ہے تو یہ بھی ریٹائرڈ جرنیل ۔۔ لیکن دوسروں سے الگ ….
ازان کہ پیروی خلق گمرہی آرد
نمی رویم براہی کہ کاروان رفتست
اس نے کسی غیر ملکی تھنک ٹینک میں ملازمت اختیار کی نہ اپنا تھنک ٹینک بنایا اور نہ ہی اپنے آپ کو منظرعام پر لانے اور اپنی تشہیر کرنے کا سامان برپا کیا۔ بہت مدت پہلے مقتدرہ قومی زبان میں ایک بزرگ تھے۔ نواح اسلام آباد میں انکے مرغی خانے تھے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن حضرت کو تقاریب کی صدارت کا اتنا شوق تھا کہ مسمریزم سے لےکر مرغیاں پالنے تک جس موضوع پر بھی کوئی تقریب ہوتی تو صدارت ضائع نہ ہونے دیتے۔ جس جرنیل کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ وہ ان ریٹائرڈ معززین سے مختلف ہے جو ناشتہ اخبارات میں اپنی تصویر سے شروع کرتے ہیں۔
مردان میں پیدا ہونےوالے جنرل احسان الحق مسلح افواج کے بلند ترین منصب سے سبکدوش ہوئے تو متانت کےساتھ گوشہ سکوت میں چلے گئے لیکن گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں پہلی بار گفتگو کی اور کچھ حساس غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔
ہم پاکستانی بنیادی طور پر جذباتی قوم ہیں۔ ہماری ذہنی خوراک کا زیادہ انحصار سنی سنائی باتوں پر ہے۔ دلیل اور ثبوت۔ جو مسلمانوں کے ہتھیار تھے۔ آج اغیار کے پاس ہیں۔ ہم نے اپنا طرہ امتیاز یہ بنا لیا ہے کہ بات کرتے وقت دلیل کی نہیں‘ دھونس کی ضرورت ہے اور بات سنتے وقت ثبوت نہیں‘ صرف جذبات کی مناسبت درکار ہے۔ ثبوت کے علاوہ ہم کسی بھی شے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کبھی کسی کا سوٹ اور انگریزی‘ کبھی کسی کا جبہ اور دستار‘ کبھی کسی کے منہ میں ٹھنسا ہوا پائپ اور کبھی کسی کے ہاتھ میں لٹکتی ہوئی تسبیح! آج ہم عدم برداشت کے جس عذاب سے دوچار ہیں اسکی ایک وجہ یہ رویہ بھی ہے کہ ہم جذبات کے غلام ہیں یا شخصیات کے۔
جنرل احسان الحق نے اس عام تاثر کو غلط قرار دیا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے اچانک یو ٹرن لیا اور طالبان کو چھوڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ جنگ طویل نہ ہو اور درمیانی راستہ نکل آئے۔ اس وقت جنرل احسان الحق آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ حکومت نے انہیں سعودی عرب بھیجا‘ پاکستان نے یہ تجویز کیا کہ طالبان کو اگر کابل چھوڑنا پڑے تو شمالی اتحاد اس پر قبضہ نہ کرے اور شہر کو اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا جائے۔ طالبان کی مرکزی قیادت تو امریکی حملے کے اوائل ہی میں تتر بتر ہو گئی تھی۔ بہرطور جو ذمہ دار افراد بھی میسر آئے پاکستان نے انہیں اس تجویز سے آگاہ کیا ۔ جنرل احسان سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کو ساتھ لےکر پیرس اور لندن گئے اور بات آگے بڑھائی لیکن جب واشنگٹن پہنچے تو معلوم ہوا کہ طالبان نے کابل خالی کر دیا ہے۔ شمالی اتحاد کابل کے دروازوں پر تھا۔ یوں کھیل ختم ہو گیا۔
جنرل نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ پاکستان اور طالبان کی گاڑھی چھنتی تھی اور یک جان دو قالب کا سماں تھا! نائن الیون سے پہلے بھی طالبان کی پالیسیوں سے پاکستان کو اختلاف تھا اور اندرون خانہ‘ نواز شریف کے دور میں اور پھر پرویز مشرف کے دور میں بھی، پاکستان طالبان کو کہتا رہا کہ تم دنیا سے کٹ رہے ہو‘ اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرو لیکن بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتیں اور پیچیدگیاں طالبان کی ہٹ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ مومن کا تدبر‘ انکی لغت میں یہ لفظ ہی نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد بھی پوری کوشش کی گئی۔ کئی وفود ملا عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ انہیں عالمی صورتحال سمجھانے کی کوشش کی۔ روس‘ چین‘ ایران‘ شمالی کوریا سب اس معاملے میں امریکہ کےساتھ تھے۔ لیکن ملا عمر نے ایک نہ سنی۔ جنرل احسان الحق کی اس بات کی تصدیق ایک اور ذریعہ سے بھی ہوتی ہے۔ طالبان کے اہم حمایتی اور ہمدرد۔۔ قاضی حسین احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ۔۔۔ ”ملا عمر نے جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جس مزاج کا آدمی ہے اس سے اگر مذاکرات کئے جائینگے تو وہ آج بھی کسی درمیانی راستے کی طرف آنے کے بجائے اپنے اس موقف پر اصرار کرےگا کہ افغانستان کے تمام فریق اسے بلا شرکت غیرے امیر المومنین تسلیم کرکے اسکی بیعت کریں۔“
جنرل احسان الحق نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان کے کسی ریاستی ادارے نے اغوا کیا نہ امریکہ کے حوالے کیا۔ جنرل نے وضاحت کی کہ عافیہ صدیقی 2007ءتک پاکستان ہی میں تھیں۔ اس سال انہیں اسلام آباد میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے رشتہ دار کے ہاں تھیں۔ اسی طرح سیف اللہ پراچہ کو بھی کسی ریاستی ادارے نے نہیں پکڑا۔ اسے تو یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے یا قونصل خانے جانے سے احتراز کرے اور ملک ہی میں رہے لیکن وہ کسی وجہ سے تھائی لینڈ گیا۔ جہاں سے امریکیوں نے اسے اٹھا لیا۔ اس سوال پر کہ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں جہاں ہر جرنیل کا ذکر کیا ہے وہاں احسان الحق کا ایک بار بھی ذکر نہیں کیا۔ جنرل نے مسکراتے ہوئے پرویز مشرف کا شکریہ ادا کیا!
پاکستان تیزی سے عالمی تنہائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تازہ ترین دھچکا ہمیں چین سے لگا ہے۔ کاشغر میں علیحدگی پسندوں نے ہلاکت آفریں کارروائیاں کی ہیں۔ چین نے الزام لگایا ہے یا یوں کہئے کہ شکوہ کیا ہے کہ کارروائی کرنےوالے لوگ پاکستان سے تربیت لے کر آئے تھے۔ پہلی بار چین نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا ہے کہ مشرقی ترکستان کی تحریک اسلامی نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں پڑائو کیا ہوا ہے اور دھماکہ خیز مواد کی تربیت بھی وہیں دی جا رہی ہے!
فوجی ساز و سامان سے لےکر بندرگاہوں کی ترقی تک ہر معاملے میں چین ہمارا ساتھ دے رہا ہے۔ کئی چینی ماہرین زندگیوں کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔ کیا ہم اپنا ملک اپنے دوستوں کو (جو چند ہی ہیں) ناراض کرنے کیلئے استعمال ہونے دینگے؟ پوری اسلامی دنیا کا مرکز سعودی عرب ہے۔ کیا سعودی عرب ایسی تحریکوں کو اپنے ہاں پڑائو ڈالنے کی اجازت دےگا؟ کبھی نہیں! سعودی عرب میں تو ان جماعتوں پر بھی مکمل پابندی ہے جن کے بارے میں پاکستان میں بات بھی کی جائے تو قیامت آجاتی ہے! اسکے باوجود سعودی عرب میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں! قصہ یہ ہے کہ ہر ملک کو اپنی سالمیت عزیز ہے اور کوئی ملک کسی فرد‘ کسی گروہ یا کسی تنظیم کو اجازت نہیں دیتا کہ اسکے قوانین کو پامال کرے چہ جائیکہ دوسرے ملکوں سے اسکے تعلقات میں زہر گھولے۔
ہمیں رومانی جذباتیت سے باہر نکل کر حقیقت پسندی کا سامنا کرنا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جذباتی رویوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام تو فہم‘ تدبر‘ ادراک‘ عقل اور حقیقت سے تعلق رکھنے والا دین ہے۔ رومان پرستی اور جذباتیت کی ایک مثال دیکھئے‘ ملائیشیا نے اپنے ہاں سرمایہ کاری کو فرغ دینے کےلئے 2002ءمیں ایک پروگرام شروع کیا جسے ملائیشیا میرا دوسرا گھر کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام کی رو سے پچاس سال سے کم عمر کا کوئی بھی غیر ملکی تین لاکھ ڈالر کی ملائیشیا میں سرمایہ کاری کرکے دس سال کےلئے ملائیشیا میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔ ملائیشیا کے قونصل جنرل نے کراچی میں کچھ دن پہلے بتایا کہ تقریباً سات سو پاکستانیوں نے اس پروگرام کے تحت ایک سو اسی ارب روپے ملائیشیا منتقل کئے ہیں۔ ان پاکستانیوں کی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سرمائے کے اس اخراج پر افسوس کرتے اور یہ ہمارے لئے کراچی کی بدامنی کے نکتہ نظر سے لمحہ فکریہ ہوتا لیکن ہم نے اس سے بھی رومان نکال لیا اور ہمارے کچھ دوستوں نے اس سے ”آفاقیت“ نکال کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاسپورٹ اور ویزے ہونے ہی نہیں چاہیں۔
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ملائیشیا نے یہ پروگرام خالص ملکی ترقی کےلئے نکالا ہے اور اس کی کڑی شرائط ہیں۔ اسکے تحت ملائیشیا جانے والوں کی بڑی تعداد غیر مسلموں پر مشتمل ہے اور پاکستان اس سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں دسویں نمبر پر آتا ہے۔ ملائیشیا نے اس میں کسی مذہب یا نسل کی تخصیص نہیں رکھی نکتہ جو ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کوئی ملک بھی کسی کےلئے اپنے دروازے رات کو کھلے نہیں رکھتا۔ افغان مہاجرین ایران گئے تو انہیں کیمپوں سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا۔ چنانچہ وہ نتائج جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ ایران ان سے محفوظ رہا ہے۔ آج پاکستان میں زندگی کٹھن دور سے گزر رہی ہے بجلی اور گیس ناپید ہیں اور خوراک کا قحط عفریت بن کر سامنے آنے والا ہے۔ کیا اتنے خوشحال اسلامی ملکوں میں سے کوئی ہمارے لئے اپنے دروازے کھول رہا ہے؟ نہیں۔کوئی ایک بھی نہیں! رہی یہ بات کہ پاسپورٹ نہیں ہونے چاہئیں تو حقیقت کچھ اور ہے! پاسپورٹ کا تو تصور ہی اسلامی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں نے دیا ہے۔ اس وقت اسلامی مملکت کے اندر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کیلئے ایک اجازت نامہ دکھانا ضروری تھا جس پر سفر کرنے والے کے بارے میں اندراج ہوتا تھا کہ اس نے زکوٰة یا ٹیکس یا جزیہ ادا کر دیا ہے۔ اسے عربی میں ”برا“ کہتے تھے یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ تجارتی مال کی نقل و حرکت پر بھی پابندی تھی۔ سرحد پر تاجر کو اجازت نامہ دکھانا پڑتا تھا جسے ”تعارف“ کہا جاتا تھا۔ کوئی عام سی ڈکشنری کھول کر دیکھ لیجئے
ٹیرف (TARIFF)
کا لفظ اسی ”تعارف“ سے نکلا ہے!
ہم پاکستان میں ساری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ہماری سرحدوں اور ہمارے قوانین کا احترام اسی طرح کیا جائے جیسے سعودی عرب‘ ملائیشیا ترکی‘ متحدہ امارات اور دوسرے ملکوں میں کیا اور کرایا جاتا ہے!
http://columns.izharulhaq.net/2011_08_01_archive.html
“