جون ایلیا کو رخصت ہوئے 15 برس بیت گئے۔
وہ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے اور 8 نومبر 2002ء کو کراچی میں وفات پائی۔
انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا۔ اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں لکھا:
"میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
اب کچھہ اور شعر
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
زندگی ایک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھہ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا
شام کو اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھہ ڈوبنے لگتا ہے
تم مجھہ کو اتنا نہ چاہو میں شاید مر جاؤں گا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھہ مرے بیان میں کیا
مجھہ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
جون ایلیا معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔
ان کی شاعری کے 6 مجموعے شائع ہوئےشاید، 1991۔ یعنی، 2003۔ گمان، 2004۔ لیکن، 2006۔
گویا، 2008۔ فرنود، 2012
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“