جشن آزادی مبارک
آج کا پاکستان آزادی کے بعد جنم لینے والی اس نسل کے ہاتھ میں ہے جو ظاہری طور پر اپنے اجداد سے زیادہ خواندہ ہے، آس پاس کی دنیا کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے، زیادہ جدید سوچ رکھنے کی دعویدار ہے۔
اور اس کو اس تمام خواندگی کے باوجود جن سچائیوں کا ادراک ہونا چاہئیے وہ انتہائ مخدوش نظر آتا ہے ۔
پاکستان کا دو قومی نظریہ اتنا مبہم اور اس انداز سے ان تک پہنچایا گیا ہے کہ وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی پاکستان کی آزادی دراصل اسلام کو درپیش خطرات کی بناء پر عمل میں آئ ۔
ایک خواب جس کو علامہ اقبال سے جوڑا جاتا ہے وہ بھی سوائے دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہی ۔ ان کے کئ خطوط موجود ہیں جن میں انہوں نے اس خواب کی کہانی کو جھٹلایا ہے ۔
ایک اور کہ پاکستان کے مطلب کا شوشہ کہُ لا الہ اللہ یعنی کلمہ ہی اس کا اصل مفہوم ہے ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے آخری اجلاس میں جب ایک شخص نے یہ نعرہ بلند کیا تو قائد اعظم نے واضح طور پر کہا کہ نہ میں نے نہ ہی ایسی کوئ قرار داد پاس کی کہ ایسا کہا جائے کہ پاکستان کا مطلب کیا – آپ نے ہو سکتا ہے چند ووٹس لینے کے لئے ایسا نعرہ بلند کیا ہو – قائد کے اس بیان کے باوجود یہ نعرہ اب تک چل رہا ہے – جس کی جز آتی سے آگے کی بھی وجوہات ہیں جو سوائے کدورت اور تقسیم کے کچھ اور نہی – یہ نعرہ سیالکوٹ کے ایک اسکول ٹیچر اصغر سودائ کی اختراع بتایا جاتا ہے –
پھر پاکستان کیا ۱۴ اگست کو آزاد ہوا تھا یا ہونا تھا ؟
جو آزادی جون ۱۹۴۸ کو ملنی تھی وہ کیوں اگست ۱۹۴۷ میں سونپ دی گئ ؟ ۲۰ فروری کو ۱۹۴۷ کو برطانوی پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹمی نے بتایا تھا کہ برٹش انڈیا کے آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہوں گے اور جون ۱۹۴۸ تک برطانیہ والے برٹش انڈیا کو خیر باد کہیں گے – اس تمام میں تاریخ کے بہت سے راز پناہ ہیں یہ واضح ہے کہ کم از کم جولائ ۱۹۴۷ تک بھی اس قدر بڑے پیمانے پر مزہبی بنیادوں پر انتقال آبادی کا کسی کو خیال بھی نہ تھا – بلکہ اگر مزہبی منافرت نہ پھیلتی تو آبادی کا اس قدر بڑے پیمانے پر ان خلاء بھی نہ ہوتا مگر ہیرالڈ میک مِلن جولائ ۱۹۴۷ میں ہی اسے مزہبی تقسیم گران رہے تھے –
ڈان کے مرحوم ایڈیٹر احمد علی خان کے بقول مسلم اقلیتی صوبوں سے تو محض پانچ فیصد لوگ ہی پاکستان آئے – جبکہ پنجاب سے ۲۸ فیصد کا بتایا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مزہبی بنیادوں پر آبادیوں کای منتقلی یا عوام کی ہجرت کا سوال تو کسی بھی ہندوستانی جماعت کے ایجنڈے پر مارچ ۱۹۴۷ تک نہی تھا – بہر حال یہ ایک طویل بحث اور اس پر تحقیق انتہائ اہم ہے –
شاہِ انگلستان نے اٹھارہ جولائی انیس سو سینتالیس کو جس ’انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ‘ کی توثیق کی اس کے مطابق انڈیا سے پندرہ اگست کو برطانوی اقتدار ختم ہوجائے گا اور دو آزاد مملکتیں وجود میں آجائیں گی۔
چودہ اگست کو وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کراچی پہنچے اور دستور ساز اسمبلی کے سامنے شاہِ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا۔اقتدار کی منتقلی کی اس دستاویز پر دستخط کئے جس کا اطلاق نصف شب بارہ بجے سے ہونا تھا۔
چودہ اگست کی شب گیارہ بجے لاہور ، پشاور اور ڈھاکہ سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ختم ہوگئیں اور بارہ بجے شب لاہور ریڈیو سٹیشن سے ظہور آزر اور ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے کلیم اللہ نے انگریزی میں اعلان کیا ’دس از پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس‘ جبکہ پشاور ریڈیو سٹیشن سے یہی اعلان آفتاب احمد بسمل نے اردو میں کیا۔
پندرہ اگست کی صبح پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس سے بانیِ پاکستان کا پہلا پیغام نشر ہوا جس کے آغاز میں ہی کہا گیا کہ میں پاکستان کی آزاد اور خودمختار مملکت کے پہلے دن پندرہ اگست کے موقع پر پوری قوم کو تہہ دل سے مبارک باد دیتا ہوں۔ (بانیِ پاکستان کا یہ خطاب آج بھی قومی آرکائیوز اور یو ٹیوب پر موجود ہے)۔
پندرہ اگست کی صبح ہی بانیِ پاکستان سےلاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبدالرشید نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف لیا اور پھر گورنر جنرل نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور انکی چھ رکنی کابینہ سے حلف لیا۔
ثابت کیسے کریں کہ
برطانوی پارلیمان اور بادشاہ کے توثیق شدہ انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے مطابق پاکستان چودہ اگست کو وجود میں آنا تھا اور بھارت پندرہ اگست کو آزاد ہونا تھا۔
اگر پاکستان چودہ اگست کو وجود میں آیا تو پھر ایسا کیوں ہوا کہ چودہ اگست کی رات گیارہ بجے تک مسلسل تئیس گھنٹے ایک آزاد پاکستان کے تین ریڈیو سٹیشنوں سے ’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے‘ گونجتا رہا۔
۱۹۴۷ میں جب ہندوستان کی تقسیم مکمل ہو گئی تو قائداعظم اس نوزائیدہ ریاست جس کا نام’’ پاکستان ‘‘ تھا اس کے پہلے گورنر جنرل منتخب کر لئے جاتے ہیں اس موقع پر قائد اعظم نے ریاست، نظریہ پاکستان اور امور ریاست پر ایک خطاب فرمایا اس خطاب کو قائد اعظم کا قانون ساز اسمبلی کا پہلا خطاب بھی کہا جاتا ہے بلا شبہ یہ خطاب عالمی طور پربھی بے حد مقبول ہوا تھا قائد اعظم نے اس خطاب میں مختلف امور جن میں ریاست، مذہبی آزادی، قانون کی حکمرانی اور مساوات کو نہایت عمدہ طریق سے بیان کیا اور اسی خطاب میں جناب جناح نے مذہب اور ریاست کو الگ الگ پیش کیا ۔ گویا 11 اگست 1947 کے خطاب میںآپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کیسا ہوگا میں اس تقریر کا کچھ حصہ لکھتا ہوں کہ آپ کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں۔
” اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت اوراقلیت ، صوبہ پرستی اور فرقہ بنددی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی
۔اگست 1947ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:
You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. (2)
’’تم آزاد ہو۔ تم آزاد ہو کہ تم اپنے مندروں میں جاؤ۔ تم آزاد ہو کہ تم اپنی مساجد میں جاؤ یا اس ریاست پاکستان میں کسی اور عبادت گاہ میں جاؤ۔ اس کا کوئی تعلق ریاستی معاملات سے نہیں ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر قائد نے فرمایا:
In any case Pakistan is not going to be a theocratic State to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslims –Hindus, Christians, and Parsis –but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan. (3)
کسی بھی صورت میں پاکستان ایک Theocratic State نہیں ہو گا جو Priests کے ذریعے دیومالائی مقصد کے تحت چلائی جائے گی۔ ہمارے ہاں بہت سے غیر مسلم ہیں جیسے ہندو، نصاریٰ اور پارسی لیکن وہ تمام پاکستانی ہیں۔ وہ یکساں حقوق اور رعایتوں کے مستحق ہوں گے، دوسرے شہریوں کی طرح، اور اپنا جائز کردار پاکستان کے معاملات میں ادا کریں گے۔
جناح صاحب نے کہا فوج کا کام صرف جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور منتخب حکومتوں کے احکامات کی بجا آوری ہے۔ فوج کو سیاست سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے
۔
آج ۲۰۱۸ میں پاکستان میں جب مزہبی منافرت اور اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک روا ہے جس کی سوچ نہ کسی کو تھی اور اس میں مسلسل بدتری پیدا کی جارہی ہے – آج اللہ کے قانون خاتم النبین پر ایک آمر یا فوجی ڈیٹیکٹر کے انسانی قانون جس کو ختم نبوت کہا جاتا ہے اس کے زریعے مزہبی رواداری کی پامالی عروج پر اور نہ صرف اس قانون کے غلط استعمال بلکہ اس میں غیر مسلموں کی سزا کو شریعہ سے مختلف طے کیا گیا ہے –
آج جب پاکستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل پزیر ہے جس کو پچھلے بیس سالوں سے ایک غیر مستقل مزاج گرد انا جاتا ہے جس نے باقاعدہ انتہا پسند طالبان کے کرتا دیتا لوگوں کو کروڑوں کی ادائیگیاں ں کی ہیں – آج ایک ایسا وزیر اعظم جس پر ماضی میں طالبان خان کا سلو گن دیا گیا اور جس نے ملک کے متعدد علاقوں میں فقہ جعفر یہ کے سینکڑوں لوگوں کے قتل پر کبھی اپنی واضح تعزیت نہ کی اور نا ان قاتلوں کی مزمت کی – آج کے کا ندھوں پر پاکستان کی وزارت عظمی کا تاج ہے اور اس کی سیاسی سوچ ہر لمحہ بدلتی رہی وہ ملک میں انسانوں کے وجود کو ماننے کا داعی ہے مگر اس کی عملی سوچ مختلف رہی ہے – پاکستان کا یہ یوم آزادی ۱۴ اگست ا دو ھزار اٹھا رہ انتہائ اہم ہے کہ ہم اکہتر سالوں کے بعد اس مقام پر آچُکے ہیں کہ اب بھی عوام کی رائے کا احترام مفقود اور وہ ادارے جو خلائ مخلوق جانے جاتے تھے آج دنیا بھر میں ان پر تنقید ہے کہ انہوں نے تین لاکھ اکہتر ہزار فوج کی موجودگی میں ایک واضح سلیکشن کیا اور ملک کی زوال پزیر اور جمہوریت کی ناگفتہ بہ حالت کو مزید مخدوش کر دیا ہے –
آج پاکستان میں ہماری نوجوان نسل جتنی غیر سیاسی سوچ کی حامل مگر پاکستان کے لئے متحرک ہے اس کو ایک واضح پروگرام کی ضرورت ہے ورنہ نفرت کی سیاست کہیں بہتر واں یوم آزادی مشکل میں نہ ڈال دے اور یہ نوشتہ دیوار مقتدر ادارے اپنی ہٹ دھرمی اور اپنے منظم ہونے کی رعونت میں کہیں پشتون و بلوچ اور سندھ ہی نہی مگر اب پنجاب میں اٹھتے سیاسی و مزہبی انتشار کو روکنے میں ناکام ہو – لہٰزا زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبوں اور قومیتوں کو ان کے حقوق اور ان کی آزادی جمہور و موقف کو آئینی طور سے مستحکم کریں ورنہ آج کے مقبول نعرے کہ یہ جو دھشت گردی اور دھاندلی ہے اس کے پیچھے وردی ہے اس سے عدلیہ اور مقننہ مجروح تر ہو چکی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔