جَتھّے ہیں جو ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں اور قبیلہ وار لڑ رہے ہیں۔ جیسے یہ ملک نہیں، چراگاہ ہے جس میں خانہ بدوشوں کے کئی گروہ باہم برسرپیکار ہیں۔ خانہ بدوش جن کے خیمے خچروں پر لدے ہیں اور وہ اس وقت خیمے گاڑ کر سکون سے بیٹھیں گے جب دوسرا گروہ غارت ہو جائیگا!
جنگ و جدل کرنے والے یہ جتھّے ان پڑھ چرواہوں پر مشتمل نہیں۔ نہ ہی یہ تاتاری ہیں نہ قازق۔ درد کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی جتھّہ ڈاکٹروں کا ہے، کوئی وکیلوں کا ،کوئی قانون ساز عوامی نمائندوں کا اور کوئی ان کا جو بظاہر اسلام کا پھریرا لہرا رہے ہیں۔ عبرت کا مقام ہے۔ آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو… خدا کیلئے عبرت حاصل کرو، وقت بہت کم ہے۔ ہر وہ سرزمین جہاں جتھّے آپس میں دست و گریبان ہوں، اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہے۔
میرا صاحبِ اسلوب کالم نگار دوست کہتا ہے کہ یہ سرزمین رمضان کی ستائیسویں کو وجود میں آئی تھی، اسے کچھ نہیں ہوسکتا! افسوس! ہم شام کا تارا چمکتا دیکھ کر بھی اصرار کرتے ہیں کہ یہ صبح ہے! اللہ کی سنت کبھی نہیں بدلتی۔ کیا مدینہ کی ریاست سے زیادہ مقدس ریاست کوئی ہوسکتی ہے؟
کیا میسور کی سلطنت خداداد نہیں تھی؟ لیکن اللہ کی سنت تبدیل نہ ہوئی۔ کائنات کی مقدس ترین ہستیؐ احد کے میدان میں موجود تھی لیکن مسلمانوں کو غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اورنگ زیب عالم گیر کا ایک فرزند باپ کے مرنے کی دعائیں مانگتا تھا۔
اورنگ زیب نے اسے خط لکھا۔ اقبال نے پیام مشرق میں اس خط کو نظم میں ڈھال کر امر کردیا آخری شعر ہے…؎
مپندار آن کُہنہ نخچیر گیر
بدامِ دعائی تو گردد اسیر
خوش فہمی کا عارضہ لاحق ہو تو یہ نظم یعنی یہ خط اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
خدا کی قسم! ملک جتھوں میں بٹ چکا ہے، جو ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ایسا لیڈر نہ ابھرا جو ان جتھوں کو پھر سے قوم بنا دے، تو خرابی ہی خرابی ہے!
دمشق میں پاکستانی سفیر نے سرکاری سکول کو ذاتی بلکہ خاندانی جاگیرمیں بدل ڈالا۔ ہفتوں سے یہ خبر پریس میں آرہی ہے اور مسلسل آ رہی ہے۔ وزیرمملکت فرماتے ہیں کہ :
’’ہم نے رپورٹ منگوائی ہے، اس کے بعد پوزیشن واضح ہوگی‘‘ ۔
سینیٹر پروفیسر خورشید نے ایوان کی توجہ دمشق کے سکول سے برطرف کئے گئے اساتذہ کی حالتِ زار کی طرف دلائی جہاں سفیر نے اپنے رشتہ دار تعینات کر دیئے ہیں، اسرار اللہ زہری پروفیسر خورشید سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ خبر میں درج خواتین کے نام ایوان میں نہ لائو، یہ ہماری عزت کیخلاف ہے۔ ایک اور معزز رکن نے فرمایا کہ یہ خبر ہی درست نہیں ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا، قانون پامال ہوا یا اقربا پروری کی ساری حدیں پھلانگ لی گئیں، سوال یہ ہے کہ بلوچ، بلوچ کی غلطی کو غلطی ماننے کو تیار نہیں! یہ قبائلی جتھہ ہے!
وکیل سول جج کو تھپڑ رسید کرتا ہے۔ بار سے اس کی رکنیت معطل ہوتی ہے لیکن دوسرے دن بحال ہو جاتی ہے۔ وکیل اس کی غلطی کو غلطی نہیں مانتے۔ ایک وکیل کے سر پر گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کا خون ہے لیکن عدالت میں وکیل اس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو افریقہ کے نیم وحشی قبائلیوں کا ہوتا ہے۔ مدعی کو ہراساں کیا جاتا ہے، میڈیا کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ وکیلوں کا جتھّہ ہے۔ سنا ہے یہ قانون کے رکھوالے ہیں!
لاہور کے ہسپتال میں ساٹھ سالہ مریضہ مبینہ طور پر ڈاکٹروں کی غفلت کا شکار ہو کر زندگی کا کھیل ہار جاتی ہے اس کے اعزہ احتجاج کرتے ہیں۔ پریس کے نمائندے اس حادثے کی تفصیل جاننے کیلئے پہنچتے ہیں اور متعلقہ ڈاکٹروں کا موقف جاننا چاہتے ہیں۔ انہیں آگے سے پتھر اور گالیاں پڑتی ہیں۔ زد و کوب کیا جاتا ہے، کیمرے توڑ دیئے جاتے ہیں، میموری کارڈ تباہ کردیئے جاتے ہیں۔ وین ڈھانچہ بنا دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ایکا کرکے ایمرجنسی وارڈ بند کردیتے ہیں۔ یہ ڈاکٹروں کا جتھہ ہے۔ سنا ہے یہ ملک کی کریم ہے اور ان کا کام مسیحائی ہے!
ایک یونیورسٹی کے (جس پر اسلام کی چھاپ لگی ہوئی ہے) دو طالب علم بس سٹینڈ کی کارگو سروس پر آتے ہیں اوراپنے دو بیگ رکھنے کا کہتے ہیں عملہ بتاتا ہے کہ ملک میں سکیورٹی کے مخدوش حالات کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ طالب علم اصرار کرتے ہیں عملہ بار بار معذرت کرتا ہے۔ تو تو میں میں تک نوبت پہنچتی ہے۔ دونوں طالب علم واپس چلے جاتے ہیں۔ رات گیارہ بجے پچاس ساٹھ ڈنڈا بردار طلبہ اندھیرے سے نمودار ہوتے ہیں اور بس سٹینڈ پرحملہ کردیتے ہیں اور دفتر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ یہ ان طلبہ کا جتھہ ہے جو اسلام کا پھریرا لہرا رہے ہیں۔
جعلی ڈگری رکھنے والے عوامی نمائندے کو عدالت عالیہ اختیار دیتی ہے کہ استعفیٰ دے یا زنداں خانے کا عزم کرے۔ وہ استعفیٰ دیتا ہے اور اتنے بڑے جرم کی سزا پائے بغیر گھر کا رخ کرتا ہے لیکن اس کا ساتھی کہتا ہے کہ عدالت نے زیادتی کی۔ ایم این اے کی بے عزتی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ عوامی نمائندوں کا جتھہ ہے۔
یہ تاجر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تاجر کے سر پر تاج ہے۔ یہ انکم ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت اصرار کرے تو دکانیں بند کردیتے ہیں۔ ہڑتال کردیتے ہیں۔ خریدار ان سے رسید کا تقاضا کرے تو بُرا مناتے ہیں اور بڑ بڑاتے ہیں۔ پوری مہذب دنیا میں خریدا ہوا مال واپس بھی ہوجاتا ہے اور تبدیل بھی۔ یہاں ان کے سر پر تاج رکھنے والوں نے تین تین گز لمبے اور دو دو گز چوڑے بینر دکانوں پر لگا رکھے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس ہوگا نہ تبدیل… زبانی کہیں گے کہ سال کی گارنٹی ہے، تحریری گارنٹی مانگیں تو ایک گھنٹہ تقریر کریں گے اور گاہک کو ذلیل و خوار کرکے اس کے گُردے بازار کے بیچ لٹکا دیں گے۔ یہ تاجروں کا جتھہ ہے!
جتھّے…جتھّے ہی جتھّے۔
آٹا غائب کرنے والوں کا جتھہ، چینی مہنگی کرنے والوں کا جتھہ، ملاوٹ کرنے والوں کا جتھہ، جعلی دوائیں بنانے والوں کا جتھہ۔
جتھّے ہی جتھّے
http://columns.izharulhaq.net/2010_04_01_archive.html
“