کنکریٹ کے سٹرکچر صدیوں تک کھڑا رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شرط یہ کہ ان کی دیکھ بھال کی جائے۔ ری انفورسڈ کنکریٹ بڑا زبردست میٹیریل ہے، لیکن یہ پرواہ مانگتی ہے۔ اس کی کمزوری وہی ہے جو اس کی طاقت ہے۔ یعنی اس کا اندرونی سٹرکچر۔
کنکریٹ میں ڈالا گیا فولاد زنگ کھا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ کنکریٹ کے درمیان ہوتا ہے تو اس میں الکائن حالات اس پر آئرن آکسائیڈ کی تہہ چڑھا دیتے ہیں جو حفاظت رکھنے والی کھال کا کردار ادا کرتا ہے۔ عمارت کی نارمل شکست و ریخت، درجہ حرارت سے اس کا پھیلنا اور سکڑنا کنکریٹ میں چھوٹے سے کریک ڈال دیتا ہے۔ ان میں پانی اندر آ جاتا ہے۔ یہ پانی سرد موسم میں جم کر برف بن کر کریک وسیع کر سکتا ہے۔ تمام پتھر والی عمارتوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہی کٹاوٗ ہے جس کا سامنا پہاڑوں کو بھی کرتا ہوتا ہے۔ عمارت کو اس سے بچانے کے لئے پچاس سال بعد مینٹین کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
کنکریٹ ایک اور طرح کے ضرر کا شکار ہو سکتی ہے۔ پانی دراڑ میں گھس کر فولاد تک پہنچ سکتا ہے اور اس کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔ زنگ پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ فولاد کا ڈھانچہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ سرد علاقوں میں پل سب سے زیادہ اس کا نشانہ بنتے ہیں کیونکہ برف ہٹانے کے لئے چھڑکا جانے والا نمک پانی کے ساتھ مل کر آئرن ہائیڈرو آکسائیڈ کی کھال چھیلنا شروع کر دیتا ہے۔
معاملات کو مزید مشکل بنانے کے لئے ۔۔۔ کئی سٹرکچر ایسی جگہوں پر ہوتے ہیں جہاں پر یہ دیکھ بھال کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ مشکل رسائی والی جگہوں پر بنے سٹرکچر یا نیوکلئیر پاور سٹیشن کی اندرونی کور۔ ان حالات میں ہمیں ایک ایسا میٹیریل چاہیے جو اپنی مرمت خود ہی کر سکتا ہو۔ ایسا میٹیریل اب موجود ہے۔ یہاں پر رخ بائیولوجی کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان اس تلاش میں تھے کہ زندگی زمین پر کن حالات میں رہ سکتی ہے۔ ایکسٹریم حالات میں ایک آتش فشانی جھیلیں تھیں جن میں الکلائن سطح زیادہ ہوتی ہے۔ پی ایچ نو سے گیارہ کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ انسانی جلد پر آبلے ڈال دے۔ ایک وقت میں یہ خیال تھا (اور معقول خیال تھا) کہ گندھک کی ان جھیلوں میں زندگی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ان کی احتیاط سے کی جانے والی سٹڈی سے ہمیں پتا لگا کہ زندگی اس سے زیادہ ڈھیٹ ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں زندہ رہنے والے الکالی فِک بیکٹیریا مل گئے۔ ان میں ایک خاص قسم کا مائیکروآرگنزم ملا جو بی پاسچرائی تھا۔ یہ کیلسائیٹ کو فضلے کے طور پر خارج کرتا تھا۔ یہ کنکریٹ کا جزو ہے۔ یہ بیکٹیریا انتہائی سخت جان ہیں اور چٹانوں میں بند کئی دہائیوں تک غیرفعال رہ سکتے ہیں۔
یہاں سے اپنی مرمت خود کرنے والی کنکریٹ کا آئیڈیا آیا۔ اس میں ان بیکٹیریا کو قید کر لیا جائے اور ساتھ کچھ سٹارچ خوراک کے طور پر رکھ دیا جائے۔ سٹارچ اور اس بیکٹیریا کا اضافہ کنکریٹ کی تیاری کے وقت کیا جائے۔ عام حالات میں یہ بیکٹیریا غیرفعال رہیں اور کیلشیم سلیکیٹ ہائیڈریٹ فبرلز کی قید میں رہیں۔ اگر کوئی کریک بن جائے اور پانی رِس کر ان تک پہنچ جائے تو یہ اپنے بندھن توڑ کر حرکت میں آ جائیں۔ اپنی خوراک تک پہنچ کر بڑھنا شروع کر دیں۔ تقسیم ہونا شروع کر دیں۔ اس عمل میں یہ کیلسائیٹ خارج کریں گے جو اس دراڑ کو بھرنا شروع کر دے گا اور اس کو سیل کر دے گا۔
یہ ایسا آئیڈیا لگتا ہے جو تھیوری میں تو کام کرے لیکن عملی طور پر نہیں۔ لیکن یہ کام کرتا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ان جراثیم کے اضافے سے نوے فیصد نقصان خود ہی اس طریقے سے مرمت ہو جاتا ہے۔ خود مرمت کرنے والی اس کنکریٹ کی ڈویلپمنٹ اب اصل انجینیرنگ سٹرکچر پر کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جراثیم اور کنکریٹ کا ملاپ ایک اور طرح کی کنکریٹ میں بھی ہے۔ یہ فلٹرکریٹ ہے۔ شہر کنکریٹ سے ڈھکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بارش کا پانی بہہ جاتا ہے۔ نہ صرف زیرِ زمین نہیں پہنچتا بلکہ پانی کے نکاس کی نالیوں پر بوجھ ڈالتا ہے۔ فٹ پاتھوں اور دوسرے زمینی سٹرکچر میں فلٹرکریٹ کے مساموں سے پانی رِس کر زیرِ زمین پہنچ جاتا ہے۔ اس کنکریٹ کے خاص مسام ایسے ہیں کہ قدرتی طور پر رہنے والے بیکٹیریا اس میں گھر کر لیتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا اس پانی میں سے تیل اور دوسرے آلودہ کرنے والے مادے ہضم کر کے اس کو صاف کر دیتے ہیں۔
(جاری ہے)