یہ دو ہزار چھ کا قصہ ہے کہ معروف صحافی ، نقاد ، محقق استاذالاساتذہ ، قادرالکلام شاعر اور ہمارے لیے انتہائی قابل احترام جناب فضیل جعفری صاحب نے ہر ملاقات میں ادب و معرفت کی انوکھی اور حیران کر دینے والی معلومات فراہم کرنے کی روایت کی پاسداری فرماتے ہوئے جناب شبنم رومانی کی زیر ادارت شائع ہونے والے اقدار کراچی کا ایک شمارہ عطا فرمایا کہ جس میں حضرت امیر خسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے کا نیا رنگ کے عنوان کے تحت پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کے مضمون کا اقتباس اور اس کے ساتھ سید فخرالدین بلے کا سات سو سال بعد تخلیق کردہ رنگ اہتمام سے شائع کیا گیا تھا۔ دوران ملاقات ہم نے انتہائی عاجزی سے جناب پروفیسر فضیل جعفری صاحب سے عرض کیا کہ تسلی سے تو اس کا مطالعہ ہم گھر جا کر ہی کریں گے لیکن فی الحال پانچ سات منٹ کےلیے اجازت درکار ہے کہ ہم اس پر ایک نظر ڈال لیں۔ پروفیسر فضیل جعفری صاحب نے مسکرا کر ہماری جانب دیکھا اور فرمایا ضرور ، ضرور ۔ پانچ سات منٹ میں ہم نے جلد بازی میں اس کا مطالعہ کرلیا۔ اس کے بعد پروفیسر صاحب اور ہم دیر گئے اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے اور پروفیسر فضیل جعفری صاحب نے سید فخرالدین بلے کے تخلیقی کمالات پر بھرپور روشنی ڈالی۔ بے شک پروفیسر فضیل جعفری کا شمار انگریزی ادبیات کے ہر دلعزیز اساتذہ اور ناقدین میں کیا جاتا ہے لیکن اردو ادب پر ان کی اس قدر گہری نظر ہے کہ جس کی مثال مشکل ہے۔ پروفیسر فضیل جعفری نے سید فخرالدین بلے کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شعری پیرایۂ اظہار اختیار کیا ان کے یہ دواشعار ان کے جذبوں کی ترجمانی بھرپور کرتے نظر آئے۔
کنور ، فراق ، جگر ، بلے اور خمار نہیں
ادب کی مانگ میں پہلا سا وہ سنگھار نہیں
اور اب دوسرا شعر بھی ملاحظہ فرمالیں ، اس میں انہوں نے جگر ، فراق ، خمار اور بلےچاروں کو محبتوں کے ساتھ یاد کیا ہے۔
مِری نظرسے ہی دیکھ لوتم مقام چاروں کاکم نہیں ہے
یقین جانو کہ معتبر ہیں جگر ، فراق اور
خمار ، بلے
ہمارے ایک ہم مکتب کہ جن سے ہمارا ادبی موضوعات پر اکثر تبادلہ خیال بھی رہا کرتا تھا نے ایک روز ہم سے دریافت کیا کہ یہ قول ترانہ کیا ہوتا ہے اور کیا یہ صرف عربی اور فارسی ادب کی صنف ہے ؟ ساتھ ہی انہوں نے ہمیں ایک لنک بھی فراہم کیا کہ جس میں قول ترانہ ۔ سید فخرالدین بلے ، سات صدیوں کے بعد سید فخرالدین بلے کا تخلئقی معجزہ تھا اور اس کے ساتھ چند جیّد مذہبی اسکالرز اور مشائخ کی اس تاریخی عجوبے ، اس قول ترانے اور اس کے عظیم خالق سید فخرالدین بلے کے حوالے سے آراء یکجا کی گئی تھیں۔ ہم نے بلا تاخیر لنک کی مدد سے اس کی ہارڈ کاپی محفوظ کرلی۔ متعدد بار اس کا مطالعہ بھی کیا اور پھر استاد گرامی جناب پروفیسر فضیل جعفری صاحب سے صلاح و مشورے کے بعد ہم نے ایک تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا۔ ہمارے بہت سے سینئرز نے بھی اس مقالے کو پسند فرما کر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ قول ترانے کا قصہ یہاں تمام نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے تو قول ترانے کا معاملہ ٹیک آف ہوتا ہے۔ ہمارے بھارت کے ہی ایک مہان اسکالر اور ایسے محقق کہ جو اپنی مثال آپ ہیں جناب علامہ سید کلب حسن نونہروی صاحب کہ جو گزشتہ کئی برسوں سے ایران کے شہر قُم میں سکونت پذیر ہیں۔ ابتدا میں تحصیل علم کے سلسلے میں اور بعدازاں بسلسلۂ تدریس۔ جناب سید کلب حسن نونہروی قمی صاحب نے ایک نہایت عمدہ اور اعلی ترین مقالہ حضرت امیر خسرو دہلوی کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے کا نیا قول ترانہ ، معرفت کا انمول خزانہ ، سپرد قلم فرما کر اس کو سلطان القول کا عنوان دیا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ہم نے سات صدیوں بعد سید فخرالدین بلے کا تخلیقی معجزہ کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور مقالات کا انتخاب کرکے ، پھر ان منتخب شدہ مضامین سے چند اقتباسات یکجا کرنے کی ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے لیکن اس سے قبل سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ شاندار اور ایمان افروز شعر ملاحظہ فرمائیے
مباہلہ و مواخات و ذوالعشیر کی بات
یہ ابتداء ہے تو پھر انتہا غَدیر کی بات
سید فخرالدین بلے
یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں قوالی کے بانی حضرت امیرخسرودہلوی کے سات سو سال بعد نیا قول ترانہ محترم سید فخرالدین بلے نے تخلیق کیا ۔اور یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سید فخرالدین بلےقادرالکلام شاعر ،مایہ ء ناز ادیب،معروف دانشور،پنجتن پاک کی محبت و عقیدت سے سرشار اسکالر،دیدہ ور محقق،مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کی سیرت،شخصیت، خدمات اور ان کی روح پرور تعلیمات سے مزیّن کتاب ۔ولایت پناہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ کے مصنف و محقق اور اسلامی حوالے سے ایک اور بڑی کتاب ۔فنون ِ لطیفہ اور اسلام ۔کے خالق بھی ہیں ۔من کنت مولاہ فعلی مولاہ ، کاورد کرنے والے سیّد فخر الدین بَلّے نے مدینۃ الاولیاء ملتان میں قیام کے دوران امیر خسرو کےسات سو سال بعد نیا قول ترانہ تخلیق کرنے کا تاریخ سازکارنامہ انجام دیا ۔جس کی دھوم پاکستان ، ہندوستان ، عراق ،ایران ہی میں نہیں ،دیس دیس میں مچی رہی ۔اور اب بھی مچی ہوئی ہے۔ یہ مجموعی تاثر ہے تمام معروف مکاتب ِ فکر کے نامورعلمائے کرام ، اور روحانی مسالک کے جید مشائخ ِعظام کا۔بات ہورہی ہے سید فخرالدین بلے کے نئے قول ترانے کی تو سوال یہ ہے کہ ان کا قول ترانہ ہے کیا؟ اور قول ترانہ کس بنیاد پر لکھا اور تخلیق کیا گیا؟اس کےلئے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ قول کیا ہے؟ قول ترانے سے کیا مراد ہے؟قوالی کی محفلوں سے قول ترانے کی کیا نسبت ہے ؟یہ پردے اٹھیں گے تو اس تاریخ ساز کارنامے کے بہت سے پہلو ازخود کھل کر سامنے آجائیں گے۔
دراصل حجۃ الوداع سے واپسی پر نبی آخرلزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےخم ِ غدیر کے مقام پر اپنے ساتھ چلنے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار حجاج ِ کرام کو حکم دیا کہ ٹھہر جائیں اور میری بات سنیں ۔ جولوگ آگے جاچکے ہیں ، اُنہیں واپس بلالیں اور جو ہم سے پیچھے ہیں ، ان کی آمد کاانتظار کریں ۔ جب سب صحابہ کرام اکٹھے ہوگئے تو آپ نے بڑا اہم اعلان کیا ، جسے اعلان ِ ولایت علی کہا جاتا ہے ۔یہ اعلان آپ نے دوٹوک الفاظ میں کیا اور مسلمانان ِ عالم کو بتادیا کہ
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
و من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ
یعنی جس کا میں مولا ہوں ، اس کے علی مولا ہیں ، اور پھر مولائے کائنات کو پیچھے سے دونوں بغلوں کے درمیاں میں اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرمایاکہ جس کا میں مولاہوں ، اس کے یہ علی مولا ہیں ۔یہ واقعہ ۱۸ذولحج کا حجۃ الوداع سے واپسی کا ہے۔ اس اعلان ِ ولایت ِ علی پر مسلمانان ِ عالم کے چہرے کھل اٹھے اور وہ ایک دوسرے کو گلے لگاکر مبارکبادیں دیتے رہے۔ خم ِ غدیر کے مقام پرعید کاسماں رہا اور اسی اعلان ِ ولایت پر ہرسال مسلمانان ِ عالم ۱۸ذوالحج کو عید ِ غدیر مناتے ہیں ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پہلی عید غدیر وہیں خم ِ غدیر کے مقام پر منائی گئی ، جب نبی ء آخرلزماں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ ّ آلہ وسلم نے من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ و من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ارشاد فرماکر اعلان ِ ولایت ِ علی کیا تھا ۔ یہی قول ِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قوالی کی بنیاد بنا ۔اسی اعلان کی بنیا د پر امیر خسرو نے پہلا قول ترانہ لکھا اور قوالی کی محفلوں میں یہ قول ترانہ پیش کرکے ہی قوال حضرات مولائےکائنات سے اپنی محبت و عقیدت کااظہار کرتے ہیں ۔ امیر خسرو کو دنیا سے رخصت ہوئے ساڑھے سات سو سال ہوچکے ہیں،ان کے سات سو سالہ جشن ِ ولادت پر سید فخرالدین بلے نے نیا قول ترانہ لکھ کر اپنی محبت، مودت اور نسبت کے جلوے دکھائے تھے ۔ بڑے بڑے اہل ِ معرفت سید فخرالدین بلے کے اس کارنامے کو تاریخ ساز قرار دے چکے ہیں ۔چند بڑی شخصیت کے اقتباسات آپ کی نذر کئے جارہے ہیں تاکہ آپ کو اس کارنامے کی فضیلتوں ،اس میں مستور جہان ِ معانی ، اس کی تاریخی ، علمی، ادبی اور روحانی اہمیت ،مقصدیت ،افضلیت اور تسکین ِ دل و جاں کیلئے افادیت کی کچھ جھلکیاں بھی آپ کو دکھائی جاسکیں ۔
من کُنتُ مولاہ فَعَلی مولاہ ۔
و مَن کُنتُ مولاہ ،فھٰذا علی مولا
اب ملاحظہ فرمائیے ۔ مندرجہ بالا قول سیدالمرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بنیاد پر امیر خسرو کے 700سال بعد وہ قول ترانہ جو سیّد فخر الدین بَلّے نے تخلیق کیا ،جسے سن کر علامہ طالب جوہری نے تاریخ ساز کارنامہ اور معرفت کاانمول خزانہ قرار دیا تھا۔
امیر خسرو کے سات سو سال بعد
سیّد فخر الدین بَلّے کا قول ترانہ
من کُنتُ مولاہ فَعَلی مولاہ، ۔۔۔ و مَن کُنتُ مولاہ ،فھٰذا علی مولاہ،
اللہ تو واللہ ھُوَ اللہ ُ اَحد ہے
وہ قادرِ مطلق ہے‘ وہ خالق ہے،صمد ہے
احمدمیں اِدھر “میم” اُدھر”مِنّیِ و مِنھہ ”
ادراک ہے ، اک عقل کی حد ہےاک پردہء
……..
اللہ ُ غنی مولا‘ اللہ ُ قوی مولا
اللہ ُ خفی مولا‘ اللہ ُ جلی مولا
اللہ ُ ولی مولا‘ اللہ ُ عَلِی مولا
مولا کا نبی مولا‘ مولا کا ولی مولا
لاریب نبی مولا‘ واللہ علی مولا
……..
من کُنتُ مولاہ ،فَعَلی مولاہ،
من کُنتُ مولاہ ،فھٰذا علی مولاہ،
……..
لَو کَانَ نبی بعدی‘ فی الحق علی مولا
وَاجعل لی وزیری ومن اھلِی اخی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
الطاھر و الشاّھد، الصّالح و الذَاہد
المومن و الصائم ‘ صدیق و صفی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ، فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ، فھٰذا علی مولا
……..
السیّد وا لسّاقی‘ المھدی و الہادی
القاری و الداعی‘ ہمرازِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
ایلی وعَلی عَالی ،مولودِ حرم والی
درحالِ رکوع بخشش‘ بِصوّم سخی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
فی الخندق و فی الخیبر،فی البدر واُحد حیدرؑ
قتّالِ حُنین اولیٰ‘ ذوالبرقہ علی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
معراجِ ِ نبی برحق‘ معراجِ ِ علی برحق
ہے کعبہ ء مولامیں بردوشِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
مِن لَحمِکَ لَحمِی و بالقولِ علی مِنّی
مولا کا اخی مولا‘ مولا کا وصی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
ہم اوّل و ہم آخر‘ ہم ظاہر و ہم باطن
ہم مولا و ہم قرآں‘ ہم نورِ نبی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ‘ فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ‘ فھٰذا علی مولا
……..
اِقرار کُنَم بَلّے ‘ من بندہ ء مولائی
اللہ و نبی مولا‘ واللہ علی مولا
……..
مَن کُنتُ مولاہ، فعلی مولا
من کُنتُ مولاہ، فھٰذا علی مولا
…….
ان کی بیاض میں اس قول کا مقطع یہ بھی موجود ہے۔
ہر سالک و عارف کا بَلّے یہی مسلک ہے
اللہ و نبی مولا، واللہ ُ علی مولا
{یہ ہے وہ قول ترانہ جو امیرخسرو کے 700سال بعد سید فخرالدین بلے نے تخلیق کیا}
بلے صاحب کا یہ قول ترانہ معرفت کاانمول خزانہ ہے۔طالب جوہری
علامہ طالب جوہری نے فرمایا کہ امیرخسرو کے سات سو سال بعد نیا قول ترانہ تخلیق کرنا بجائے خود اہمیت کاحامل ہے اور بلاشبہ سید فخرالدین بلے صاحب کا یہ قول ترانہ معرفت کا انمول خزانہ ہے
علامہ سید نصیرالاجتہادی فخرالدین بلے کا قول ترانہ سن کر جھوم اٹھے
معروف عالم ِ دین علامہ سیدنصیرالاجتہادی سیّد فخر الدین بَلّے کاقول ترانہ سن کر جھوم اٹھے اور اپنے مخصوص انداز میں اس کی مدح و ستائش کرتے ہوئے بس اتنا کہا ۔۔ اللہ اللہ ! کیا زبان و بیان ہے۔ ایمان کو ترو تازہ کرنے کا سامان ہے۔ ہر شعر معانی کا جہان ہے۔ اس کا ہر مضمون شرحِ آیتِ قرآن ہے اور بلاشبہ یہ کاوش معرفت کا ایک دبستان ہے۔
بلے صاحب کا تاریخی قول ترانہ علی مرتضیٰ سےکمال عقیدت کا آئینہ دار ہے۔علامہ احمدسعیدکاظمی
غزالی ء زماں ،رازی ء دوراں اوراپنے عہد کے امام اہل ِ سنّت حضرت علامہ سیّد احمد سعید کاظمی نےلکھا ہے۔قولِ سید المرسلین حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی من کنت مولاہ فعلی مولاہ و من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی جو نئی تصریحی تہذیب جناب سیّد فخر الدین بَلّے صاحب نے فرمائی ہے۔ وہ ان کی علمی قابلیت، روحانی ذوق،بالخصوص بارگاہِ سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے کمال عقیدت و محبت کی آئینہ دار ہے۔ قول کی صوتی و تصریحی تہذیب کا جوکام حضرت نظام الدین اولیاِ ء نے حضرت امیر خسرو کے سپردفرمایاتھا،بلے صاحب کی یہ تصریحی تہذیب اسی کاتکملہ نظرآتی ہے ۔حقیقت ِ ولایت کمال عشق ِ خداوندی اور محبت ِایزدی ہے۔ جس کا قطب مدار مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا وجودِ گرامی ہے ۔ قوالی کا مفاد ساز سے سوز پیدا کر کے عشقِ الٰہی کی حرارت سے دلوں کو گرمانا ہے۔ اس لئے اس کی روح و رواں منبعِ عشق و محبت کی شان میں قولِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ کا قرار پانا قوالی کے مفاد کا عین مقتضی ہے۔۔علامہ سید احمد سعید کاظمی نے اپنے تاثرات میں یہ بھی لکھاہے کہ لفظ مولا میں مولا ئے کائنا ت کےجو فضائل و کمالات مخفی تھے۔ بَلّے صاحب نے اس نئی تصریحی تہذیب میں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ان کا اظہار کیا ہے۔ جو قابلِ داد اور موجب ِ ستائش ہے۔ اہلِ ذوق حضرات اس سے محظوظ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبولیت ِعامہ کا شرف عطا فرمائے ۔آمین۔
سات صدیوں کے بعد
سیّد فخر الدین بَلّے کا ایک قابلِ قدر تخلیقی کارنامہ
علامہ سید احمد سعید کاظمی تحریر:
قولِ سید المرسلین حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “من کنت مولاہ ….فھذا علی مولاہ “کی جو “نئی تصریحی تہذیب” جناب سیّد فخر الدین بَلّے صاحب نے فرمائی ہے۔ وہ ان کی علمی قابلیت،روحانی ذوق،بالخصوص بارگاہِ سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے کمال عقیدت و محبت کی آئینہ دار ہے۔
قول کی تصریحی و صوتی تہذیب کا جو کام حضرت نظام الدین اولیاء نے امیر خسروؒ کے سپرد فرمایا تھا‘ بَلّے صاحب کی یہ نئی تصریحی تہذیب اسی کا تکملہ نظر آتی ہے۔
حقیقت ِ ولایت کمال عشق خداوندی اور محبت ِایزدی ہے۔ جس کا قطب مدار مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا وجودِ گرامی ہے۔
قوالی کا مفاد ساز سے سوز پیدا کر کے عشقِ الٰہی کی حرارت سے دلوں کو گرمانا ہے۔ اس لئے اس کی روح و رواں منبعِ عشق و محبت کی شان میں قولِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “من کنت مولاہ …. فھذا علی مولاہ” کا قرار پانا قوالی کے مفاد کا عین مقتضیٰ ہے۔
لفظ مولا میں مولا ئے کائنات سیدنا علی بن ابی طالب کے جو فضائل و کمالات مخفی تھے۔ بَلّے صاحب نے اس نئی تصریحی تہذیب میں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ان کا اظہار کیا ہے۔ جو قابلِ داد اور موجب ِ ستائش ہے۔ اہلِ
ذوق حضرات اس سے محظوظ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبولیت ِعامہ کا شرف عطا فرمائے ۔آمین
سید فخرالدین بلے کاقول ترانہ ۔ ایک تخلیقی معجزہ ہے۔مولانا سید ابن ِحیدر ،لکھنئو
محبوب ِ رب العالمین ،رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمد ِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الکمال سے و اپسی پر جس اہتمام کے ساتھ مولا علی علیہ السلام کی ولایت کااعلان فرمایا،وہ کسی بیان کامحتاج نہیں۔خُم ِ غدیر کی فضائیں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی صدائوں سے گونج اٹھیں اور پھر چہاردانگ ِعالم میں اس کی بازگشت سنائی دی ۔صوفیاء اور اولیاء اللہ کے حلقوں میں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کاورد ہونے لگا بلکہ یہ ان کاوظیفہ بن گیا۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی ٰعلیہ السلام کے خلفاء نےاپنے حلقوں میں جوروایت قائم کی تھی ، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی شہادت کے سات سو سال بعد سید گھرانے کی ایک عظیم الشان روحانی شخصیت خواجہ ء خواجگاں حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری نے متحدہ ہندوستان میں آکر دین ِ اسلام کاچراغ روشن کیا۔اس چراغ سے لاکھوں چراغ روشن ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا اجالا پھیلتاچلاگیا۔ یہیں سے قولِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی بنیاد پر گائیکی اورموسیقی کی ایک نئی صنف قوالی سامنے آئی ۔محبوب ِ الہیٰ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کےایماء پر حضرت ِ امیر خسرو دہلوی نے من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کواساس بناکر قول ترانہ تخلیق کیا اور آج بھی قوالی کی محفلوں کاآغاز اسی قول ترانے سے ہوتاہے ۔قوالی کارنگ ڈھنگ بدل چکاہے لیکن جس محفل میں یہ قول ترانہ نہیں پڑھاجاتا،اسے قولی کی محفل نہیں سمجھاجاتااورنہ ہی وہ قوالی کی محفل ہوسکتی ہے ۔ سات سو سال سے امیرخسروکاقول ترانہ ہی قوالی کی محفلوں میں پیش کیاجاتاہے۔یہ روایت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ سات سو برسوں کےدوران کسی بڑے سے بڑے شاعر نے نیاقول ترانہ تخلیق کرنے کاسوچاتک نہیں سلام ہے چشتیہ خانوادے کے چشم و چراغ سید فخرالدین بلے صاحب کو ، جنہوں نے امیر خسرو دہلوی کے بعد نیا قول ترانہ تخلیق کیا۔ جسے بجاطور پر ایک تخلیقی معجزہ قراردیا جاسکتا ہے ۔بلے صاحب نے حمد ،نعت اور منقبتوں کے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیاہے۔پہلا بند ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تو واللہ ، ھواللہ ُ احد ہے
وہ قادر ِمطلق ہے،وہ خالق ہے،صمدہے
احمد میں اِدھر میم، اُ دھر منی و منھہ
اِک پردہء ادراک ہے،اِک عقل کی حد ہے
غور فرمائیے۔کچھ نہ کہہ کر اور ایمائیت اور رمزیت کاحسن برقرار رکھتے ہوئے پردہ ء ادراک ہی اٹھادیا ہے۔ اس بند میں بھی ہمیں حمد،نعت اور منقبت کادلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے ۔تین دریا یکجاہوکر بہنے لگیں گے تو یہ خوبصورتی دیکھی جاسکتی ہے ۔
قرآن حکیم ، ارشادات ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مستند تاریخی روایات سے انہوں نے جو ثمرات سمیٹے، انہیں بڑی فنکارانہ مہارت کےساتھ اپنے قول ترانے کی زینت بنادیاہے۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے خوبصورت الفاظ نایاب نگینوں کی طرح اس پریم مالا میں جڑےہوئے نظر آتے ہیں مولائےکائنات حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام سے اپنی پہلی محبت و عقیدت کااظہار انہوں نے سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب “ولایت پناہ ” لکھ کرکیاتھا۔جو نثرنگاری کاشاہکار ہے جبکہ اس قول ترانے میں انہوں نے اپنی محبتوں کےرنگوں کو شعری زبان بخشی ہے ۔ میں اسے ایک تخلیقی معجزے کےسوااورکوئی نام نہیں دے سکتا۔اللہ تبارک و تعالی ٰ اس قابل ِ قدر کاوش کوشہرت ِعام اور مقبولیت ِ دوام کی سند عطافرمائے۔
فخرالدین بلے کا نیا قول ترانہ۔ ایک کرامت۔ ایک تخلیقی معجزہ ہے۔۔ ڈاکٹر ثروت رضوی
چلے توسارے زمانے کو دنگ کر جائے
یہ کام صرف علی کا ملنگ کر جائے
سوئے نجف سے جو آتی ہے موجہ نوروز
مرے سخی وہ مجھے بھی تو رنگ کر جائے
سچ تو یہ ہے کہ جیسے نجف والے مولا کا رنگ چڑھ جائے پہ پھر اس پر دنیا کا کوئی رنگ اثر نہیں کرتا۔وہ من کنت و مولا فھذا علی مولا کے قول کی عملی تفسیر نظر آتا ہے
یہ تو خیر شعر کی زبان میں رنگ کی بات ہورہی تھی لیکن رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا یہ” قول” جو ولایت امیرالمومنین ع کی دلیل ہے اور “رنگ”تصوف کی دنیا میں ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔
صوفیائے کرام کے مطابق قوالی اس محفل کا نام ہے جس کی ابتدا رسول مکرم ص کے قول من کنت مولا سے کی جائے جبکہ پڑھنےیا پیش کرنے والے کو قوال کہا جاتا ہے۔
حضرت نظام الدین اولیا کی ہدایت پر ان کے مرید خاص حضرت امیر خسرو نے اس قول ترانے کی تصریحی تہذیب کا کام کیا تھا۔قوالی کے مکمل نصاب کی تکمیل کا سہرا بھی حضرت امیر خسرو کے سر ہے۔ان کے بنائے ہوئے نصاب کے مطابق قوالی کی محفل کی ترتیب یا نصاب کچھ اس طرح ہے
سب سے پہلے قول رسول مکرم۔۔۔من کنت مولا
دوئم حمدِ باری تعالٰی
سوئم نعتِ رسول مقبول
چہارم منقبت مولا علی و اہلبیتِ اطہار
اور پھر صوفیائے کرام کی مدح
جبکہ آخر میں ۔۔۔۔رنگ ۔۔۔۔کی باری آتی ہے۔رنگ کے خالق بھی حضرت امیر خسرو ہی ہیں۔
لیکن حضرت امیر خسرو رح کے 700بعد جس شخصیت نے نیا، رنگ اور نیا ترانہ ترتیب دیا وہ سید فخر الدین بلے شاہ صاحب کی ذات گرامی ہے ۔بلاشبہ یہ قول ترانہ اور یہ رنگ اسی در کی عطا ہے جسے بابٍ علم کہا جاتا ہے۔یہ کام صرف علی کا ملنگ ہی کرسکتا تھا اور حضرت امیر خسرو رح کے بعد مودت سے سرشار سید فخر الدین بلے صاحب نے یہ کام کر دکھایا جو کسی کرامت سے کم نہیں ہے۔سید فخرالدین نلے صاحب نے جو، قول ترانہ اور رنگ تخلیق کیا ہے ۔۔۔اس کی تصریح یہ بتارہی ہے کہ یہ نجف، والے آقا کی عطا ہے۔یہی نہیں بلکہ سید فخر الدین بلے نے آنجناب ع کی سیرت و شخصیت پر “ولایت پناہ” کے نام سے کتاب بھی تحریر کی ہے۔ جس کی ابتدا ہی اس فارسی شعر سے ہوتی ہے
علی امام من است و منم غلامِ علی
ہزار جان گرامی فدائے نامِ علی
سید فخر الدین بلے رنگ ِ ولایت میں رنگے اس میخانہ کے رند تھے جہاں تطہیر کے پیمانوں میں مودت کی مے تقسیم کی جاتی ہے۔جو اس رنگ میں رنگ جائے اس پر دنیا کا رنگ نہیں چڑھتااور نہ ہی جچتا ہے۔
یہ اقتباس ڈاکٹر ثروت رضوی مقبول و معروف ذاکرہ ۔ سابق مدیرہ ماہنامہ ۔ قومی زبان ۔ کراچی کی تحریر سے لیاگیاہے ۔
سیدفخرالدین بلےعلیگ ۔ایک ادبی شخصیت ۔ایک ادارہ تھے۔ ڈاکٹر علی عباس امید علیگ
۔ تحریر:ڈاکٹر علی عباس امید علیگ
بیشتر پاکستانی جرائد میری تخلیقات مسلسل شائع کرتے رہتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ متعدد قلمکاروں سے میرے قریبی مراسم رہے۔اسی قربت کے سبب ڈاکٹر وزیر آغا نے میرے پہلے شعری مجموعہ ‘لب گویا’ کا دیباچہ بھی لکھا تھا۔
پچھلے دنوں مجھے سید فخرالدین بلے علیگ کی گراں قدر شخصیت کو بڑی تفصیل کے ساتھ جاننے کا موقع ملا۔مختصر لیکن جامع نگارشات پڑھنے کے نتیجے میں مجھے ایک اہم اور یگانہء روزگار ہستی سے ملاقات کااعزاز ملا۔ قلمکار کہیں بھی ہو، وہ اپنے خاندان سے جدا نہیں رہتا۔
سیدفخرالدین بلے علیگ سے میری قرابت داری کی دو وجوہات ہیں۔ اول ان کا ‘علیگ’ ہونا اور دوئم ان کا
‘فنی اجتہاد۔ .
وہ فن کی جس بلندی پر ہیں، اگر وہاں نظر ڈالنے کی کوشش کرونگا تو دستار میرے ہاتھوں میں ہوگی۔لہذا یہ کہنے پر اکتفا کرنا چاہونگا کہ زبان ، تفکر ، تحقیق ، صحافت ، تجزیہ نگاری اور عقیدے کے استحکام کوسید فخرالدین بلےعلیگ کہا جاتا ھے۔وہ اظہار کےجس عروج پر ہیں، اب اس کا خال خال دیدار بھی محال ھے۔
متعدد ذی علم ہستیوں نے سید فخرالدین بلےعلیگ کو انجمن قرار دیا ھے، لیکن میں ان کے طویل ، با مقصد اور کامیاب تخلیقی سفر کو دیکھتے ہوئے ادارہ کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔نثر و نظم پر ان کی بھر پور گرفت احباب کیلئے رشک اور اغیار کیلئے حسد کا سبب بنی ہو تو کوئی تعجب نہیں! میرا یہ اعتماد اخلاص پر مبنی ہونے کےباوصف ان کے تخلیقی خزانہ کے پس منظر میں ھے۔
سیدفخرالدین بلے علیگ کی شخصیت اور فن پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ھے کہ اب اگر میں اور کچھ لکھنا بھی چاہوں تو اسے آموختہ کہا جائے گا۔
مختلف اصناف ِ ادب میں ان کے بھاری بھرکم اضافے کے بجائے ان کا عقیدہ میری نگاہ میں ھے۔
میں نے ‘غالب اور علی’ کل غالب’ میں غالب کے عقیدے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ حضرت علی کا نام زبان پر آتے ہی ان کی روح کھل اٹھتی ھے۔اہل ِبیت ِاطہارع خصوصاً حضرت علی علیہ السلام سے ان کی عقیدت کا اندازہ لگا پانا ممکن ہی نہیں ھے۔
کل کے لئے نہ آج ہو خصت شراب میں
۔ صدقہ اک اور ساقیء کوثر کے باب میں
انھیں اعتماد تھا کہ اگر انھیں دوزخ کی آگ میں ڈالیں گے تو اس لئے کہ دشمنان ِ اہل ِ بیت کے لئے اس کی آنچ کو تیز کریں۔اس کے علاوہ مثنوی ءابر گہربار کے مسلسل اشعار اسی معرفت سے لبریز ہیں۔سید فخرالدین بلے علیگ بھی غالب کے ہم عقیدہ ہیں۔ان کی کتاب ولایت پناہ حضرت علی مرتضی ٰ کرم اللہ وجہہ در حقیقت ایمان افروزہے ، روح تر و تازہ ہو جاتی ھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول “میں جس کا مولا، اس کا مولا علی” کے قائل ہیں۔
مرا سفینہء ایماں ھے، ناخدا بھی علی
مری نماز علی ھے، مری دعا بھی علی
بہ اعتبار ِمشرب سید فخرالدین بلے تصوف کی صفِ اول میں نظر آتے ہیں۔اس کا ثبوت ان کا قول ترانہ ہے۔اسکے بارے میں میرے ہم وطن علامہ سید کلب ِحسن نونہروی کی تحریر اتنی گراں قدر ھے کہ اس کے آگے قلم اٹھانا اپنی کم علمی نمایاں کرنے کے مترادف ھے۔ بس اتنا کہا جاسکتا ھے کہ سیدفخرالدین بلے علیگ کی دینی معلومات باضابطہ مذہبی علمائے کرام سے کسی طرح کم نہیں تھیں اور وہ روحانیت کے اس عروج پر تھے، جو صوفیایے کرام کی منزل ھے
ہر سالک و عارف کا بلے یہی مسلک ھے
اللہ و نبی مولا ‘ و اللہ و علی مولا
اور اس بند کو تو ان کی عقیدت کا آئینہ کہہ سکتے ہیں
اللہ غنی مولا ، اللہ قوی مولا
اللہ خفی مولا ، اللہ جلی مولا
مولا کا نبی مولا،مولا کا ولی مولا
لاریب نبی مولا، و اللہ علی مولا
سیدفخرالدین بلے علیگ کے علمی ، ادبی اور دینی سرمایہ کا تحفظ بےحد ضروری ھے ،کیوں کہ یہ کسی ایک فرد نہیں بلکہ عہد اور عقیدے کی شناخت ھے۔
سیدفخرالدین بلےعلیگ ۔ایک ادبی شخصیت ۔ایک ادارہ
۔ تحریر:ڈاکٹر علی عباس امید علیگ
سات صدیوں بعد نیا قول ترانہ۔ سُن کے حیران ہے زمانہ۔ علامہ سید ارتضی عاطف شیرازی
بے شک ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت امیر خسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا تخلیق کردہ قول ترانہ من کنت مولا۔ فھذا علی مولا پڑھا اور بار بار پڑھا اور سنا ہے۔ واقعتا یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے بلکہ سات صدیوں بعد اس نٸے قول ترانے کو آپ بلاجھجک ایک عظیم تخلیقی معجزہ قرار نہ دینا کم فہمی یا کم ظرفی سمجھی جا سکتی ہے۔ ہماری دانست میں یہ قول ترانہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے علم و عرفان و بصیرت کی کرامت ہے۔
طول تاریخ میں بڑے بڑے عظیم شعراء گزرے جنہوں نے اس وادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں ظہور اسلام سے پہلے بھی یہ سلسلہ تھا اور ظہور اسلام کے بعد سے لے کر کے ابھی تک جاری و ساری ہے اور مولانا سید کلب حسن نونہروی صاحب نے اس قول ترانے کی علمی و تحقیقی شرح فرمائی جس نے اس قول ترانے کی افادیت و اہمیت کو مزید اجاگر کردیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی سید کلب حسن نونہروی صاحب کی یہ کاوش مولا امیر کائنات کے دربار میں قبول فرمائے اور ہم گناہ گاروں کا شمار بھی موالیان حیدر کرار میں فرمائے اور ہمیں اپنا حقیقی حبدار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین الہی آمین
طول تاریخ میں اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی یہ شعر و شاعری کا سلسلہ تھا اور آج تک جاری ہے دور پیمبر میں بھی جناب سرکار حضرت ابو طالب ع اور خود جناب امیرالمونین حضرت علی ابن ابی طالب ع نے جس سلسلہ نعت گوٸی کا آغاز فرمایا تھا اسے حضرت حسان بن ثابت اور فرذدق جیسے شعرإ نے جاری رکھا ۔ حضرت حسان بن ثابت اوران کے ہممزاج شعرا ٕ آئمہ علیھم السلام کی محفلوں میں شاعری کیا کرتے تھے اور آئمہ انکو انعامات سے نوازتے تھے بعد ازاں جناب سلطان الہند حضرت خواجہ جی غریب نواز معین الدین چشتی نے بھی سنت حضرت ابو طالب اور جناب امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ع کو جاری رکھا۔ حضرت امیر خسرو سے میر اور میر انیس و مرزا دبیر ۔ سعدی ۔ شیرازی اور شہریار و غالب علامہ اقبال اور اس کے بعد سے اب تک بہت سے شعراء برصغیر پاک و ہند میں گزرے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی اور جناب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ہیں۔
بہرحال شاعری کے بھی مختلف انداز و اطوار اور مختلف اسلوب ہیں لیکن وہ شاعری کیسی منفرد ور اچھوتی کہلاٸے گی کہ جو اہل بیت اطہار کی مدحت میں کی جائے۔ بالخصوص سرکار سردار الانبیا ٕ اور سردار الآٸمہ امیرالمومنین مولائے کائنات کی مدحت میں ہو۔
ممتاز مذہبی اسکالر ہر دلعزیز خطیب ۔ شاعر اہل بیت اطہار ع اور پچاسں سے زاٸد کتب کے مصنف علامہ ضمیر اختر نقوی نے حضرت امیر خسرو کے سات صدیوں بعد سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے تخلیق کردہ ”قول ترانہ“ کے حوالے سے ممتاز محقق اور اسکالر علامہ سید کلب حسن نونہروی کے تحقیقی کام کو بے حد سراہتے ہوٸے اپنے تاثرات میں بیان فرمایا کہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ نیا قول ترانہ من کنت ولا فھذا علی مولا۔ دراصل معجزاتی تخلیق ہے دراصل غدیر خم کا واقعہ اللہ رب العزت اور کاٸنات کی دو سب سے اہم اور عظیم ترین ہستیوں کا معاملہ ہے لہذہ اس واقعہ اور واقعے کی روشنی کو پھیلانے کا جو بھی اس سطح پر اہتمام کرے گا وہ کوٸی عام شخص یا عام ہستی ہو یہ ناممکنات میں سے ہے۔ بےشک سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا انتخاب بھی انہوں نے ہی کیا کہ جن کا یہ معاملہ ہے۔ محترم علامہ ضمیر اختر نقوی صاحب نے اس نٸے قول ترانے کے ضمن میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت امیر خسرو کے قول میں بے شک یہی الفاظ ہیں ۔من کنت مولا ۔ فھذا علی مولا ۔ لیکن حضرت امیر خسرو نے درحقیقت فقط دو چار مصرعوں پر ہی اکتفا کیا کیونکہ ان کی تمام تر توجہ صوتی اور تصریحی تہذیب کی بنیاد رکھنے پر مرکوز تھی اور صاحبان عرفان و بصیرت نے دیکھا سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے مولاٸے کاٸنات خلیفتہ الرسول ص جناب امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب ع کی صفاتِ جلیلہ کو قرآن و حدیث کی زبان میں اور اہم تاریخی واقعات کے تناظر میں سلیقہ مندی سے سمویا کیا ہے میں سمجھتا ہوں یہ کام ان سے کروا یا گیا اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو خلق کرنے کا مقصد اس اہم مشن کا تکملہ تھا۔ علامہ ضمیر اختر نقوی نے اپنی تحریر میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے اس تحقیتی کام کا حوالہ بھی دیا کہ جو انہوں نے جناب امیرلمومنین حضرت علی ابن ابی طالب ع کی سیرت طیبہ پر ایک ضخیم تصنیف کی شکل میں پیش کیا۔
سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ قول ترانہ من کنت مولا فھذا علی مولا لکھا گیا تو اس میں مولاٸے کاٸنات جناب امیرالمومنین ع کے فضائل کے جس انداز میں مرقعے سجائے گئے ہیں ان میں علم و عرفان کا سمندر موجزن ھے اور اگر مسلمان اس قول ترانے کو سمجھ لیں جو حقیقت میں تفسیر آیات ربانی اور تشریح احادیث نبوی ہے تو مولا کی خلافت بلا فصل ان پہ ثابت ہو جائے اور رسول پاک ص کے حکم پر عمل ہو جائے کیوں کہ رسول خدا نے حکم دیا ہے کہ حکم غدیر ہر حاضر غائب تک پہنچائے اب جسکی جتنی معرفت اور ظرف وسیع ہوگا اتنے یہ کلمات اس کے دل میں اترے چلے جائیں گے۔
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ مولا کریم سید فخرالدین شاہ صاحب کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائیں اور ان کے درجات بلند ہوں اور انہیں اہل بیت اطہار ع کے خاص الخاص خدمت گاروں میں شامل فرماٸے اور اہل بیت اطہار ع کی شفاعت سے بہرہ مند فرماٸے ۔ اٹلی ۔ جاپان۔ ایران۔ بھارت ۔ بنگلہ دیش۔ عراق امیریکہ ۔ آسٹریلیا اور پاکستان کی طرح دنیا بھر میں سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کے تخلیق کردہ اس قول من کنت مولا فھذا علی مولا کو قبولیت عام عطا فرماٸے۔ وارث زمانہ ہم سب پہ اپنی نظر کرم فرمائیں اور ہماری توفیقات خیر میں اضافہ فرمائیں۔ آمین
تحریر اور دعا گو : مولانا سید ارتضی عاطف شیرازی
خطیب : مدینتہ العلم ایجوکیشن سینٹر کارپی۔ اٹلی)
سات سو برس بعد نیا قول ترانہ۔ فخرالدین بلے کا فقیدالمثال کارنامہ۔ سید محمد افضل، سپین
سید فخرالدین بلے شاہ صاحب ایک پختہ کار اور قادرالکلام شاعر تو تھے ہی مگر آپ نے حضرت خواجہ امیر خسرو شاعر و قوال کے رنگ میں خود کو یوں رنگ لیا کہ جیسے عہد عتیق میں حضرت امیر خسرو نے حدیث پاک متواترہ ،، من کنت مولا فھذا علی مولا ،، کو قول کا نام دیا اور پڑھنے والے یعنی فاعل کو قوال کہا تو آپ جناب سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے اپنے زمانہ میں اس قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جدت پیدا کی- اس حدیث پاک کے کتب احادیث میں دو طرح کے الفاظ ملتے ہیں ایک تو یہی اور دوسرے ،، من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ ،، – تو حضرت امیر خسرو نے ،، فھذا ،، والے لفظ پر مبنی قوالی کی- سو آج تک قوال حضرات اسی طرح سے ہی قوالی کر رہے ہیں اور وہی حضرت امیر خسرو کا قلبانہ
،، دارا دل دارا دل دردانی
،، و ،،
ہم تم تو تاناناں تانا نانا رے ،، اور
،، یا لالی یا لالی یالا لا رے ،،
سب کچھ قوال وہی پڑھتے ہیں جو حضرت امیر خسرو نے پڑھا تھا – البتہ بیچ میں اشعار نئے زمانہ و نئے لب و لہجہ کے پڑھے جاتے ہیں-
حضرت سید فخر الدین بلے شاہ صاحب کا خاصہ یہ ہے کہ آپ نے حدیث پاک کو دونوں طرح کے الفاظ سے زینت شاعری بنایا ہے- اور ان دونوں الفاظ سے اردو کے نئے لب و لہجہ سے ایسی کشیدہ کاری کی ہے، ایسا گلدستہ تیار کیا ہے کہ جب اس قول ترانہ کو موجودہ زمانے کے قوال پڑھیں گے تو سامعین کو وافر حظ حاصل ہو گا-
اسی طرح ۔ رنگ ۔ میں حضرت امیر خسرو ترک نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ پیر سید محمد نظام الدین اولیا نقوی بخاری اور ان کے اوپر شجرہ میں شیوخ اکابرین کے نام لیکر خراج تحسین پیش کیا تھا- تو اب موجودہ زمانہ میں بھی قوال حضرات ، حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری چشتی و ان کے مابعد کے اولیاء کا نام لیتے ہیں- اس میں قوالوں کی خاص دھن اور لگن ہوتی ہے اور اکثر قوال یہ ،، رنگ ،، کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں- اس میں بھی حضرت بلے شاہ صاحب نے اس رنگ کو ،، رنگ ،، ہی کے قافیہ میں نئے پیراہن سے روشناس کرایا ہے اور دور حاضر کے لب و لہجہ سے اپنی پختہ شاعری سے زیب دیا- گویا قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب دور حاضر میں اپنے جد امجد سرکار سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور ان کے ساتھ ساتھ سرکار حضرت فرید ایدین مسعود گنج شکر اور حضرت سرکار نظام الدین اولیا ٕ اور بابا بلھے شاہ صاحب سرکار کے مقلد ہیں- اللہ تعالی قبلہ بلے شاہ صاحب کی اس علمی و ادبی کاوش کو اپنی عالی درگاہ میں قبول فرمائے-
اب أپ سرکار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا کلام بطور حوالہ نقل کر رہا ہوں۔
” ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
الفاظ و صوت و رنج و تصوّر کے رُوپ میں
زِندہ ہیں لوگ آج بھی، مرنے کے باوجُود “
” مرا سفینۂ ایماں ہے، ناخدا بھی علیؑ
مری نماز علی ہے مری دعا بھی علیؑ
ابوتراب و شرف یابِ آیۂ تطہیر
ہے راز دارِ حِرا و مباہلہ بھی علیؑ “
حضرت امیر خسرو کے سات سو برس بعد نیا قول ترانہ ۔ من کنت مولا تخلیق کرکے ایک فقیدالمثال اور تاریخ ساز کارنامہ انجام دینے والے سرکار جناب سید فخر الدین بلے شاہ صاحب * حضرت سید غلام معین الدین چشتی شاہ صاحب کے ہاں 1930 عیسوی میں میرٹھ شہر انڈیا میں تولد ہوٕٸے اور علیگڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوٕٸے۔ پارٹیشن کے وقت أپ پاکستان أ گٕے یہیں بھر پور زندگی گزار کر مدینتہ الاولیإ ملتان میں 28۔جنوری 2004 عیسوی میں رحلت فرماٸی اور 29۔جنوری 2004 کو نور شاہ بخاری قبرستان بہاولپور میں آپ کی تدفین ہوٸی جہاں أپکا مزار مرجعٕ خلإق ہے۔
تحریر ؛ سید محمد افضل ناعم غریضی خوارزمی (حال مقیم ولنسیا ۔ اسپین)
سبحان اللہ ۔ بلے بلے ۔ کیا بات ہے ۔ احمد ندیم قاسمی
معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نےتاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا “طوطیء ہند حضرت امیر خسرو دہلوینے ہندو معاشرے میں راگ اور رنگ کی اہمیت کےِ پیش نظر شاعری اور موسیقی کے امتزاج سے ایک نئی صنف “قوالی” کومتعارف کرایا اوراسی لئےقول ترانہ بھی تخلیق کیا اور اپنا رنگ بھی جمایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی سطح پر قوالی سننے والوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔آج بھی قوالی کی محفلوں کا آغاز امیرخسرو ہی کے قول ترانے سے ہوتاہے۔ستر کی دہائی میں امیر خسرو دہلوی کا سات سو سالہ جشن ِولادت منایا گیا تو یہ خبر بھی آئی کہ محترم سیّدفخرالدین بَلّے نےنیا قول ترانہ تخلیق کیا ہے اور ریڈیو پاکستان ملتان اس کی دُھنیں بنارہاہے۔ یہ شاہکار دیکھ کرمیں دم بخود رہ گیا۔اور جو دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیارکی تھیں ،وہ بھی ایک محفل میں سنیں تو بے ساختہ دو الفاظ زبان پر آگئے اور وہ ہیں سبحان اللہ ۔ امیر خسرو کے بعد جو کام ، کوئی شاعر نہیں کر پایا،وہ سیّدفخرالدین بَلّے نے انجام دے کر ارباب ِ ادب و فن سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا”۔
سید فخرالدین بلے نے فضائل ِ علی کو پینٹ کیا ہے،اشفاق احمد
معروف دانشور اشفاق احمد نے سیّدفخرالدین بَلّےکو تصوف پراہم اتھارٹی قراردیا اور کہا تصوف ان کی زندگی ، شخصیت اور شاعری میں رچا بسا ہے۔بلّے صاحب قوالی کےبھی رسیا ہیں ۔انہوں نے امیر خسرو کے بعد “من کنت مولاہ فعلی مولاہ اور من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ” کی بنیاد پر نیا قول ترانہ تخلیق کیا ، جس میں مولائے کائنات کی فضیلتوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پینٹ کیاگیا ہے۔ مقام ِعلی کےعرفان کے بغیر ایسا شاہکار تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے خلوت اور جلوت میں اسےکئی بار سناہے۔عزیز میاں قوال نے بھی ایک محفل میں یہ نیا قول ترانہ پیش کرکے خوب رنگ جمایا۔یہ دلوں کو چھولینے والا کلام ہے اور میری دعاہے کہ اللہ رب العزت اسے قبولیت ِ دوام بخشے۔
فخرالدین بلے کایہ کام روحانی جذبوں سے سرشارتوشہء آخرت ہے،مخدوم سجادقریشی
عظیم روحانی پیشواحضرت غوث بہاالدین زکریا سہروری اورحضرت شاہ رکن الدین والعالم رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ ِعالیہ کے سجادہ نشیں مخدوم سجاد حسین قریشی نے کہا”بَلّے صاحب ایک قد آور علمی شخصیت ہیں۔یہ تصوف پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے جو قول اور رنگ تخلیق کیا ہے۔ یہ تاریخی کارنامہ اور روحانی جذبوں سے سرشار توشہ ءآخرت ہے”
”سبحان اللہ ! سبحان اللہ۔ بَلّے بَلّے ۔ سیّد فخر الدین بَلّے۔ خواجہ سیدنصیرالدین نصیر
گولڑہ شریف کی عظیم ادبی اور روحانی شخصیت پیر سید نصیرالدین نصیر نے لکھا”سبحان اللہ ! سبحان اللہ۔ بَلّے بَلّے ۔ سیّد فخر الدین بَلّے کا یہ قول ترانہ موجب ِ تحسین و آفرین اور لائق ِصد ستائش تاریخی کارنامہ ہے اور سات صدیوں کے بعد دوسری بارقول کی نئی تصریحی تہذیب کا اعزاز ملتان کا مقدر بنا ہے”
یہ قول ترانہ فخرالدین بلے کی کتاب ولایت پناہ کانچوڑ ہے،شاعر محسن نقوی
۔مایہ ء ناز مذہبی اسکالر ،ادیب اور جدید لہجے کے خوبصورت شاعر محسن نقوی ادبی محفلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ سید فخرالدین بلے نے مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام کی سیرت و شخصیت کے حوالے سے جو تحقیقی کتاب” ولایت پناہ “لکھی ہے، اس کا مسودہ دیکھنے کے بعد میں سمجھتاہوں کہ اپنے اس قول ترانے میں انہوں نے فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ اس کتاب کانچوڑ پیش کردیا ہے ، اسی لئے یہ قول ترانہ سننے والوں کو اپنے دلوں میں اترتا اور دعوت ِ فکر دیتا ہوا محسوس ہوتاہے۔
امیرخسرو سے سیدفخرالدین بلے تک ۔انورمعین زبیری کی کتاب
رباعیاتِ سرمدی کے مترجم اور انہیں اردوشعری جامہ پہنا کر ”سرمد ایک سمندر” کتاب لانے والی ادبی شخصیت اور ریٹائرڈ سینئرپروڈیوسر ریڈیوپاکستان ملتان محمد انور معین زبیری نقشبندی مجددی نے قوالی کے تاریخی تناظر میں ایک کتاب “امیرخسرو سے سیدفخرالدین بلے تک “لکھنی شروع کی تھی ،لیکن زندگی نے انہیں یہ منصوبہ پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کی مہلت نہیں دی ۔
ایران میں بھارتی اسکالرسیدکلب حسن نونہروی نے بلے صاحب پر کتاب ہی لکھ دی
ایک در بند ہوا تو مولانے ایک اور دروازہ اب نجف ِ اشرف میں برسوں سے مقیم بھارت کے ادیب، دانشور، اسکالر اور محقق مولانا سید کلب ِحسن نونہروی نے سید فخرالدین بلے کے قول ترانے پر قلم اٹھایا ہے اور اس ادب پارےکے ایک ایک شعر میں مفاہیم کی جو دنیائیں اور معانی کے جو جہان آباد ہیں ، انہیں دریافت کیاہے ۔ نجف اشرف ہی کی ایک اور علمی اور ادبی شخصیت سلطان علی نجفی نے مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی کی تحقیقی کتاب کی تقریظ میں لکھا ہے” مولانا سید کلب ِ حسن نونہروی نےقرآنی آیات ، احادیث ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معتبر تاریخی روایات کی روشنی میں فخرِادب سید فخرالدین بلے کے قول ترانے کے ہر ہر شعر کی شرح کمال مہارت سے سپرد ِقلم فرمائی ہے۔ اور تاریخی فن پارے کی گہرائی میں اتر کر معانی کے جوگوہر ِِ نایاب سامنے لائے ہیں ،اس نے قول ترانے کی تفہیم کو آسان بنادیاہے۔اور عربی، فارسی اور اردو کے بہت سے الفاظ کے معانی اور اس مدحیہ شاعری میں مستور تلمیحی اشاروں کےمطالب بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
جوزہ علمیہ مشہدالمقدس،ایران کےمحترم سید محمد طاہر عابدی غازی پوری نے اپنی تقریظ میں اس تحقیقی مقالے کوایک قابل ِستائش کاوش قراردیاہے۔ کتاب کے محقق اور مصنف مولا نا سید کلب ِحسن نونہروی نے لکھا ہے کہ سید فخر الدین بلے کی ذات گرامی اور ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ان کے تمام اشعار میں صرف قو ل ترانہ کافی ہے ، اس لئے کہ یہ قول ترانہ صرف اشعار یا قافیہ پیمائی نہیں بلکہ اس ترانہ میں ایک پوری تاریخ مجملاً مخفی ہے ،جس کی اہل ِعلم و قلم ہی قدر کرسکتے ہیں ۔اور اس تحقیقی مقالے کے ساتھ حوالہ جات اس لئے درج کئے گئے ہیں کہ قول ترانہ کو کوئی ضعیف نہ سمجھے بلکہ اس میں ہر ہر لفظ اپنے اپنے مقام پر ایک سند لئے ہوئے ہے ۔اور یہ بھی ذکر کرنا مناسب رہے گا کہ اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ علی علیہ السلام کی پوری زندگی کی معلومات حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ اس قول ترانہ کو پڑھ لے ۔ میری تو خواہش یہ ہے کہ اسی قول ترانہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کتاب مولا علی کی سیرت پر لکھ دینی چاہئے تاکہ عام و خاص ہر ایک کے لئے مفید ثابت ہو سکے اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے علی علیہ السلام کی محبت کو عقیدہ کاتعویذ بنا کر پہن لیں ،جو روز ِمحشر بخشش کا وسیلہ بن سکے
بسمِ اللہ الرحمن الرحیم
قول ترانہ من کُنت مولا فھذا علی مولاہ
امیر خسرو کے علمی اور روحانی وارث کا فقیدالمثال کارنامہ
سید فخرالدین بلے بھی مولائی اور غدیری نکلے
تحریر:۔ سید صادق رضا زیدی ،[رضا پہانوی]
قصبہ. پہانی ضلع ہردوی یو. پی ہندوستان
رہائش…. پراناشہرسیتاپور (ہندوستان)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید فخرالدین بلے بھی مولائی اور غدیری نکلے۔صادق رضازیدی ،سیتاپور،بھارت
من کُنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی بنیاد پر تخلیق کیا گیا نیا قول ترانہ عاشقِ اہلیبیت ء مایہ ناز شاعر،صاحب ِ طرز ادیب اور محقق محترم جناب سید فخرالدین عرف بلے شاہ صاحب کی عقیدت سے لبریز تحقیق اور عظیم کارنامہ ہے۔ جو آپ نے حبِ علی علیہ السلام سےسرشار فضائل ِ مولا علی علیہ السلام کے بحرِ ذخار میں غوطہ زن ہوکر سپردِ قرطاس کیا ہے۔یہ تاریخی اور تاریخ ساز کارنامہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امیر خسرو کے علمی اور روحانی وارث ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب بلاشبہ امیرخسرو کے علمی،ادبی، تہذیبی اور روحانی وارث ہیں۔.
من کُنت مولا فھذا علی مولاہ۔ نیا قول ترانہ فنِ شاعری کا جواہر پارہ اور منقبت کا ایک نفیس و نایاب شاہکار ہے ، جو حمد و ثنائے پروردگار اور نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلعل و گوہر سےمرصع ہے۔سبحان اللہ ایک ایک مصرعہ فضیلت و معرفت کا دفتر ہے۔جسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہر شعر چشمہء ولایت علی علیہ السلام کا جام ِنایاب ہے ، جسے پی کر قاری مادیت کے پردے کو چاک کرکے معنوی دنیا میں کھو جاتا ہے۔.
۔اس قول ترانے میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہء غدیر سے اقتباسات بہترین انداز میں پیش کیے گئےہیں۔ زبان فصیح اور بلیغ لیکن حقیقت و عقیدت سے معمور ہے۔یقیناً یہ اللہ رب العزت اور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیز ممدوح مولائے کائنات علیہ السلام کی نظر لطف وکرم گستر کاعطیہ ہے، جو فاضلِ محقق کے شامل حال ہوا۔
بہر حال قول ترانہ کا ایک ایک لفظ گواہ ہے کہ انھیں ایک لڑی میں موتیوں کی طرح پرونے والا مسند نشیں سرِیرِ ولایت کا عاشقِ زار ہے۔.
محترم سید فخر الدین بلے شاہ صاحب کی اس عظیم کاوش نے انھیں اپنے فن کی بلندیوں پر فاٸز کر دیا ہے. یہ ہی حقیقی فلاح و کامیابی ہے، جو دنیا میں نعمت اور آخرت میں بارانِ رحمت بن کر جھما جھم برسےگی۔
مولائے متقیان سے محترم بلے شاہ صاحب کی عقیدت و مودت کے تناظر میں انہیں سید فخر الدین بلے شاہ کے ساتھ”غدیری “کہنا بھلا محسوس ہو رہا ہے۔.
امید ہے یوم ِ غدیر کے موقع ہپریہ نایاب تحفہ قارئین کرام کےمبارک ہاتھوں تک پہنچ جائےگا. اورمومنین ِغدیری چاشنی کےساتھ ولایتِ مولائے کائنات علیہ السلام سے سرشار ہوکر “یا علی ” ۔” یا علی” کہتے ہوئے جناب سید فخرالدین
بلے شاہ صاحب کے ساتھ ساتھ مجھ نا چیز کو بھی دعاٶں سے نوازیں گے۔ سید صادق رضا زیدی رضا پہانوی
سید فخرالدین بلے کے تاریخ ساز قول ترانے ، رنگ اور دیگر تخلیقات کے حوالے سے مشاہیر ِ ادب و معرفت کے اقتباسات پرمبنی تحریری سلسلہ جاری ہے