گلزار صاحب نے ایک فلم کےلیے غالب کا یہ مصرع مستعار لیا اور اس پر ایک مکمل گیت لکھ دیا۔
مصرع کچھ یوں تھا:
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
یہ گیت 1975 میں ریلیز ہونے والی فلم”موسم” میں بھوپیندر سنگھ اور لتا منگیشکر نے گایا اور اسے فلم کے ہیرو اور ہیروئن سنجیو کمار اور شرمیلا ٹیگور پر پکچرائز کیا گیا۔
اس گیت میں ایک بند تھا:
جاڑوں کی نرم دھوپ اور آنگن میں لیٹ کر
آنکھوں پہ کھینچ کر تیرے آنچل کے سایے کو
اوندھے پڑے رہیں کبھی، کروٹ لیے ہوئے
اب یہ تصور تو نہایت خوبصورت ہے۔ جاڑے کی میٹھی میٹھی دھوپ کسے اچھی نہیں لگتی اور وہ بھی محبوب کے ساتھ۔ مگر اگر آپ انچل ہٹائیں اور آپکی آسمان کو تکنا شروع کریں تو اپکو بہت صاف اسمان دکھے گا، نیل نیلا سا۔ آپکی نظر آسمان کی وسعتوں میں کھو کر محبوب کو بھول جائے گی۔ اب ایسے میں اچانک سے دور سے ایک جہاز نمودار ہو ایک نکتہ سا۔ جس میں کئی مسافر اپنی اپنی زندگی کی کہانی لیے کسی منزل پر جا رہے ہوں۔ کوئی کسی سے ملنے، کوئی کسی کام کے سلسلے میں، کوئی وطن سے دور، کوئی وطن واپس آتے ہوئے۔
مگر ان سب کو چھوڑ کر آپکی نظر جہاز کے پیچھے سے نکلتی دو دھویں کی لکیروں پر ہو اور آپ حیران ہوں کہ یہ لکیریں جہاز سے نکل کر ہوا میں اوپر آسمانوں میں بادل کیسے بنا رہی ہیں؟ کیا یہ جہاز ہماری فضا میں کوئی تبدیلی کر رہے ہیں یا یہ کسی عالمی سازش کا حصہ ہیں جس سے گلوبل وارمنگ کا “ڈرامہ” رچایا جا رہا ہے؟
تو آپکی یہ مشکل بھی حل کیے دیتا ہوں۔ دراصل جہاز اوپر کافی بلندی پر اُڑتے ہیں۔ ایک عام کمرشل جہاز 10 سے 12 ہزار میٹر یا 33 سے 42 ہزار فٹ کی کی بلندی پر اُڑتا ہے۔ فضا کے اس حصے میں درجہ حرارات نہایت کم ہوتا ہے۔
یہاں درجہ حرارت منفی 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتا ہے۔ ایسے میں جب جہاز کا دھواں نکلتا ہے تو اس میں موجود گرم پانی کے بخارات فوراً سے جم جاتے ہیں یا مائع شکل میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ جہاز سے نکلنے والا دھواں ایک عارضی بادل کی شکل اختیار کر لیتا ہے کیونکہ بادل بھی دراصل بخارات کی جمی اور مائع حالت ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دیر کے بعد یہ عارضی بادل تحلیل ہو جاتے ہیں۔ جہاز سے نکلنے والی ان لکیروں کو جہاز رانی کی دنیا میں Contrials یعنی کنڈینسیشن ٹریلز کہتے ہیں۔
چلیے آپ اب نیچے لنک میں وہ گیت سنیں جسکا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جاڑوں کی نرم دھوپ کا لطف اُٹھائیں۔ ویسے جاڑوں کی دھوپ میں اوپر چھت پر چارپائی پر بیٹھ کر کینو کی پھانک پر نمک لگا کر کھانے کا اپنا مزا ہے۔ یہ تصور گلزار صاحب کو کیوں نہ آیا؟ اس پر سوچتے ہیں۔
گیت کا لنک
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...