ہم بیماری کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں کہ اپنے آپ کو کیسے بچائیں اور جراثیم کو کیسے ماریں۔ لیکن یہ جراثیم کے ارادے ہیں کیا؟ کہتے ہیں کہ دشمن کو ہرانے کے لئے اس کو سمجھنا ضروری ہے تو پھر بیماریوں کو ایک نئی نظر سے دیکھ لیتے ہیں۔ موذی جراثیم کی نظر سے۔
جراثیم کو ہمیں عجیب عجیب طریقوں سے بیمار کر دینے سے کیا فائدہ ہے؟ پیٹ خراب کر کے یا جسم پر دانے اگا دینے سے ان کو کیا ملتا ہے؟ اور یہ ہمیں مار کیوں دیتے ہیں؟ ایسے جراثیم جو اپنے میزبان کو مار دیں، وہ تو خود بھی مر جائیں گے، تو پھر ایسا کیوں کرنا؟ آخر، یہ چکر کیا ہے؟
کسی بھی دوسری نوع کی طرح جراثیم اپنی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ اور یہ اتنے سادہ نہیں جتنا کئی بار ان کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی اربوں سال کے کھیل کے بعد آج تک پہنچے ہیں۔ ایک مریض آگے جتنے لوگوں کو بیمار کرے گا، یہ ان کی فتح ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ مریض کو زیادہ دیر تک بغیر مارے بیمار رکھنا اور اس سے مرض زیادہ سے زیادہ افراد میں منتقل کر دینا ان کی جیت ہے۔ اس کے لئے انہوں نے طرح طرح کے طریقے ڈھونڈے ہیں کہ یہ انسانوں سے انسانوں میں اور دوسرے جانوروں میں منتقل ہو سکیں۔ ہماری بیماری کی “علامات” دراصل ان کے کامیابی کے چالاک حربے ہیں۔
سب سے کم محنت والا طریقہ انتظار ہے۔ یہ حکمت عملی وہ جراثیم اپناتے ہیں جو اپنے میزبان کے مرنے کے بعد دوسرے سے کھائے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ سیلمونیلا بیکٹیریا ایسے کرتا ہے۔ اگر گوشت کو ٹھیک پکایا نہ جائے تو یہ کھانے والے تک پہنچ جاتا ہے۔ سوشی کھانے والی جاپانیوں میں بھی یہ مچھلیوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔
کچھ جراثیم اتنا انتظار نہیں کرتے۔ یہ اپنی سواری میزبان کو کاٹنے والے کیڑے سے لیتے ہیں۔ اس کے لعاب کے ذریعے۔ یہ سواری دینے والے کیڑوں میں مچھر، پسو، زی زی مکھی وغیرہ ہو سکتے ہیں۔ ملیریا، طاعون، ٹائفس وغیرہ ان سے پھیلتا ہے۔ کچھ جراثیم ایک اور گندی حرکت کرتے ہیں اور ماں سے بچے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان سے سفیلس، روبیلا اور ایڈز جیسے مرض پھیلتے ہیں۔
کچھ جراثیم معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اپنے میزبان کی ایناٹومی میں تبدیلی لے آتے ہیں۔ چیچک کے دانے اس کا ایک طریقہ ہیں۔ ان سے پھر آگے کا سفر شروع۔
پھر کچھ زیادہ تیز پھیلنے والی حکمتِ عملی اختیار کرنے والے فلو، زکام، کالی کھانسی جیسے جراثیم ہیں۔ یہ اپنے میزبان کو کھانسنے یا چھینکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہر چھینک ان جراثیم کا بادل لے اڑتی ہے جو کسی اور کے مہمان بن سکتے ہیں۔ ہیضے کا جراثیم اپنے میزبان کو ڈائیریا اسی مقصد کے تحت کرتا ہے۔
اپنے میزبان کے رویے کو بدلنے میں کوئی ریبیز کے وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نہ صرف یہ کتے کے لعاب میں پہنچ جاتا ہے بلکہ کتے کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ ہر ایک کو کاٹے۔ اس کا کاٹنا اس وائرس کی آگے منتقلی کا راستہ ہے۔ کتے کا یہ رویہ کتے کی زندگی تو ختم کر دے گا لیکن کتے کا جارحانہ رویہ اس وائرس کے لئے کامیابی ہے۔
ہمارے نکتہ نظر سے پھوڑے، ڈائیریا، کھانسی، چھینکیں بیماری کی علامات ہیں جبکہ جراثیم کے نکتہ نظر سے اس کے لئے براڈکاسٹ ہونے کی سٹریٹیجی۔ ایسے جراثیم کا مفاد ہمیں بیمار کر دینے میں ہے۔ لیکن پھر کچھ جراثیم ہمیں مار کیوں دیتے ہیں؟ ان کو تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
جراثیم کے نکتہ نظر سے یہ ایک ناخواستگی میں ہونے والا افسوسناک واقعہ ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو آگے پھیلا چکا ہے تو میزبان کا مر جانا بھی بڑی ناکامی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگر واپس اپنے نکتہ نظر کی طرف آئیں تو ہمارا اپنا خودغرض مقصد زندہ اور صحت مند رہنا ہے اور اس کے لئے ان کو مار دینا اچھا طریقہ ہے۔ انفیکشن ہو جانے کے بعد جسم کا ایک جواب بخار ہے۔ بخار بیماری کی علامت نہیں، ہمارے دفاعی نظام کا حربہ ہے جو ان کو “پکا” کر مارنا چاہتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کی ریگولیشن جینیاتی کنٹرول میں ہے۔ اگر یہ درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو جراثیم کو بڑھنے کے لئے اچھا ماحول نہیں مل پاتا۔ ایک اور حربہ امیون سسٹم کو حرکت میں لے آنے کا ہے، جو چن چن کر جراثیم کو قتل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جسم میں اینٹی باڈیز بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر ایک مرتبہ بیماری ہو جائے تو پھر ٹھیک ہو جانے کے بعد اس کے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔ خسرہ، ممپس، کالی کھانسی، روبیلا اور شکست کھا جانے والی چیچک کے جراثیم کے خلاف اس طرح کی مدافعت ان کی مثال ہیں۔ (ویکسین کا بھی یہی اصول ہے)۔
لیکن افسوس ۔۔۔ کچھ چالاک جراثیم ہمارے مدافعتی نظام کے قابو نہیں آتے۔ انہوں نے اپنے مالیکیولر ٹکڑے بدلنے کی تکنینک سیکھ لی ہے۔ یہ وہ اینٹی جن ہیں جن کو ہمارے جسم میں اینٹی باڈیز شناخت کرتی ہیں۔ فلو کی بدلتی شکلیں اس کی مثال ہیں اور اسی وجہ سے فلو کی ویکسین کو ہر وقت اپ ڈیٹ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ملیریا اور سونے کی بیماری بھی اسی طرح کی عیاری والے حربے رکھتے ہیں جبکہ سب سے چالاک ایڈز کے جراثیم ہیں جو ایک مریض کے اندر اندر رہتے ہوئے بھی نئے اینٹی جن بنا لیتے ہے جس سے میزبان کا امیون سسٹم کو ناکارہ کر دیتی ہے۔
ہمارا ایک اور جواب، جو سب سے سست ہے، جینیاتی ہے اور یہ نیچرل سلیکشن ہے۔ ہر بیماری کے خلاف کچھ لوگ جینیاتی طور پر مدافعت رکھتے ہیں۔ ایک وبا میں ایسے لوگوں کے بچنے کا امکان زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں لمبی مدت میں انسانی آبادی جو کسی بیمار کرنے والے جراثیم کا سامنا کرتی رہی ہو، اس آبادی میں بیماری کے خلاف مدافعت جیناتی طور پر آ جاتی ہے یعنی ایسے جراثیم والے علاقوں کی آبادی ان مقامی پیتھوجن کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے۔ جینیاتی دفاع میں اس طرح کی مثالیں سکل سیل جین ہے جو سیاہ فام افریقیوں کو ملیریا سے بچاتی ہے۔ ٹے سیکس جین ہے جو آشکینازی یہودیوں کو تپدق سے بچاتی ہے یا سسٹک فائیبروسس جین ہے جو شمالی یورپ میں رہنے والوں کو بیکٹیریل ڈائیریا سے بچاتی ہے۔ جراثیم اور ان کے میزبانوں کے درمیان ہتھیاروں کی یہ دوڑ چلتی رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بیماریاں ہجوم کی بیماریاں کہی جاتی ہیں، یہ صرف اس وقت پھیلتی ہیں جہاں گنجان آبادی ہو۔ یہ بڑے شہروں میں آسانی سے پھیلتی ہیں اور ان کی تاریخ پرانی نہیں۔ چیچک 1600 قبلِ مسیح کو، ممپس 400 قبلِ مسیح سے، جذام 200 قبلِ مسیح سے، وبائی پولیو 1840 سے، ایڈز 1959 سے۔
تاریخ میں مہلک ترین بیماریاں وہ رہی ہیں جو انسانوں میں جانوروں کے ذریعے پہنچیں۔ ان کی مثالوں کے لئے تپدق اور چیچک جو مویشیوں سے انسانوں میں آئے۔ خسرہ جو رنڈرپیسٹ سے آیا، فلو جو بطخ اور سور سے آیا، کالی کھانسی جو کتوں سے آئی، فالکیپرم ملیریا جو مرغی سے آیا۔ اونینگ یونگ بخار اور ایڈز جو بندروں سے آئے۔
اس کی وجہ کیا ہے؟ گائے میں رہنے والا چیچک کا جراثیم گائے کے لئے تو مہلک نہیں لیکن انسانوں میں آ کر ان کو “غلطی” سے مار دیتا ہے۔ حالانکہ اس جراثیم کے بڑھنے کے مقصد کے لئے مریض کا جلد مر جانا ٹھیک نہیں تھا۔ مہلک وبائی امراض جب پھیلے تو انہوں نے بڑی اور گنجان آبادیوں کو ختم کیا۔ قبرستان بھر دئے۔ پھر ہم اور یہ کہیں اکٹھے رہنا سیکھ گئے، کہیں ہم نے ان کو ختم کر دیا، کہیں ان کو قابو کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا، کہیں جینیاتی دفاع حاصل کر لیا، کہیں یہ بدل گئے اور کہیں ان کی فتوحات جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج دنیا میں انگریزی زبان بولنے والا سب سے بڑا خطہ شمالی امریکہ ہے۔ لیکن یہ زبان یہاں سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو صرف یورپ کے ایک چھوٹے جزیرے پر بولی جاتی تھی۔ اس کے یہاں پر پھیلنے میں، یورپ میں فیوڈل نظام کے خاتمے اور جمہوریت کے آغاز میں اور دنیا کی تاریخ بنانے میں ان موذی جراثیم نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ چیچک، طاعون، خسرہ، ہیضہ اور کئی طرح کی وبائیں تاریخ میں آبادیوں کے بڑے حصوں کو ختم کرتی رہیں۔ سیاسی نقشہ پلٹاتی رہی ہیں۔ ملیریا اور فلو نے دنیا کی معاشی اور سیاسی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان موذی اور حقیر جراثیم کا حصہ تاریخِ اقوامِ عالم میں حقیر نہیں۔ حالانکہ ان کا مقصد تو سادہ ہے۔ یہ تو بس زیادہ سے زیادہ پھیلنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تو بس یہ اس کے لئے استعمال کرتے ہیں۔