واجد خان یونین کونسل کے ملازم تھے۔ پاکستان کے محکمہ صحت کی طرف سے چلائی گئی مہم میں اپنا فرض ادا کرنے نکلے۔ اس پروگرام کا مقصد ہماری اگلی نسل کو معذوری سے بچانا تھا۔ شاید واجد کو یہ خبر نہ ہو کہ یہ اتنا بڑا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔ کسی بچوں کے والدین کو یہ سمجھانے پر، کہ یہ سب انہی کے فائدے کے لئے ہے، جواب میں گولیاں واجد کے جسم میں اتار دی گئیں۔ نوجوان واجد کی خون آلود لاش واپس گھر پہنچی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ معذوری سے بچانے کا جواب گولیوں کے علاوہ بم دھماکوں کی صورت میں پوری ٹیم کو اڑا دینے کی صورت میں دیا جاتا رہا ہے۔ یہ اس قدر عام ہے کہ اب خبر بھی نہیں بنتا۔ یہ کسی پتھر کے زمانے کا واقعہ نہیں، کل کی بات ہے۔ لیکن یہ موت اس واقعے کا سب سے افسوس ناک پہلو نہیں ہے۔
نیچے لنک میں یہ خبر دی گئی ہے۔ اس لنک کو کھولیں اور اس پر لوگوں کے کمنٹس پڑھیں جو کسی کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہوں گے۔ اس بہیمانہ قتل کا جشن منانے والوں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تعداد میں کم نہیں۔
انسانی اقدار میں شاید سب سے بنیادی قدر جس پر ہر کوئی اتفاق کر لے، وہ یہ کہ “کسی کو قتل مت کرو”۔ شاید یہ قدر بھی کہیں گم ہو گئی ہے۔ سفاکیت اور بربریت عام ہو جائے تو پھر اس کی پہچان بھی بھلا دی جاتی ہے۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جہالت انسانی جانیں نگلتی رہے گی۔ کیا جہالت کے ہاتھوں شہید ہو جانے والے کا جشن منانے والے، اس کو جواز فراہم کرنے والے، وجوہات تلاش کرنے والے، قاتلوں کا دفاع کرنے والے، ان باتوں کو غیراہم سمجھنے والے ہی زیادہ رہیں گے؟ یہ معاشرے کا ٹیسٹ ہے۔
ان مسخ شدہ اقدار کو چیلنج کرنے، اس سب کو ٹھیک کرنے کوئی بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ یہ کسی اور کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ جہالت بے ضرر نہیں ہوتی۔