شریف آدمی عمر رسیدہ اور پریشان تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ زندگی کا کیا پتہ، رگِ جاں کس وقت کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے۔ اس ملک میں ہر شریف آدمی کی یہی خواہش ہے کہ اس کے بچوں کو کچہری اور تھانے کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور وہ اپنی زندگی ہی میں جو کچھ اس حوالے سے کر سکتا ہے، کر جائے۔ یہ شریف عمر رسیدہ آدمی بھی کچہری پہنچا اور متعلقہ اہلکار سے درخواست کی کہ وہ اپنا مکان اپنے اکلوتے بیٹے کے نام کرانا چاہتا ہے۔ اہلکار نے اُسے دیکھا۔ دیکھا کیا، اس کا جائزہ لیا۔ کچہری کا اہلکار جائزہ لیتا ہے تو سائل کی مالی حیثیت کا اندازہ فوراً لگا لیتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ اہلکار پہنچے ہوئے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ سر سے لے کر پائوں تک دیکھنے کے بعد اس نے بتایا کہ پچیس ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ عمر رسیدہ شخص حیران ہوا…’’مگر میں مکان خرید یا بیچ نہیں رہا۔ میرا اپنا مکان ہے اور کاغذات پر بیٹے کے نام منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ پچیس ہزار روپے کیوں؟‘‘ اہلکار نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے سائلوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ عمر رسیدہ شخص کچھ دیر وہاں کھڑا رہا اور پھر واپس آ گیا۔
ہمارے شہری دوستوں کو قطعاً اندازہ نہیں کہ گائوں سے تعلق رکھنے والے لوگ رشتوں، خاندانوں، برادریوں، دوستیوں اور دشمنیوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ دیہاتی زندگی میں کوئی چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔ مزارع کی بھینس مر جائے تو چوہدری صاحب کو بھی جانا ہوتا ہے اور زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانا ہوتا ہے۔ ایک لڑکا افسر بن جائے تو پورے گائوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ’’ہم‘‘ نے پڑھا لکھا کر اسے افسر بنایا ہے۔ گائوں سے آئے ہوئے ملاقاتی کو چائے نہ پلائے، کھانا نہ کھلائے، اس کا کام نہ کرے تو گائوں میں محشر بپا ہو جاتا ہے اور اگلی بار افسر جب گائوں جاتا ہے تو ہر طرف سے شکووں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ہم پنجاب کے دیہاتی کہا کرتے ہیں’’لیں جی! ڈاکخانہ مل گیا‘‘ ۔ اس شریف عمر رسیدہ شخص کا تعلق بھی برادری کے حوالے سے ہمارے علاقے سے تھا! چنانچہ اس نے ’’ڈاکخانہ ملایا‘‘ اور ایک صبح ایک مشترکہ عزیز کو ساتھ لیے پہنچ گیا۔ اتفاق سے اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر (یعنی ڈی سی او صاحب) سے صاحب سلامت تھی۔ فریاد کی تو انہوں نے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو حکم دیا۔ چنانچہ واجبی سی سرکاری فیس کے ساتھ کام ہو گیا۔
یہ ہے ہماری کچہریوں کا حال! یعنی محکمۂ مال کا! جسے لینڈ ریونیو
(Land Revenue)
کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل(کرپشن بیرومیٹر 2013ء) کے اعداد و شمار پڑے ہیں۔ بدعنوان ترین محکمہ یہی لینڈ ریونیو کا محکمہ ہے۔ اس کے بعد پولیس اور
Utilities
کے محکمے آتے ہیں۔ سروے کے دوران 75 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ سب سے زیادہ کرپشن کچہریوں میں ہے۔ اس میں پٹواری، تحصیلدار سب شامل ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ زمیندار یا وڈیرا جب وزیر بنتا ہے تب بھی پٹواری کی ’’خدمت‘‘ جاری رکھتا ہے اس لیے کہ وہ جو اقبال نے کہا تھا ع
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
تو جاگیردار وزیر بن جائے یا سفیر، اس کی رگِ جاں محکمہ مال ہی کے پنجے میں رہتی ہے! ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی کرپشن کا رونا رویا جاتا ہے، سیاست دانوں سے لے کر پولیس تک، کسٹم سے لے کر ماہی گیری تک، ترقیاتی اداروں سے لے کر جہازوں کی خرید و فروخت تک، سب کو برہنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نہیں ذکر ہوتا تو کچہریوں میں ہونے والی کرپشن کا ذکر نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے حکومتوں نے اور عوام نے اور کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اداروں نے ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ کچہریوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ’’معمول‘‘ کی کارروائی ہے۔ یا وہ ایک لحاظ سے اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ناقابلِ اصلاح ہے۔ ضلعی انتظامیہ میں جو افسر فوج سے آئے، ان میں سے چند ایک نے ضرور کوشش کی کہ محکمہ مال کا قبلہ درست کیا جائے مگر پورا سیٹ اپ ان کے خلاف تھا۔ ایک شخص کیا کر سکتا ہے اور کتنا کر سکتا ہے۔ یوں بھی ایسے افسر کو جلد کسی ’’بے ضرر‘‘ عہدے پر لگا دیا جاتا ہے۔
صدر پرویز مشرف نے ضلعی ناظم کا ڈول ڈالا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ انگریزوں کی قائم کردہ روایت سے بغاوت تھی۔ انگریزوں نے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ اس لیے قائم کیا تھا کہ وہ ہر حال میں ملکہ برطانیہ کا وفادار رہے۔ اس کی اصل ڈیوٹی ضلع کے عوام کی خدمت نہیں تھی بلکہ انگریزی اقتدار کا استحکام تھا۔ یہ الگ بات کہ یہ انگریز ڈپٹی کمشنر محنتی تھے اور انصاف قائم کرنے میں دلچسپی لیتے تھے۔ ان لوگوں نے خوب محنت کی۔ مقامی زبانیں سیکھیں، ہر ضلع کی تاریخ، جغرافیہ اور سماجی حالات مرتب کر کے ضلعی گزٹ تصنیف کیے اور شائع کیے۔ پاکستان بنا تو ڈپٹی کمشنر نے یہ سارے کام چھوڑ دیئے۔ وہ سیاست دانوں کو خوش کرنے میں لگ گیا۔ کسی ضلع کا گزٹ بھی 1947ء کے بعد آگے نہیں بڑھا۔ ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ ووٹ اس نے لینے نہیں۔ تین سال رہنا ہے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ تعلق وہ صرف ضلع کے چیدہ چیدہ عمائدین سے قائم رکھتا تھا جو اس کے کیریئر کی تعمیر میں کام آ سکتے تھے۔
ضلعی ناظم کا ادارہ وجود میں آیا تو یہ ایک اجالے کی کرن تھی۔ ناظم کو معلوم تھا کہ اس کا جینا مرنا اسی ضلع میں ہے۔ اس نے اپنے ووٹروں کو بھی منہ دکھانا تھا۔ اپنی ساکھ بھی بنانی تھی۔ شہرت بھی داغدار ہونے سے بچانی تھی اور ضلعی اسمبلی میں اپوزیشن کا سامنا بھی کرنا تھا۔ اگر ضلعی حکومتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اگر ناظم حضرات تربیتی مراحل سے گزرتے رہتے۔ تجربہ حاصل کر جاتے تو اس ملک کی قسمت بدل جاتی۔ کہاں تین سال بعد غائب ہونے والا بابو ڈپٹی کمشنر اور کہاں شلوار قمیض اور چپل پہننے والا ناظم جس کا سب کچھ اسی ضلع میں تھا۔ یہ کالم نویس شدید احساسِ ذمہ داری کے ساتھ دعویٰ کر رہا ہے کہ اگر ضلعی حکومتیں زندہ رہتیں تو کچہریوں میں کی جانے والی کرپشن کا، جلد یا بدیر، سدباب ہو جانا تھا مگر افسوس! سیاست دانوں نے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضلعی ناظم کو چلتا کیا اور یس سر یس سر کا راگ الاپنے والی نوکرشاہی کو دوبارہ ضلع کا بادشاہ بنا ڈالا۔ گویا اکیسویں صدی سے ملک واپس کلائیو اور کرزن کے زمانے میں پہنچ گیا۔ انڈونیشیا میں کسٹم کے شعبے میں جب کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اس ملک نے ایک عجیب و غریب حل نکالا۔ اس نے کسٹم کے شعبے کی نجکاری کر دی۔ سوئٹزر لینڈ کی ایک فرم کو یہ کام سونپ دیا گیا۔ اس فرم کے دفاتر دنیا کے بہت سے ملکوں میں تھے۔ اس کے ملازمین درآمدات اور برآمدات کی قیمت کا تعین کرنے کے ماہر تھے۔ طریقِ کار یوں تھا کہ فرض کیجیے، انڈونیشیا کے ایک تاجر نے جاپان سے مال منگوایا۔ یہ فرم جاپان میں اس مال کا معائنہ کرے گی اور تصدیق کرے گی کہ مال بیچنے والی جاپانی کمپنی اتنی ہی قیمت مانگ رہی ہے جو جاپان کی منڈی میں ہر جگہ مانگی جا رہی ہے۔ پھر وہ اس مال کی مالیت کا حساب لگا کر مال کو سربمہر کر دے گی اور انڈونیشیا کی حکومت کو اپنے طور پر کاغذات بھیجے گی جس میں مالیت کا اندراج ہو گا۔ اور یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ درآمد کرنے والے سے کسٹم محصول کتنا لیا جائے گا۔اس عمل کا نام Pre-shipment Inspection
تھا۔ یوں کسٹم کے اہلکاروں کے اختیارات برائے نام رہ گئے۔ وہ اپنے طور پر مال کی قیمت کم یا زیادہ کر سکنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اس طرح بہت حد تک بدعنوانی کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد میں اس نظام کا کیا بنا اور صدر سوہارتو کے خاندان کی رسوائے زمانہ بدعنوانی کس طرح آڑے آئی، یہ ایک الگ داستان ہے جس کا آج کے موضوع سے تعلق نہیں۔
کچہریوں میں عام پاکستانی سسک رہا ہے۔ بلک رہا ہے۔ نائب قاصد سے لے کر پٹواری تک، قانون گو سے لے کر تحصیل دار تک، اور اس سے ’’اوپر‘‘ تک ایک باقاعدہ لمبا چوڑا ’’سلسلہ‘‘ ہے جو چلا آ رہا ہے، جڑیں جس کی گہری ہیں او رشاخیں جس کی فضا میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ انتقال تو بعد کی بات ہے، محکمہ مال سے فرد لینا جان جوکھوں کا کام ہے۔
اس کا ایک ہی علاج ہے۔ نجکاری! نجی شعبے کی کسی نیک نام کمپنی کو یہ کام سونپیے۔ ایک تو وہ لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کر دے گی۔ جسے پٹواری جان پر کھیل جائے گا مگر نہیں ہونے دے گا۔ پھر وہ کمپنی ہر کچہری میں اپنا کائونٹر قائم کرے۔ سائل وہاں جائے ،سرکار کی طرف سے مقررہ فیس ادا کرے اور کمپنی سارا کام کر کے، ایک مقررہ تاریخ کے اندر اندر سائل کے حوالے کرے۔ رہا یہ اعتراض کہ ایسی کمپنی بھاری معاوضہ لے گی۔ تو جو رقم اہلکاروں کی جیبوں میں جا رہی ہے، یہ ’’بھاری‘‘ معاوضہ اس سے کم ہی ہو گا۔ کہیں کم!!
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسا انقلابی قدم اٹھانے کے لیے مہاتیر یا لی کوآن یو، جیسے رہنما درکار ہیں۔ اور مہاتیر اور لی جیسے رہنما بازار سے نہیں ملتے ع
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔