زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اگر اس کو ایک سال میں سکیڑ دیا جائے تو انسان کی کہانی آخری روز کے آخری آدھ گھنٹے کی ہے۔ پرندوں کے علاوہ باقی ڈائنوسارز کو مرے ابھی پانچ روز گزرے ہیں۔ ممالیہ یا پھولدار پودوں کا ارتقا دسمبر میں ہوا تھا جبکہ پودوں نے خشکی کا سفر نومبر میں کیا۔ جانوروں اور پودوں کے پیچیدہ جاندار نومبر میں ہی آئے۔ اکتوبر سے پہلے زمین کی تقریبا تمام زندگی ایک خلیے والے جانداروں پر مشتمل تھی۔ یہ ننگی آنکھ سے دیکھ نہیں جا سکتی تھی (اور آنکھ کا ارتقا اس وقت تک ہوا بھی نہیں تھا)۔ زندگی اپنے مارچ میں آغاز سے ایسے ہی رہی تھی۔ جتنی زندگی آج ہم اپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، یہ اس زمین پر زندگی کی طویل نظم کا آخری بند ہے۔ اس مفروضاتی کیلنڈر میں میں مارچ سے اکتوبر تک انہی یک خلوی جراثیم کا بسیرا تھا۔
یہ اس زمین کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ بیکٹیریا مٹی میں غذائیت لے کر آتے ہیں، آلودگی کو توڑتے ہیں۔ کاربن، نائیٹروجن، سلفر اور فاسفورس کے زمینی سائیکل چلا رہے ہیں،۔ ان عناصر کو ایسے کمپاوٗنڈ میں بدل کر جسے جانور اور پودے استعمال کر سکیں۔ پھر ان جانوروں اور پودوں کو مرنے کے بعد نامیاتی مادے میں بدل دیتے ہیں۔ یہ وہ جاندار تھے جنہوں نے پہلے بار سورج کی توانائی کو فوٹوسنتھیسز کے ذریعے استعمال کرنا سیکھا۔ انہوں نے آکسیجن بنائی، اتنی بنائی کہ زمین کو ہمیشہ کے لئے بدل ڈالا۔ اس وقت ہم جو آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں لے کر جا رہے ہیں، اس کا بڑا حصہ انہوں نے بنایا ہے۔ ابلتے چشموں، اینٹارٹیکا کی برف، سمندر کی تہہ میں ڈکار لیتے آتش فشانی دہانے، زمین کی اور سمندر کی سطح کے نیچے یہ بھرے پڑے ہیں۔ یہ بادلوں میں بھی ہیں۔ برف اور بارش کے لئے بیج کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس قدر زیادہ ہیں کہ جتنے جراثیم آپ کی آنت میں ہیں، وہ کہکشاں کے ستاروں سے زیادہ ہیں۔
جانور ارتقا کے کیک کی بالائی تہہ ہوں گے لیکن یہ پورا کیک جراثیم ہیں۔ اس قدر چھوٹے کہ ایک عام بیکٹیریا کا سائز میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے۔ ایک بال کی موٹائی میں کئی درجن سما سکتے ہیں۔ ہم ان کو نہ دیکھ سکتے اگر خورد بین ایجاد نہ ہوتی۔ اس سے پہلے ہم ان کو بالواسطہ طریقے سے جانتے تھے۔ صرف منفی اثر کے طور پر۔ جب تپ دق یا ہیضہ وغیرہ ہو جاتے۔ ان وباوٗں نے انسانی معاشرت پر گہرے اور طویل مدتی اثر چھوڑے۔ جو جراثیم منفی اثر رکھتے ہیں، ان کی انواع کی تعداد اس ان گنت انواع میں سو سے بھی کم ہو گی۔ لیکن اپنے دئے گئے ان تاریخی زخموں کی وجہ سے ہمارا ان کے بارے میں تاثر کچھ اچھا نہیں۔ حالانکہ ہمارے اپنے اندر ان کا بڑا کردار زندگی کے محافظوں کے طور پر ہے۔ یہ خود ایک خفیہ عضو کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے ارتقا کی چابک دستی اور پھرتی انکو بائیوکیمسٹری کے فنکار بناتی ہے، جو کسی چیلنج سے نبردآزما ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ وٹامن اور منرل پیدا کرتے ہیں جو غذا میں نہیں ہوتے، زہریلے کیمیکلز کو توڑتے ہیں۔ جسم میں ان کی بھیڑ کی وجہ سے نقصان پہنچانے والے جراثیم کو پہنچنے میں دقت ہوتی ہے۔ کئی بار ان حملہ آوروں کو کیمیکل حملے سے بھی مار بھگاتے ہیں۔ ایسے مادے پیدا کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری قوتِ شامہ متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے اعضاء کے بڑھنے کو گائیڈ کرتے ہیں۔ ہمارے دفاعی نظام کی تربیت کرواتے ہیں۔ دوست اور دشمن کی تمیز سکھاتے ہیں۔
ان سے ہماری اس پارٹنر شپ کی اہمیت سمجھنے کے لئے: اگر دنیا سے تمام کے تمام جراثیم ختم ہو جائیں تو ہو گا کیا؟ سب سے پہلے تو تمام انفیکشن دنیا سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔ بہت سے طفیلے کیڑے بھی ختم ہو جائیں گے۔ لیکن بس، اچھی خبر ادھر ہی ختم۔ چرنے والے جانور، جیسا کہ بھیڑ، گائے، ہرن، بارہ سنگے وغیرہ بھوک سے مر جائیں گے کیونکہ ان کو گھاس کے سخت ریشے ہضم کرنے کے لئے پیٹ کے جراثیم کی ضرورت ہے۔ دیمک بھی اسی وجہ سے غائب ہو جائیں گی اور ان کو کھانے والے جاندار۔ پودوں کا رس چوسنے والے تمام کیڑے کیونکہ وہ اپنی غذا میں نامکمل اجزاء کے لئے بیکٹیریا کے محتاج ہیں۔ گہرے سمندر میں کیچوے، شیل فش اور کئی دوسرے جاندار جن کی توانائی کا انحصار ان پر ہے۔ اور اس تاریک دنیا کے خوراک کے تانے بانے گر جائیں گے۔ کم گہرے سمندر میں کورل کا انحصار خوردبینی الجی اور بیکغیریا کی انواع و اقسام کولیکشن پر ہے، کمزور پڑ جائیں گی۔ رنگ کھو دیں گی اور ان پر منحصر زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
انسانوں پر اتنا منفی اثر نہیں ہو گا۔ کئی دوسرے جانوروں کی فوری موت ہو جائے گی لیکن انسان ہفتوں، مہینوں یا برسوں بھی گزارا کر سکتے ہیں۔ صحت پر اثر پڑے گا لیکن اس سے پہلے کہیں زیادہ سنجیدہ مسائل کا سامنا ہو گا۔ فضلہ تیزی سے بڑھ رہا ہو گا کیونکہ جراثیم تلف کرنے کے بادشاہ ہیں۔ ہمارے مویشی مر چکے ہوں گے۔ فصلوں کو بحران کا سامنا ہو گا کیونکہ نائیٹروجن فکس کرنے والے جراثیم نہیں رہے ہوں گے۔ ان کے بغیر دنیا کا سبز رنگ غائب ہونا شروع ہو جائے گا۔ زیادہ تر انواع تو ویسے ہی مٹ جائیں گی۔ جو چند بچیں گی، ان کی تعداد بڑی تھوڑی رہ جائے گی۔
جراثیم اہم ہیں۔ ہم ان کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ ان سے ڈرتے رہے ہیں، ان کو برا سمجھتے رہے ہیں۔ یہ تاثر کم علمی کا نتیجہ ہے۔ ان کی باقی زندگی سے ہمارے ساتھ تعاون کی تاریخ پرانی ہے۔ اس زمین پر نیچرل ہسٹری کی بنیاد رکھنے والے عظیم نیچرلسٹ یہ نہ نظر آنے والے جراثیم ہیں۔
اگر لائیبریری میں مائیکروبائیولوجی کی کتاب دیکھیں تو عام طور پر اتنی ضخیم ہوتی ہے کہ کسی بغیر ہیلمٹ کے سر والے پر گر جائے تو خاصا نقصان کر سکتی ہے۔ اس میں ایسے جراثیم کے بارے میں باب جو ضرر رساں نہیں، اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ پیپر کٹ دے سکتا ہے۔ لیکن یہ سب بدل رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں اب ان کو باقی جانداروں کی طرح ہی پڑھا جا رہا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی اور متنوع صورت یہی ہے۔ باقی جانداروں کی طرح، کبھی ہمارے دشمن، کبھی پارٹنر، کبھی بس اپنے کام سے کام رکھنے والے۔ یہ اتنے بُرے نہیں۔