
ایک صدا پر کان لگائے
دھڑکن سانسیں گننے والو
تم کیا جانو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
دھڑکن کیا ہے جیون کیا ہے
سترہ نمبر کے بستر پر
اپنی قید کا لمحہ لمحہ گننے والی
یہ لڑکی جو
برسوں کی بیمار نظر آتی ہے تم کو
سولہ سال کی اک بیوہ ہے
ہنستے ہنستے رو پڑتی ہے
اندر تک سے بھیگ چکی ہے
جان چکی ہے
ساون کیا ہے
اس سے پوچھو
کانچ کا برتن کیا ہوتا ہے
اس سے پوچھو
مبہم چیزیں کیا ہوتی ہیں
سونا آنگن تنہا جیون کیا ہوتا ہے
========= آنس معین کے اشعار =========
==============================
ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے
=======================
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
=====================
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا
=======================
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
========================
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
=========================
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
=====================
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے
=========================
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
=================
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے
=================
گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے
=======================
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
========================
گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں
وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی
=====================
یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
======================
یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا
==========================
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
=========================
آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم
کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں
========================
میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے
=========================
گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں
==========================
اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
==========================
ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن
جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے
===========================
آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا
آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا
=======================
گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو
========================
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
===================
اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا
وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا
======================
درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا
=======================
میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
======================
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
=====================
تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر
کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد
=====================
یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا
۔======================
بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں
۔===================
Famous Poet Aanis Moeen
By; Zafar Moeen Balley Jafri
ہمارے پیارے بڑے بھاٸی = آنس معین
”خود میری کہانی بھی سناٸے گا کوٸی اور“
جواں مرگ ، شاعر کرب آنس معین کی چھبیس(26) سالہ زندگی
داستان گو: ظفر معین بلے جعفری