جوالنگر کی سکینہ
—————-
نسیم صدف سکینہ سے فیس بک پہ دوستی پوئے ابھی کچھ دن ہی پوئے تھے کی ایک دن چیٹ کرتے انڈیا کی تقسیم پہ گفتگو شروع ہو گئ اور انسانوں نے درندے بن کر ایک دوسرے کا جس طرح خون بہایا اور ایک محلے گاوں میں رپنے والی ماوں بہنوں کی جس طرح بے حرمتی کی جن سے راکھی بندهوائیں انہیں کے سروں سے چادریں اتاریں جن کی چھاتیوں کا دودھ پی کر جوان ہوے انہیں کو ہوس کا نشانہ بنا کر ان کی چاتیاں کاٹیں اور مذہب کے نام پہ ایک دوسرے کو قتل کر کے ان کی لاشیں سڑکوں پہ جانوروں کے کھانے کے لیے پھینک دیں
میں نے جوالنگر کے ایک مندر کا بتایا جہاں میں نے گھوڑے گدھے اور دوسرے جانور بندھے دیکھے تھے تو نسیم نے مجھے روک دیا اور پوچھا " مسعود تم جوالنگر کو کیسے جانتے ہو " نسیم میرا جوالنگر کے ساتھ چمٹے محلےسمن آباد میں جنم ہوا,پے " ایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ نسیم نے پوچھا کیا تمہارا تعلق سمن آباد سے ہے؟ میں نے جب ہاں میں جواب دیا تو چیٹ میں بھی میں نسیم کے چہرے پہ خوشی کو بھنگڑے ڈالتا دیکھ رہاتها
نسیم صدف سکینہ کا جنم سمن آباد کے محلے " سی ٹائیپ میں ہوا پے مگر جوالنگر میں سکینہ کے بہت سے رشتے دار رہتے تھے اس لیے وہ جوالنگر کی ایک ایک گلی اور ایک ایک درخت کو جانتی پے بس پھر پم جب بھی گفتگو کرتے تو سمن آباد کی کی گلیاں ہوتیں اور ہم پوتے — میں اگر اس حوض کا ذکر کرتا جو پتلی گھر اور ریلوے لائین کے قریب تھے جہاں تانگوں والے اپنے گھوڑوں کو پانی پلاتے تھے تو نسیم اس بوڑھ کے درخت کا ذکر چھیڑ دیتی ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ انگریزوں کے باغی جگے کو اس کے نیچے قتل کیا گیا تھا
جگا وڈیا بوڑھ دے تهلے
تے نو من ریت پیهج گئ
کبھی میں اور نسیم اس پکوڑے والے کے ٹھیلے سے پکوڑے کھانے لگ جاتے جو کبھی سمن آباد کے لڑکوں کے یائی سکول کے پاس ہوتا اور کبھی لڑکیوں کے سکول کے پاس چلے جاتا –؛سی ٹائیپ کے دکن سکول کے باہر بیٹھے چورن والے بابا سے پم نے چورن کو آگ لگا کر چورن کھایا اور میں نے بتایا کہ جب لڑکیاں مجھے اس بابے سے ایمبلی لانے کو کہتی تو میں رشوت کے طور پہ ان سے عجیب عجیب فرمائشیں کرتاتها
عرفان بک والے چچا عرفان کی پم دونوں کو ایک ایک بات یاد تھی کس طرح پم اس سے مفت پین کی نبیں ٹھیک کراتے تھے — نسیم نے بتایا کہ لڑکیاں مدنی مسجد کے قریب کھڑے بابے سے گول گھپے ضرور کھانے جاتی تھیں تو میں نے نسیم کو بتایا کہ جب لڑکیاں گول گھپے کھا رہی ہوتیں تو پم قریب کھڑے کوئی ایسی بات کہہ دیتے جس سے وہ ہنس پڑتیں اور گول گهپے کی ساری کهٹائی ان کےگریبان میں بہہ جاتی اور ہم بھاگ جاتے — نسیم کو سی ٹائیپ کے گرونڈ کا ایک ایک درخت یاد پے جہاں رات کو فیملیاں سیر کرتی تھیں اور کوڑیاں والا پل جوسمن آباد اور ڈی ٹائیپ کو ملاتا تھا —
کبھی کبھار ایسا پوتا پے کہ آپ اپنے شہر آتے پیں مگر شہر آپ سے روٹھا روٹھا رہتا پے شیر کے درخت گلیاں چورہاے آپ کو ملنے سے آپ کو پہچانے سے انکاری یو جاتے پیں اور آپ وہاں اس طرح پھرتے ہیں جیسے محبوب کے اجنبی شیر میں جہاں کی فضا آپ کو پہچان کر بھی پہچانے سے انکار کر دیتی پے — محبوب اور اپنے شہر میں خود کو اجنبی محسوس کرنے کا جو دکھ پے اس سے بڑا کوئی دکھ نہیں پے
اس دفعہ میرے ساتھ کچھ ایسا پی ہوا میں جس شہر کے گیت گاتا رپا اس دفعہ وہ خاموش تھا- کسی درخت کسی گلی کسی چورہاے نے میری آواز کا جواب نہ دیا اور میں اپنے خاموش شہرمیں زیادہ دیر رہ نہ سکا اور اسلام آباد چلا گیا مگر وہاں بھی ایک خاموش آواز نے مجھے چاروں اور گھیرے رکھا اور میں نسیم صدف سکینہ سے ملنے اس کے شہر ڈسکہ چلا گیا
میں جیسے ہی نسیم کے گھر داخل ہوا,لگا میں اور نسیم لائلپور کے سمن آباد میں داخل یوگے پهرہوا ہوں میں جو اپنے شیر میں رہتے ہوے وہاں اجنبی ریا نسیم سے ملتے ہی لائلپور نے قہقہے لگاتے مجھے اپنی باہنوں میں لے لیا میں اور نسیم سارا وقت جوالنگر اور سمن آباد میں میں پھرتے رہے — ڈسکہ میں بیٹھے لائلپور نے مجھ کو گلے لگا لیا یہ سب نسیم صدف سکینہ کی وجہ سے ہوا ورنہ میں یتیمی لے کر واپس سویڈن چلے جاتا
میں اس,کے لیے جہاں نسیم کا شکر گزار ہوں اس کے ساتھ میں نسیم کے خاوند آصف صاحب کا بھی شکر گزار ہوں
—————
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“