(Last Updated On: )
یوسفی نےکہاتھا
ایک زمانےمیں جب ہم جوان تھےاور جون ایلیابالکل ایسےہی تھے جیسےکہ اب ہیں توہم رسالوں میں ان کی غزلیں یہ سمجھ کربڑے شوق اور بےتابی سےپڑھتےتھےکہ یہ کسی آوارہ اینگلوانڈین لڑکی کا کلام ہے
___
صاحب ہمیں (اپنی) بھری جوانی میں جون ایلیا کی بابت ایسا کوئی مغالطہ نہیں رہا
سو جون کو پڑھنےمیں کسی بے تابی کا ہم دعویٰ نہیں کرتے
پہلی کتاب جسکوہمارے ہاتھ لگے وہ ان کا مجموعہ تھا ’شاید‘
ایک کالجیٹ رومانویت کی مسیں ابھی بھیگنا شروع ہی ہوئی تھیں
کیا بام پرآئے دن تھے کہ جون کی ان منہ زوررباعیوں سے صحن چمن میں آگ لگ جایاکرتی تھی
شرم دہشت جھجھک پریشانی ۔۔۔
یا پھر وہ آٹھ برس کی عمرمیں کہا گیا جون کا پہلا شعرجو یوسفی کی روایت کے طفیل ہم تک پہنچا
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی میرے رخسارکی
صاحبو بہت پرانی بات نہیں ہے
ہم آدمجی سائنس کالج کراچی میں گیارہویں کے پڑھاکوطالبعلم تھے
گرومندر بس سٹاپ کے پاس مزارقائد کے زیرسایہ اسلامیہ کالج کےعین سامنےگلوب چورنگی سے ایک ذیلی سڑک جگرمرادآبادی روڈ کےنام سے بندرروڈ تک جاتی ہے۔
‘کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے’ والے جگر مرادآبادی کے نام سے موسوم اسی پرسوز روڈ پر اسلامیہ کالج سے چند قدم کے فاصلے پر علامہ اقبال پبلک لائبریری تھی جو الحمدللہ آج بھی ہے۔
یہاں سےامی کےشناختی کارڈکی ضمانت پرکتابیں مل جایاکرتی تھیں
آج یہ سوچ کرحیرت ہوتی ہےکہ کیابھلازمانہ تھا لائبریری سےکتابیں مستعارلینے کے لیے اپنی شناخت گروی رکھوانی پڑتی تھی
ہمیں یاد پڑتاہےآدمجی کالج کےدو سالوں میں اماں کاشناختی کارڈ مستقل علامہ اقبال لائبریرین کی درازمیں مقفل رہا اردو ادب سےہماری آنکھ مچولی کی ابتدا امی کی شناختی دستاویز کی مرہون منت ہے
کہہ لینےدیجیےہماری ادب شناسی کےسفرمیں اماں کامقام ومرتبہ قرۃ العین حیدر والا ہے
دیکھیےبات سےبات نکلتی چلی گئی۔ کہہ ہم یہ رہےتھےکہ جون کےکلام سےہماری اول اول کی محبت علامہ اقبال پبلک لائبریری میں پروان چڑھی منظربدلتاہے
پاکستان ملٹری اکیڈمی کے سیکنڈ ٹرم کے کیڈٹ کو یوم آزادی کی چھوٹی سی تقریب میں عبیدہ کمپنی کے اینٹی روم میں مائیک میسرآگیا تو اردو دانی کے رعب میں لتھڑی کچھ ترکیبیں سامعین کو گرماگئیں۔
‘تم نے کبھی جو کے تخم سے گندم کو طلوع ہوتے دیکھا ہے! ‘
‘تاخیرسے ہی سہی تمہاری ٹرینیں پلیٹ فارم تک پہنچ تو جاتی ہیں! ذرائع نقل وحمل کو حرکت کی آزادی تو میسر ہے!’
صاحبو! یہ نثرپارےجون ایلیا کےلاجواب انشائیوں سےمستعارلیےگئے ٹکڑے تھے
جون کی شاعری سے بڑھ کر ہم جس کاوش سےمتاثرہوئےوہ تھے انکے انشائیے
سسپنس ڈائجسٹ سے ہمارا ماہانہ یارانہ تھا
اور سسپنس کا آغازہی جون کے یک صفحی انشائیے سے ہوتا تھا
تحریر کی کاٹ اوراندازبیان، صاحب پڑھنے اور سر دھننے کا مقام تھا
کچھ جملے تو لوح دل پرایسے نقش ہوئے کہ آج تک یاد ہیں
___
جون کی برسی پر انہیں یاد کرتے ہمارےدوست ندیم افضل
@clickonnadeem
نے جون کو فقہ اداسی کا امام لکھاہے۔
فقہ اداسی میں تو ہم کچھ خاص درک نہیں رکھتے البتہ مرشدی و آقائی یوسفی کی زبانی جون کے فقرکا ایک قصہ یاد آرہا ہے۔
اپنی ذاتی زندگی کے مصائب وشدائد بیان کرتے ہوئے جون ایلیا یوسفی صاحب سے کہنے لگے کہ میرے پاس اب پینتیس کرتے اور ایک پاجامہ رہ گیا ہے ۔۔۔
یوسفی نے عرض کیا اسے بھی کسی کو بخش دیجیے تاکہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو!
___
صاحبو!جون کی برسی پر ہم نے انہیں یاد کیا۔ اگر آج بھی جون کی آواز کانوں کو بھلی لگتی ہے اور اس کے لفظ دل کے تاروں پہ ویسا ہی کاری وارکرتے ہیں تو جان لینا چاہیے کہ جون ہرزمانے کا شاعرہے اس سدابہار ہستی کی یاد کو زوال نہیں
اس کی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
ہمارے صاحب طرز شاعرسے خدا اور اس کا رسول ﷺ راضی ہوں۔ آمین