جراثیم ہر جگہ پر ہیں۔ آپ کے سامنے پڑے پانی کے گلاس میں کروڑوں کی تعداد میں۔ آپ کے ہاتھ پر، جسم کے اندر ہر جگہ۔ جسم میں جتنے خلیات ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں مائیکروب ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم نے اپنی زندگی کی تاریخ میں ان سے ایک تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔ وہ یہ کہ ہم انہیں رہنے کے لئے گھر اور خوراک دیں گے اور وہ زندگی کا نظام چلانے میں ہماری مدد کریں گے۔ ہر شخص کے اپنے اندر بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور دوسرے جراثیم کی دنیا آباد ہے اور اس دنیا کی اپنی ترتیب ہر شخص کے لئے منفرد ہے۔ ہماری پیدائش کے ساتھ ہی یہ ہمیں گھیر لیتے ہیں اور دو سال کے اندر ہمارے جسم میں جراثیم کی دنیا کا نظام مستحکم حالت میں آ چکا ہوتا ہے۔ جسم میں آباد یہ دنیا ہماری زندگی کے لئے ضروری ہے۔ صرف ہمارے منہ میں دو سو مختلف اقسام کے مائیکروبز کا بسیرا ہے۔
ہمارے جسم میں تین طرح کے مہمان ہیں۔ ایک وہ جو خاموش مسافر ہیں اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ نہ یہ ہمیں کچھ کہتے ہیں اور نہ ہم ان کو۔ یہ جگہ گھیرے ہوئے ہیں لیکن نظام چلانے میں مدد نہیں کرتے مگر ان کے جگہ لینے کی وجہ سے باہر کے ضرر رساں حملہ آوروں کو جگہ لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں، مگر ہم ان کے ساتھ رہنا سیکھ چکے ہیں، ان کی ایک مثال وہ ہیں وہ ہمارے دانتوں میں تیزابیت پیدا کر کے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم ان سے چھٹکارا تو نہیں پا سکتے لیکن دانت صاف رکھ کر ان کے نقصان سے بچ جاتے ہیں۔ تیسرے وہ دوست جو ہمارے کام آتے ہیں۔ ان میں سے پانچ ہزار انواع کے کھرب ہا کھرب صرف ہماری آنتوں میں ہمارے نظامِ انہضام میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہمارا نظامِ انہضام باہر سے آنے والے حملہ آوروں کے لئے سب سے بڑا نشانہ ہے کیونکہ سب سے آسان راستہ خوراک کے ذریعے ہے۔ ہمارا دفاعی نظام اسی لئے سب سے متحرک یہیں پر ہے۔ یہ ہمارے دفاعی نظام سے اچھی دوستی رکھتے ہیں تا کہ اس کی برپا کی گئی جنگوں میں یہ نشانہ نہ بنیں۔
یہ مائیکروبز ہمارے خلیوں کو پروٹین کے ذریعے پیغامات بھی بھجواتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں ہونے والی تحقیق سے پتا لگا ہے کہ ان کا ہم سے رشتہ بہت ہی گہرا ہے اور شاید یہ دماغ سے براہِ راست باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے جسم میں پیغام رسانی والی پروٹین سیروٹونن سب سے زیادہ ہماری آنتوں میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ اس پر تحقیق کے لئے سائنس کا ایک نیا شعبہ گٹ سائنسز ہے جس کا ابھی آغاز ہے۔ یہ آنتوں کی سائنس کے بارے میں ہے جس میں یہ جاننے کو کوشش ہے کہ ہماری عام زندگی اور اپنے رویے کا کتنا تعلق آنتوں سے ہے۔ خیال یہ ہے کہ ڈیپریشن، ذہانت، ڈویلپمنٹ وغیرہ کا بھی ان سے تعلق ہے (ہونے والی تحقیق کے لنک نیچے دیکھ لیں)۔ مکھیوں پر ہونے والے تجربات نے یہ بتایا ہے کہ ان کے جسم کے اندر موجود بیکٹیریا سے پتا لگتا ہے کہ وہ کس قسم کی خوراک پسند کریں گی۔ اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ ہماری اپنی اشتہا کا ناتا بھی ان سے ہو۔ ہمارے جسم میں مختلف انواع کے جراثیم مختلف غذاؤں پر پلتے ہیں۔ کچھ کو سبزیاں پسند ہیں، کچھ کو میٹھا تو کچھ کو چکنائی والی غذا۔ ہم خود جس قسم کے بیکٹیریا کو زیادہ غذا پہنچائیں، ان کی ہمارے جسم میں آبادی میں اضافہ ہو جائے گا اور ان کا ہم پر اثر بھی بڑھ جائے گا۔ اگر میٹھا زیادہ کھائیں گے تو اس طرح کی انواع جسم میں نشوونما پائیں گی جو اس طرح کی خوراک پر پلتی ہیں اور ان کے دماغ کو بھیجے گئے پیغامات سے ہمارا مزید دل بھی یہی کھانے کو کرے گا۔ اس لئے موٹاپے کی پھیلتے ٹرینڈ کے پیچھے بھی انہی کا ہاتھ ہے۔ (اس چکر کو ہم شعوری طور پر توڑ سکتے ہیں)۔ لیکن ان کا ہاتھ اس سے بھی زیادہ جگہوں پر پایا گیا ہے۔ پارکنسن کی بیماری کا آغاز یہیں سے ہے اور اس کی پہلی علامت بھی ہاضمے کی خرابی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کا تعلق ہمارے اس بنتے بگڑتے رشتے سے ہو سکتا ہے۔ علاج کا ایک اچھوتا طریقہ جس پر تحقیق ہو رہی ہے وہ یہ کہ کسی صحت مند شخص کی آبادی کو بیمار شخص میں منتقل کیا جائے۔ اس کا طریقہ فیکل ٹرانسپلانٹ ہے۔ اس طریقہ علاج کی تفصیل پڑھنے میں شاید ناگوار ہو لیکن اس کے عملی استعمال کا آغاز ہو چکا ہے (طریقہ کار نیچے لنک میں)۔ ان جراثیم کے ہمارے اپنے ساتھ رشتے کی تفصیلات میں ہمارے لئے بہت کچھ جاننا باقی ہے لیکن ہم پسند کریں یا نہیں۔ انہیں ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ان کی۔ ہم ان کے ساتھ امن اور اتحاد کا رشتہ بڑھا کر خود اپنی زندگی کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں؟ یہ سوال اب گٹ سائنسٹس کے حوالے۔
گٹ سائنس کے شعبے پر تعارفی آرٹیکل
اگر یہ موضوع آپ کی دلچسپی کا ہے تو اس پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے بہت مشہور اور عام فہم کتاب
Gut: The Inside Story of Our Body's Most Underrated Organ by Giulia Enders
مصنفہ کی ٹیڈ ٹاک دیکھنے کے لئے
جسم کے مختلف حصوں میں جراثیم کی تعداد کی تفصیل کے لئے
مائیکروبز کے ہمارے دماغ سے رشتے کو جاننے کے لئے
یہ ہمارے کھانے کی خواہش پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں
بیماری کے نئے طریقہ علاج کی تفصیل ہہاں سے
اس پوسٹ کا اپنا زیادہ تر متن اس ویڈیو سے لیا گیا ہے