آج میں اس انسان کی کہانی بیان کرنے جارہوں جو یہ کہتا ہے کہ وہ ایک ملحد (Atheist)ہے۔جی ہاں آج ہم بات کرتے ہیں جاوید اختر صاحب کی ۔جاوید اختر صاحب کا نام ان کے والد نے جادو رکھا تھا ۔بعد میں یہ جادو سے لیجنڈری جاوید اختر بن گئے ۔موصوف 17 جنوری 1945 کو پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم بھی ایک معروف شاعر تھے ۔ان کا نام جانثار اختر تھا ۔جاوید صاحب کا نام جادو کیوں رکھا گیا تھا؟اس کی بھی ایک داستان ہے ۔ان کے والد صاحب نے ایک شعر لکھا تھا ،یہ شعر کچھ ایسا ہے ۔۔۔لمحہ لمحہ کسی جادو کا فسانہ ہوگا ۔۔۔معلوم نہیں کیوں جانثار اختر کو لفظ جادو پسند آیا اور انہوں نے جاوید اختر کا نام جادو رکھ دیا ۔پھر جب اسکول سے ہوتے ہوئے کالج جانے لگے تو سب نے کہا یہ کیسا نام ہے ۔اس پر جادو سے جاوید اختر ہوگئے اور آخری اطلاعات تک جاوید اختر ہی ہیں ۔لکھنوؤ کے ایک کالج میں تعلیم حاصل کی ،پھر علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔یونیوسٹی میں سب جان گئے تھے کی جاوید اختر ایک باصلاحیت ادیب و دانشور ہیں ۔ان میں بات کرنے کی صلاحیت اور طاقت منفرد اور انوکھی ہے ،اس لئے ہندوستان و پاکستان کے انسان انہیں پسند کرتے ہیں ۔کالج اور یونیورسٹی میں جاوید اختر کمال کی تقریریں فرماتے رہیں ہیں ۔اس لئے کئی تقریری مقابلے جیتے ۔جاوید صاحب ہمیشہ اپنی کلائی میں ایک کڑا پہنے رکھتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ کسی بہت ہی عزیز دوست نے انہیں یہ کڑا گفٹ کیا تھا ۔پھر کیا تھا دوست کا تحفہ ہمیشہ کے لئے کلائی کی زینت بنالیا ۔شاید کسی انٹرویو میں جاوید اختر نے اس کڑے کے بارے میں صرف یہ کہا تھا کہ وہ مرتے دم تک اس کڑے کو زیب تن کئے رکھیں گے ۔بہت ہی چھوٹی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔کہا جاتا ہے ان کے والد جانثار اختر نے ان پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی ۔اس کی وجہ شاید جانثار صاحب کی مصروفیت رہی ہوگی کیونکہ وہ خود اپنے زمانے کے بڑے شاعر تھے اور پھر شاعر تو مست ملنگ قسم کی مخلوق ہوتے ہیں ۔عشق و محبت میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ سب بھول بھال جاتے ہیں حتی کہ اپنے آپ کو بھی مشکل سے یاد رکھتے ہیں ۔ساٹھ کی دہائی میں جاوید صاحب ممبئی آگئے ۔مالی پوزیشن بدترین تھی ،غربت کی کیفیت کا عالم تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے فلموں کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے ۔لیکن ان کی غربت کی کہانی بہت ہی انوکھی اور منفرد تھی ۔کتابیں پڑھنے سے عشق تھا ۔ممبئی میں اندھیری اسٹیشن کے پاس سیکنڈ ہینڈ کتابیں بیچنے والے سے دوستی کر لی ۔یہاں سے کتابیں لیتے ،کمالستان اسٹوڈیو میں جاکر ان کتابوں کو اسٹڈی کرتے ۔کمالستان اسٹوڈیو رئیس امروہی کی تخلیق تھی ۔اسی اسٹوڈیو کے کسی کونے کھدرے میں سوتے تھے اور کتابیں پڑھتے رہتے تھے ۔غربت کو حوصلے سے ،محبت اور پیار کے ساتھ ساتھ تلخی سے برداشت کرتے رہے ،لیکن آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔بہت سے پروڈیوسروں نے دل توڑا ،کہا جاتا ہے کہ فلم کے ایک پروڈیوسر نے تو جاوید اختر کے منہ پر وہ اسکرپٹ دے مارا جو انہوں نے بڑی چاہت سے لکھا تھا ۔جاوید اختر یہ بے عزتی بھی برداشت کر گئے ،لیکن ہمت و حوصلہ نہ چھوڑا ۔بھارت کے سپر اسٹار سلمان خان کے والد سلیم خان کے ساتھ کسی فلم کے سیٹ پر دوستی ہو گئی ۔پھر کیا تھا سلیم خان اور جوید اختر کی جوڑی بن گئی جسے سلیم جاوید جوڑی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔اس جوڑی نے پھر وہ کمال دیکھائے کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے ۔ان دونوں نے پھر کمال سکرپٹ رائیٹنگ کا مظاہرہ کیا ۔ایک سے بڑھ کر ایک فلم لکھی گئی اور ان میں سے بہت ساری فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئی ۔انداز۔۔۔۔سیتا اور گیتا۔۔۔۔۔۔۔شعلے ۔۔۔۔۔ڈان ۔۔۔۔۔ان تمام فلموں کے پیچھے سلیم جاوید کی تخلیقی صلاحتیں تھی ۔دونوں تقریبا کوئی تیرہ سال تک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ۔ایک سے بڑھ کر ایک سپرہٹ فلمیں آئیں ۔یادوں کی بارات ۔۔۔۔۔زنجیر ۔۔۔۔۔۔ہاتھ کی صفائی ۔۔۔۔۔دیوار۔۔۔۔مسٹر انڈیا ۔۔۔۔۔یہ سب فلمیں تو پاکستان اور بھارت میں تقریبا ہندی سینما دیکھنے والے دیکھ چکے ہیں ۔سلیم خان اور جاوید اختر نے ان فلموں سے پیسہ بھی بنایا اور خوش شہرت بھی سمیٹی ۔پھر 1982 کے بعد دونوں کسی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ۔وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے دوستی میں دڑار آئی اور ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا ۔۔اس بات کی بریکنگ نیوز کبھی سامنے نہیں آسکی ۔اب جاوید اختر صاحب کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔اس کے بعد جاوید صاحب نے ایسے ایسے گانے لکھے کہ ہر طرف جاوید صاحب کی دھوم تھی ۔ان کی شادی ایک اداکارہ ہنی ایرانی کے ساتھ ہوئی ،ہنی ایرانی صاحبہ سے ان کے دو بچے ہیں ایک کا نام ہے جاوید اختر اور دوسری ہیں زویا اختر ۔دونوں بالی وڈ فلم انڈسٹری میں بہت مقبول ہیں ۔ان دونوں کو بالی وڈ کے تخلیقی آرٹسٹوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔۔۔ کچھ وجوہات کی بناء پر ہنی ایرانی اور جاوید اختر صاحب ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ،مطلب دونوں میں طلاق ہو گئی اور پھر جاوید صاحب کی شادی کیفی اعظمی کی بیٹی اور معروف اداکارہ شبانہ اعظمی سے ہو گئی ۔ جاوید اختر ،شبانہ اعظمی ،فرھان اختر اور زویا اختر اب بالی وڈ کی شان اور جان ہیں ۔اب جاوید اختر صاحب کی شاعری ،ان کے خیالات اور نظریات پر کچھ بات کر لیتے ہیں ۔اس کہانی کا آغاز جاوید صاحب کی ایک نظم سے کرتے ہیں ۔۔۔نظم کچھ یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہ کہو ۔۔۔۔۔۔کچھ بھی نہ کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہنا ہے ،کیا سنناہے ۔۔۔۔۔۔تم کو پتہ ہے ۔۔۔۔۔مجھ کو پتہ ہے۔۔۔۔۔سمے کا یہ پل تھم سا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔بس ایک میں ہوں ۔۔۔۔بس ایک تم ہو ۔۔۔۔جاوید صاحب کی نظموں کے دو مجموعے ہیں ۔۔۔ایک کا نام ہے ترکش اور دوسرے کا نام ہے لاوا ۔۔۔۔کبھی موقع ملے تو ضرور پڑھیئے گا ۔۔۔۔جاوید صاحب کی ایک نظم مجھے بہت پسند ہے ۔۔دل کررہا ہے وہ بھی سنادوں ،ملاحظہ کیجیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے مخالف نے چال چل دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب میری چال کے انتظار میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔مگر میں کب سے سفید خانوں سیاہ خانوں میں رکھے کالے سفید مہروں کو دیکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں ،یہ مہرے کیا ہیں ۔۔۔۔۔۔اگر میں سمجھوں کہ یہ جو مہرے ہیں صرف لکڑی کے ہیں کھلونے ۔۔۔۔۔تو جیتنا کیا ہے ہارنا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔نہ یہ ضروری نہ وہ اہم ہے ۔۔۔۔۔۔۔اگر خوشی ہے نہ جیتنے کی اور نہ ہارنے کا کوئی غم ہے ۔۔۔۔۔۔تو کھیل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ جو کھیلنا ہے تو اپنے دل میں یقین کر لوں ۔۔۔۔۔۔یہ مہرے سچ مچ کے بادشاہ و وزیر۔۔۔۔سچ مچ کے ہیں پیادے ۔۔۔۔۔اور ان کے آگے ہے دشمنوں کی وہ فوج ۔۔۔۔۔۔رکھتی ہے جو مجھ کو تباہ کرنے کے سارے منصوبے سب ارادے ۔۔۔۔۔۔مگر جو ایسا میں مان بھی لوں ۔۔۔۔۔تو سوچتا ہوں یہ کھیل کب ہے ۔۔۔۔۔یہ جنگ ہے جس کو جیتنا ہے ۔۔۔۔۔۔یہ جنگ ہے جس میں سب ہے جائز ۔۔۔۔۔۔۔کوئی مجھ سے کہتا ہے جیسے یہ جنگ بھی کھیل بھی ہے۔۔۔۔۔یہ جنگ ہے پر کھلاڑیوں کی ۔۔۔۔۔۔یہ کھیل ہے جنگ کی طرح کا ۔۔۔۔۔۔۔کہ کوئی مہرہ رہ کہ جائے ۔۔۔۔۔۔۔مگر جو ہے بادشاہ اس پر ۔۔۔۔۔کبھی کوئی آنچ بھی نہ آئے ۔۔۔۔وزیر ہی کو ہے بس اجازت کہ جس طرف بھی وہ چاہے جائے ۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں جو کھیل ہے ۔۔۔۔اس میں اس طرح کا اصول کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔پیادہ جو اپنے گھر سے نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلٹ کے واپس نہ جانے پائے ۔۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں اگر یہی ہے اصول ۔۔۔۔۔۔تو پھر اصول کیا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر یہی ہے یہ کھیل ۔۔۔۔۔۔تو پھر کھیل کیا ہے ۔۔۔۔۔میں ان سوالوں سے جانے کب سے الجھ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے مخالف نے چال چل دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور اب میری چال کے انتظار میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تھی جاوید صاحب کی وہ نظم جس سے شاید ہم میں سے کسی کو کوئی اہم بات سمجھ آجائے ۔۔آجائے تو ٹھیک ہے نہیں تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔اب میں لاوا میں سے ان کی ایک اور نظم سنا دیتا ہوں ۔یہ نظم بھی معنی خیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جینا مشکل ہے کہ آساں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرا دیکھ تو لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ لگتے ہیں پریشاں ۔۔۔۔۔۔۔زرا دیکھ تو لو۔۔۔۔۔۔یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں پرانا ہوا ویراں زرا دیکھ تو لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم بھی رہ جاؤ گے حیراں ۔۔۔۔۔۔۔زرا دیکھ تو لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی شاید نکل آئے کوئی پہچاں زرا دیکھ تو لو ۔۔۔۔۔۔۔یہ ستائش کی تمنا یہ صلے کی پروا۔۔۔۔۔۔کہاں لائے ہیں ارماں زرا دیکھ تو لو ۔۔۔۔۔۔اب جاوید اختر صاحب دلی میں رہتے ہیں اور راجیا سبھا کے ایم پی ائے ہیں ۔۔جاوید صاحب نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کچھ نایاب باتیں کی تھی ۔۔۔اس کہانی میں وہ باتیں بھی آپ بھائی بہنوں کو سنا دیتا ہوں ۔جاوید صاحب کہتے ہیں پاکستان اور بھارت کی انسانیت میں انصاف کو درست اور تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ان دونوں ملکوں کو انصاف کے بہترین نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد سیکولرزم اور لبرل ازم پر رکھنے کی ضرورت ہے ۔اگر ان دونوں ملکوں میں سیکولرزم سے لبریز اسمارٹ انصاف آگیا تو پھر کرپشن رکے گی ورنہ ایسے ہی دونوں دیشوں میں کرپشن رہے گی ۔۔۔امید ہے پاکستان کے کپتان خان جاوید صاحب کی اس بات کو ضرور سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایجوکیشن بہت بڑا ایشو ہے ،دونوں ملک بجٹ کا دس فیصد حصہ ایجوکیشن پر خرچ کریں ۔۔اور بچوں کو معیاری ایجوکیشن دی جائے ۔۔۔اگر ایجوکیشن کا نظام مساویانہ اور لبرل بنیادوں پر قائم کیا جائے گا تو جمہوریت میں حسن آئے گا اور ایک بہترین اور معیاری جمہوریت کا احیاء ہو گا ۔جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایجوکیشن کے نام پر نصاب میں زہر بھرا گیا ہے اور یہی حال اب بھارت کا ہے ۔اس لئے بچوں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت جہالت پڑھائی جارہی ہے اور وہ بھی ایجوکیشن کے نام پر ۔دونوں دیشوں کے نصاب میں زہر بھرا جارہا ہے ۔انسانیت کے نام پر فراڈ کیا جارہا ہے ۔تعلیم کے نام پر مذہب پڑھایا جارہا ہے اور انتہا پسندی کی یہی وجہ ہے ۔ایجوکیشن میں لبرل جسٹس لانے کی ضرورت ہے ۔سیکولر اور لبرل انصاف اور تعلیم ہی سے دونوں ملکون کی پریشانیاں ختم ہوں گی اور پھر سب اچھا ہو جائے گا ۔اردو زبان کے حوالے سے جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اردو کو دونوں ملکوں میں قتل کیا جارہا ہے ۔یہ جیتی جاگتی اور اچھی ویلیوز سے بھرپور زبان ہے لیکن اس کے ساتھ پچھلے سو برسوں سے ظلم ہورہا ہے۔معلوم نہیں کیوں ان ظالموں کو سمجھ نہیں آتی کہ زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی ۔زبان کا تعلق ریجن سے ہوتا ہے ۔اردو مسلمانوں یا ہندووں کی زبان نہیں نہ ہی یہ ہندواور اسلام کی زبان ہے ۔اردو کے بارے میں یہ گمراہ کن پروپگنڈہ ہورہا ہے کہ یہ کسی مذہب کی زبان ہے ۔برطانوی سامراج نے دو قومی نظریہ کے دوران اردو کو مسلمانوں کی زبان بنادیا تھا ۔اس پروپگنڈے کو آج تک بیچا جارہا ہے ۔اور یہ پروپگنڈہ آج بھی پاکستان اور بھارت میں ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔اردو کو زبردستی مسلمانوں کی زبان بنایا گیا ہے ۔اردو بنیاد پرستی کے خلاف ہے ۔۔لبرل ویلیوز والی زبان ہے ۔یہ ایک غیر مذہبی زبان ہے ہولی دیوالی اور عید وغیرہ پر اردو میں بہت اچھی شاعری کی گئی ہے ۔۔یہ کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ۔اس زبان میں عشق ہے ،محبت ہے اور موسم ہیں ۔اس زبان میں تاریخی واقعات پر کمال شاعری کی گئی ہے ۔اردو ادب میں عصمت چغتائی ہیں ،بیدی ہیں ،مجاز ہیں ،فیض ہیں ،سردار جعفری ہیں ،جانثار اختر ہیں ،ساھر ہیں ،ان تمام انسانوں کی شاعری ترقی پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔غالب ،کرشن چندر،کی زبان کیسے کسی مذہب کی زبان ہو سکتی ہے ۔یہ ترقی پسند اور لبرل زبان ہے ۔لیکن معلوم نہیں کیوں اس زبان کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی زبان کہا جاتا ہے ۔جاویدصاحب فرماتے ہیں زبان اسکرپٹ نہین ہوتی ۔زبان گرائمر اور فقرے کا نام ہے ۔اردو زبان ہندوستان کی عظیم دھرتی کی زبان ہے ۔یہ کبھی بھی بادشاہوں اور نوابوں کی زبان نہی رہی ۔مغل درباروں کی زبان اردو نہین تھی ۔اکبر کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ اردو بھی کوئی زبان ہے ۔جہاں جہاں اردو ہے وہاں وہاں انسانوں میں مزاح کی حس ہے ۔پنجابی زبان میں بھی اردو کا اثر ہے اسی وجہ سے پنجابی میں بھی حس مزاح کا عنصر غالب ہے ۔حس مزاح ان انسانوں میں ہوگا جہاں جہاں انسانوں کا اردو سے کوئی رشتہ ہوگا ۔جاوید صاحب کی ایک اور نظم ہے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہے وہ بھی سنا دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔جدھر جاتے ہیں سب ۔۔۔۔۔۔۔جانا ادھر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔غلط باتوں کو خاموشی سے سننا۔۔۔۔۔۔حامی بھر لینا ۔۔۔۔۔۔بہت ہیں فائدے اس میں ۔۔۔۔۔۔مگر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔مجھے دشمنوں سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے۔۔۔۔۔۔کسی کا بھی ہو قدموں میں سر،سراچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔۔بلندی پر انہیں مٹی کی خوشبو تک نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ شاخیں ہیں جن کو شجر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔یہ کیوں باقی رہے ۔۔۔۔۔آتش زنو یہ بھی جلادو ۔۔۔۔۔۔کہ سب بے گھر ہوں اورمیرا ہو گھر اچھا نہیں لگتا ۔۔۔۔یہ تھے جاوید صاحب اور یہ ہے ان کی کہانی ،اچھی لگے تو شکریہ ،نہ لگے تو بھی شکریہ ۔اپنے نقطہ نظر سے ضرور آگاہ کیجیئے گا ۔شکریہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...